377

انصاف کا دہرا معیار

لاہور کے رہائشی پان فروش جمشید اقبال جسے سال 2013 میں احترام رمضان آرڈیننس کے تحت 5 دن کی سزا سنائی گئی تھی۔ ملزم اقبال کی نولکھا بازار میں پان سگریٹ کی دوکان تھی وہاں رمضان آرڈیننس کی خلاف ورزی پر مجسٹریٹ نے وہی پر ہی عدالت لگا کر 5 دن کی سزا سنا دی اور جیل بھجوا دیا جسے 6 سال بعد سال 2019 کی رمضان میں رہائی ملی۔

ملزم نے کب سوچا تھا یہ 5 دن کی سزا وہ 6 سال بھگتے گا بعد ازا 5 دن کی یہ قید کی سزا عدم توجہی کے باعث چھ سال پر مشتمل ہوگئی۔ اب سوچئیے ان کی زندگی کے یہ قیمتی چھ سال کون لوٹائے گا اسکا زمہ دار کون ہے؟ چھ سال انکے گھر والوں پر کیسے بیتی ہوگی کیسے انکے بچوں نے پل پل اپنے والد کا انتظار کیا ہوگا۔

ملزم جمشید اقبال کا قصور یہ تھا وہ ایک غریب تھا؟ ملزم کا قصور یہ تھا کہ وہ کسی سیاسی گھرانے سے تعلق نہیں رکھتا تھا؟ ملزم کا قصور یہ تھا وہ کسی پارٹی کا عہدیدار یا رکن اسمبلی نہیں تھا؟ کیا 5 دن کی سزا کو 6 سال تک چلانے والے ججز استغاثہ اور وکلا کو اس کی سزا ملے گی؟ کیا دنیا کے کسی مہذب معاشرے میں ایسا ہونا سوچا جا سکتا ہیں؟

کیا اسلام کے نام پے ملک کو اس دن کے لیے حاصل کیا تھا؟ کیا اسلام میں بھی ایسا کچھ جائز ہے؟ نہیں تو پھر یہ سب کیوں؟ انصاف کا یہ دوہرا معیار کیوں؟ یہ تو ملزم جمشید اقبال تھا جس کا غریب ہونا اور متوسط طبقے سے ہونے کا قصور کی وجہ سے پانچ دن کہ سزا 6 سال پے محیط ہوگئی ہیں۔

اب آئیے دوسری کہانی سنیے۔ یہ تھا حمزہ شہباز جو رکن قومی اسمبلی بھی رہ چکے ہے اور اب صوبائ اسمبلی کے رکن اور اپوزیشن لیڈر ہے انکے والد پنجاب کے حکمران رہے اور تایا 3 بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ جب نیب نے کرپشن کی ٹھوس ثبوت کے بنیاد پر تحقیقات کے لیے وارنٹ گرفتاری لیکر گرفتاری کے لیے انکے گھر پہنچ گئی تو پہلے انہوں نے گرفتاری دینے سے انکار کیا اور مزاحمت کی اتفاق سے وہ دن چٹھی کا تھا اور اس دن عدالتوں کو بھی چٹھی ہوتی ہے۔ مگر ملزم کا نام حمزہ شہباز تھا اور انکے والد قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیر اعلی پنجاب ہے اور تایا وسابق وزیر اعظم رہ چکے ہیں تو کیسے انکو انصاف نہ ملتا۔ پھر سب نے دیکھا نے دیکھا چٹھی والے دن لاہور ہائ کورٹ کے چیف جسٹس نے عدالت لگاکر حمزہ شہباز کو ضمانت دی اور گرفتاری سے روک دیا۔

قانونی ماہرین کے مطابق کے پاکستان کے تاریخ میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی ہے جس میں اسطرح چٹھی والے دن کسی ملزم کو ضمانت دی گئی ہو اور وہی چیف جسٹس نے اگلے دن سانحہ ماڈل کی ایک متاثرہ لڑکی جنکے والدہ کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے وقت قتل کیا گیا تھا چھ گھنٹے کی انتظار کروا کے ملاقات نہیں کیا کیونکہ اس متاثرہ لڑکی میں وہی صفات نہیں تھے جو حمزہ شہباز میں ہیں۔ پاکستان کے ستر سالہ تاریخ میں کسی نے بھی نظام عدل کی درستگی کے لیے کام نہیں کیا بلکہ جب بھی موقع ملا خراب ضرور کیا۔

اپنے ملازموں کو جج بھرتی کروا کے پھر ان سے مرضی کے فیصلے لیے گئے جیسے وہی حمزہ شہباز کے والد ماضی میں ایک جج کو کال کر کے مرحومہ بے نظیر کو ایک کیس سزا دینے سات سال سزا دینے کی ہدایات دے رہے ہیں۔ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد پاکستان کو کوئی ایسا حقیقی راہنما نہیں ملا جو پاکستان کی حقیقی معنوں میں نمائندگی کرتا ہو۔ جو بھی آیا لوٹ کے چلا گیا اندرون بیرون ملک جائیدادوں کا انبار لگایا مگر دوسری طرف کی عام عوام کے صوورتحال کا اس سے اندازہ لگائے کہ 5 دن کی سزا سے 6 سال کی قید کاٹی۔

پاکستان یقینا اسلام کے نام پر بنا ہے مگر بدقسمتی سے نااہل حکمران ملے اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں انشاءاللہ ایک ایک ہو کے سب نشان عبرت بن جائینگے جنہوں نے اس ملک کو لوٹا اس ملک کے نظام انصاف کو برباد کیا جس سے آج ہم دینا سے اتنے پیچھے رہ گئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں