ویسٹرن وال، یا ویلنگ وال جسے اردو میں مغربی دیوار کہا جاتا ہے، مسلمان اسے بُراق وال کہتے ہیں، کیونکہ معراج کی رات نبی صلی اللہ وسلم نے اپنا بُراق اس دیوار کے ساتھ مسجد اقصیٰ والی سمت باندھا تھا۔ یہ دیوار چونے کے پتھر سے بنی، پرانے یروشلم شہر کے اندر واقع ہے اور اقصیٰ کمپاؤنڈ کے اردگرد بنی ہوئی چاروں دیواروں میں سے ایک ہے۔ یہ دیوار ہیروڈ دا گریٹ کے بنائے ہوئے یہودیوں کے دوسرے ٹیمپل کا حصہ تھی، جو بعد میں اقصیٰ کمپاؤنڈ کی چار دیواری کے ساتھ مل گئی۔
ہیروڈ دا گریٹ نے یہ دیوار اور دوسرا ٹیمپل حضرت عیسی علیہ اسلام کی پیدائش سے انیس سال پہلے بنانا شروع کیا تھا، اور چار بی سی تک ہیروڈ کی موت کے بعد اسے نامکمل حالت میں ہی چھوڑ دیا گیا تھا، اسے بعد میں رومن عیسائیوں نے یروشلم فتح کرنے کے بعد 324 عیسوی میں گرا دیا، اور یہودیوں کے یہاں داخلے پر مکمل پابندی لگا دی، سوائے انکے سالانہ ماتم کے دن جسے (تیشابی او) بھی کہا جاتا ہے اور اس دن یہودی انکے ٹیمپلز کے گرنے پر اسکی باقیات یعنی مغربی دیوار کے ساتھ لگ کر روتے ہیں، اپنی عبادت کرتے ہیں، اس طریقے سے یہ یقین کرتے ہیں کہ انکا خدا ان سے راضی ہوجائے گا۔ 324 عیسوی میں رومن عیسائیوں نے یروشلم یہودیوں سے چھین کر تین سو سال تک اس پر حکومت کی تھی اور 638 عیسوی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یروشلم فتح کرنے کے بعد اسے مسلم خلافت کا حصہ بنایا تھا۔ اس دیوار میں درمیانے سائز کے پتھر بنواُنیہ کے دور میں لگائے گئے، اور چھوٹے سائز کے پتھر عثمانیہ دور میں تُرکوں نے لگوائے۔
یہاں یہودی کالی ٹوپیاں اور کالے کوٹ پہنے اپنے ہاتھوں میں اپنی مقدس کتاب پکڑے اُونچا اُونچا پڑھ رہے تھے، اور ساتھ میں اپنے ٹمپلز کی تباہی پر رو رہے تھے۔ ہم نے یہاں بہت ساری تصاویر اور ویڈیوز بنا لیں، اس دوران ہمیں احساس ہوا کہ مغرب کی نماز کا وقت قریب ہے، لہذا جلد سے جلد وضو تازہ کر کے مسجد عمر رضی اللہ عنہ میں نماز مغرب ادا کی جائے۔ یہودیوں کی وضو کرنے والی جگہ سب کے سامنے تھی اور دو ہینڈلوں والے سٹیل کے لوٹے بھی وہاں پڑے ہوئے تھے، لیکن وہاں سب کے سامنے کھلی جگہ پر اسلامی طریقے سے وضو کرنا ہمیں عجیب لگا، کہیں یہودی بھائی ناراض نہ ہوجائیں، لہذا وضو کیلئے ٹوائلٹس میں جانے کا فیصلہ کیا گیا، ان ٹوائلٹس اور اقصیٰ کمپاؤنڈ میں موجود ٹوائلٹس میں زمین آسمان کا فرق تھا، یہاں بہت زیادہ صفائی تھی، ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے یہ فائیو سٹار ہوٹل کی ٹوائلٹس ہیں اور اقصیٰ کمپاؤنڈ والی ٹوائلٹس عام پاکستانی مسجد کی ٹوائلٹس کی طرح لگ رہی تھیں۔
یہودی ٹوائلٹس کے اندر تمام لوگ ایک خاص جگہ پر اپنے ہیٹس اور لمبی کالے سلکی بالوں والی ٹوپیاں رکھ کر اندر جا رہے تھے، فراغت پر واپس آتے ہوئے ہیٹس اور ٹوپیاں واپس لے جاتے تھے، یہاں کچھ دیر کیلئے یہ خیال بھی آیا کہ پاکستان میں مسجد سے جوتے چوری ہوجاتے ہیں، یہاں مہنگے ہیٹس کیوں چوری نہیں ہوتے، شاید یہودی کچھ پاکستانیوں کی طرح غریب یا تُھرے ہوئے نہیں ہوتے جو ہیٹس چوری کرتے پھریں، انہی خیالات میں ایک ٹوائلٹ میں حمزہ بھائی چلے گئے اور ایک میں میں داخل ہوگیا، اندر جاتے ہی ایک جھٹکا لگا کہ یہاں ٹوائلٹس یورپ کی طرح سے پانی کے بغیر ٹشوپیپرز والی تھیں، جہاں وضو نہیں ہوسکتا تھا، میں اسی پریشانی میں باہر آگیا کہ اب وضو شاید مسجد جا کر ہی کیا جائے گا، تھوڑی دیر انتظار کے بعد حمزہ بھائی کو باہر آتے دیکھا جو وضو کر کے آرہے تھے، تو پتا چلا کہ کچھ ٹوائلٹس ہینڈی کیپس کیلئے ہیں جنکے اندر سنک میں دو ہاتھیوں کیساتھ یہودی وضو والا لوٹا بھی موجود ہے، ایسی ہی ایک ٹوائلٹ میں وضو کیا، یونیق لوٹے کی تصاویر لیں، اور ہم مختلف تنگ گلیوں سے ہوتے ہوئے مسجد عمر کی طرف روانہ ہوگئے۔
گلیاں اتنی تنگ اور غیر ہموار تھیں، کہ ہمیں اکیلے مسجد عمر تک پہنچنا مشکل لگ رہا تھا، اسلئیے ایک دوکان کے باہر بنچ پر بیٹھے صاحب سے مدد مانگنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان سے مسجد عمر کا پوچھا ہی تھا، کہ یہ اچھل کر کھڑے ہوئے اور ہمیں ساتھ آنے کا ایسے اشارہ کیا جیسے مسجد ساتھ والی گلی میں ہی ہو اور اسنے بھی وہاں ہی نماز پڑھنے جانا ہو۔ راستے میں یہ صاحب چلتے چلتے ہمارا انٹرویو بھی لیتے جارہے تھے اور ہمارے پوچھنے پر اس علاقے کے بارے میں بھی بتاتے جارہے تھے، انہی سے ہمیں پتا چلا کہ اندرون یروشلم میں نوے فیصد فلسطینی مسلمانوں کی دکانیں ہیں، ہم کم ازکم پندرہ منٹ تک اونچی نیچی اور اچانک مُڑتی ہوئی گلیوں میں چلتے رہے، یہاں تک کہ ہم مسجد کے مرکزی دروازے تک پہنچ گئے۔
مسجد ایک تنگ سی گلی کے سرے پر واقع تھی، آٹھ دس سیڑھیاں اُتر کر ہم صحن میں پہنچے تو وہاں ایک دیوار کے ساتھ سنگ مرمر کی ایک تختی پر عیسائیوں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے درمیاں ہونے والا معاہدہ عربی زبان میں لکھا ہوا تھا۔ ساتھ موجود چھوٹی سی لائبریری سے اس معاہدے کی ایک کاپی لی اور اندر پہلے سے جاری نماز مغرب کی جماعت میں شامل ہوگئے، گائیڈ صاحب جو خود کو مسلمان ظاہر کر رہے تھے نماز پڑھنے کی بجائے دروازے ساتھ ہی نیچے بیٹھ گئے، نماز کے بعد جب ہم مسجد میں تصاویر بنا رہے تھے، تو وہ صاحب ہمارے ساتھ ساتھ موجود رہے اور اشاروں کنایوں میں مزید زیارتیں کروانے کیلئے کوشش کرتے رہے۔ انکی لالچی طبعیت کو ہم دونوں بھانپ چکے تھے، لہذا حمزہ بھائی سمجھ داری کا ثبوت دیتے ہوئے اسکے ساتھ چلنے سے صاف انکار کر دیا۔ یہ صاحب پیسے نہ ملنے کے خواب چکنا چور ہونے پر منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتے ہوئے وہاں سے چلے گئے، غالباً ہمیں صلواتیں سنا رہے تھے، فلسطینی بھائی کی اس حرکت پر ہم ذرا بھی ناراض نہیں ہوئے، کیونکہ اب تک ہم لوگ یہاں موجود لالچی گائیڈز کی عادات سے آشنا ہوچکے تھے۔
اتنی دیر میں اندھیرا پھیلنا شروع ہوگیا تھا، اور ہم واپس ہوٹل جانے کا پروگرام بناتے ہوئے ابھی دوسری گلی میں مڑے ہی تھے کہ وہاں پر واقع ایک چھوٹی سی تاریخی مسجد پر نظر پڑھ گئی، یہاں اس نیت سے دو نفل پڑھ لئیے کہ شاید کسی عظیم ہستی نے یہاں بھی نماز پڑھی ہی ہوگی، اس مسجد کے باہر موٹرسائیکل پر بیٹھے ایک فلسطینی بھائی سے ڈرتے ہوئے ہولی چرچ آف سیپُلچر Church of the Holy Sepulchre کا پتا پوچھا، کہ شاید یہ بھی اس کام کے پیسے نہ مانگ لے، لیکن ہماری توقعات کے برعکس اس نے بتایا کہ جس مسجد میں ہم نے نماز ادا کی ہے اسکے ساتھ والا دروازہ چرچ کا ہے، یہ بھائی عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے، ہمارے ساتھ انکے برتاؤ نے ہماری یہ سوچ غلط ثابت کردی کہ یہاں تمام فلسطینی لالچی ہی ہیں۔ ہم اسکا شکریہ ادا کرتے ہوئے واپس چرچ کی طرف چل دئیے، چرچ کا باہر کا دروازہ چھوٹا تھا لیکن اندر سے یہ چرچ بہت بڑا تھا۔
سیپُلچر قبر کو کہتے ہیں عیسائیوں کے نزدیک یہ پاکیزہ ترین جگہ ہے، جہاں ان کے خیال میں حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کو مصلوب کیا گیا تھا، مسلمان اس تھیوری کو رد کرتے ہیں اور انکے خیال میں حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کو آسمانوں پر اٹھا لیا گیا تھا، جبکہ انکی جگہ کسی اور کو انکا ہم شکل بنا دیا گیا تھا، جسے کروسیفائیڈ کر دیا گیا۔ عیسائی روایات کے مطابق اس چرچ کی پہلی منزل پر واقع پہاڑی پر حضرت عیسی علیہ اسلام کو مصلوب کیا گیا تھا، وہاں سے تھوڑے فاصلے پر ایک چبوترہ بنایا گیا ہے جہاں حضرت مریم علیہ اسلام کھڑی یہ وحشت ناک منظر دیکھ رہی تھیں، آپ بیٹے کے ساتھ یہ سلوک دیکھ کر برداشت نہ کر پائیں اور بیہوش ہو کر نیچے گر پڑیں۔ مصلوب کرنے کے بعد انکا جسم پہاڑی سے نیچے لایا گیا اور نیچے موجود انسانی جسم کی طرح لمبی چوڑی پتھر کی سِل پر انکے جسم پر تیل لگایا گیا، یہ پتھر آج بھی یہاں موجود ہے جسے عیسائی زائرین چومتے ہیں، یہاں سے حضرت عیسی علیہ اسلام کے جسم کو تھوڑے فاصلے پر موجود جگہ پر دفن کرنے کیلئے لے جایا گیا، یہاں اب ایک خوبصورت گنبد بنایا گیا ہے، دفن کرنے سے پہلے ہی انکا جسم یہاں سے اوپر آسمانوں کی طرف غائب ہوگیا تھا، اس جگہ کی زیارت کرنے کیلئے ہمیں سو سے زیادہ لوگوں کی لمبی لائین میں لگنا پڑا۔
فروری 638 عیسوی میں مسلمانوں نے بغیر جنگ کئیے یروشلم فتح کر لیا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کچھ مسلمان کمانڈروں کے ساتھ شہر کے اندر عیسائیوں سے شہر کا قبضہ لینے آئے تو عیسائیوں کے پیٹری آرچ سیفرون نے انہیں چرچ دکھانا شروع کیا، اسی دوران نماز کا وقت ہوگیا، سیفرون نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو چرچ کے اندر ایک جگہ نماز ادا کرنے کی دعوت دی لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میرے بعد مسلمان یہاں ہی نماز پڑھنا نہ شروع کردیں، انہوں نے ایک پتھر زور سے چرچ کے باہر پھینکا، اور جہاں پتھر گرا وہاں انہوں نے نماز پڑھ لی۔ اس جگہ 1193 عیسوی میں صلاح الدین ایوبی کے بیٹے افضال علی نے مسجد عمر کے نام سے ایک مسجد تعمیر کروا دی، جو آج بھی اسی حالت میں قائم ہے۔
یہاں پہلا چرچ 66 عیسوی میں بنا تھا، جسے رومن بادشاہ ہادری آن نے گروا دیا تھا اور یہاں ایک ٹیمپل تعمیر کروا دیا تھا، لیکن 326 عیسوی میں یہودیت سے عیسائیت میں تبدیل ہونے والے بادشاہ کانسٹنٹائن نے اپنی ماں حلینا کی نگرانی میں اس جگہ کی نشان دہی کروا کر یہاں پر ایک چرچ تعمیر کروایا، یہ چرچ گولگوتھا کی پہاڑی پر تعمیر کیا گیا جو ان دنوں یروشلم کی دیواروں کے باہر کا علاقہ تھا، کئی صدیوں تک یہ چرچ گرایا اور بنایا جاتا رہا، لیکن چرچ کی موجودہ عمارت کی تعمیر بارہویں صدی میں بادشاہ منو مک نے اپنی نگرانی میں کروائی۔ عیسائیوں کے چھ فرقوں میں اس چرچ پر قبضے کیلئے ایک طویل عرصہ تک لڑائیاں ہوتی رہیں اور انہوں نے اسکے کچھ حصوں پر کسی نہ کسی طرح اپنا قبضہ برقرار کئیے رکھا ہے، ان فرقوں میں رومن کیتھولک، گریک آرتھوڈوکس، آرمینیائی آرتھوڈوکس، شامی آرتھوڈوکس، ایتھوپینز اور کاپٹس کے نام شامل ہیں۔
صلاح الدین ایوبی نے 1192 میں اس لڑائی کا یہ حل نکالا کہ چرچ کے مرکزی دروازے کی چابی نزدیک رہنے والے دو مسلمان خاندانوں کے حوالے کر دی، جو ہر روز صبح شام اس چرچ کا دروازہ کھولنے اور بند کرنے لگے، کیونکہ کوئی بھی عیسائی فرقہ اس سلسلے میں دوسرے پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں تھا، موجودہ دور میں بھی ان خاندانوں کا ایک فرد دو مسلح اسرائیلی سپائیوں کے ساتھ اس چرچ کا دروازہ کھولنے اور بند کرنے آتا ہے۔
ہم اس چرچ کے اندر زیارات کرتے کرتے ماضی میں کھو گئے ایسے لگ رہا تھا جیسے سارے واقعات ہماری آنکھوں کے سامنے ہی ہورہے ہیں، ماضی کے اس سفر سے آخرکار ہمیں حال میں واپس لوٹنا پڑا کیونکہ عشاء کی اذان کی آواز ساتھ موجود مسجد عمر سے آنا شروع ہوگئی، ہم نے جلدی سے مسجد کا رخ کیا اور عشاء کی نماز با جماعت میں شامل ہوگئے، اس عظیم مسجد میں آج دو نمازیں با جماعت پڑھ چکے تھے، تھکن اور بھوک محسوس ہورہی تھی، لہذا مختلف تنگ و تاریک گلیوں سے ہوتے ہوئے واپس ہوٹل کی طرف روانہ ہو گئے۔
(جاری ہے)