بیلجئم کے شہر میخلین سے دارالخلافہ برسلز جاتے ہوئے گاڑی کے آرام دہ ماحول میں بیٹھا میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا کہ کتاب ایک سائیڈ پر رکھی اور آنکھیں بند کر کے تھوڑا سستانے لگا۔ تھوڑی ہی دیر میں اسٹیشن آ گیا اور میں جلدی سے اتر آیا اور گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ رات کو کتاب بینی کی طلب ہوئی تو یاد آیا وہ کتاب تو گاڑی میں رہ گئی تھی . بڑا دکھ ہوا کیونکہ مستعار شدہ تھی جو ایک شیعہ دوست نے ایک بحث کے دوران ایک نکتہ کی وضاحت کیلیے دی تھی۔ یہ مولانا مودودی کی تالیف “خلافت و ملوکیت” تھی۔ اسے واپس کرنا ضروری تھا اور بیلجئم میں بیٹھے خریدنا ناممکن تھا۔
بہرحال ایک دوست کو ذکر کیا تو اس نے بتایا کہ ہر سٹیشن پر گمشدہ اشیاء کیلیے مخصوص آفس ہوتا ہے وہاں چیک کرو شاید مل جائے . خیر متعلقہ جگہ پہنچ کر بتایا کہ تین دن پہلے میخلین ٹو برسلز کی ٹرین میں ایک کتاب بھول گیا تھا . خاتون مختلف ریکس میں جھانکنے کیبعد وہ کتاب لائی اور پوچھا کیا یہی ہے . جیسے خزانہ مل گیا ہو تقریباً چیخ کر میں نے ہاں بولا تو اس نے کتاب میرے حوالے کی اور پچاس فرانک بطور فیس کا تقاضا کیا . مجھے بڑا اچنبھا سا محسوس ہوا کہ یہ کیسی نیکی ہے کہ جس کی جزا کا تقاضا بھی یہاں دنیا میں ہی کیا جا رہا ہے۔
امانت لوٹانے کی یہ نیکی اب پاکستان میں ہوتی تو کم کم ہی ہے مگر جو کوئی کرتا ہے تو وہ نیکی کے اجر کیلیے اگلے جہاں اپنے رب سے پر امید ہو گا . خیر میں نے ادائیگی کی اور خوشی خوشی گھر لوٹ آیا۔ گو پاکستان میں یہ کارخیر کم ہو گیا ہوگا مگر بیرون ملک میں پاکستانی اب کسی سے کم نہیں رہے بلکہ ایمانداری کی ایسی ایسی مثال قائم کر گزرتے ہیں کہ انکے میزبان ملک کی انتظامیہ بھی تکتی رہ جاتی ہے۔
اسپین کا شہر بارسلونا دنیا بھر میں “جیب کتروں کے کیپیٹل” کے نام سے معروف ہے . مذکورہ بالا واقعہ کے کچھ برس بعد یہاں ایک پاکستانی اے ٹی ایم میں کیش نکالنے گیا۔ وہاں اندر مشین کے قریب اسے ایک بڑا سا بیگ فرش پر پڑا نظر آیا۔ اس نے زرا سا کھولا تو بیگ کے اندر موجود نئے نئے نوٹوں کی کاپیوں نے اس کی آنکھوں کو چندھیا دیا تو نتھنوں تک پہنچنے والی انکی خوشبو گویا دل لبھانے لگی۔ ایکدم امیر بننے کے خواب آخر کس نے نہیں دیکھے ہوتے۔ کتنے ارمان لیکر وہ پردیس پیارا ہوا تھا مگر اتنے برس بیتنے اور بیحد محنت کے باوجود امیر بننے کی منزل تا حال اس سے کوسوں دور تھی۔ پھر کوسوں کوس سمٹ گئے یا ہوا کوئی اور معجزہ کہ منزل قریب آ پہنچی ، ارمان پورے ہونے اور خوابوں کی تعبیر کا مرحلہ یوں قریب تر آ پہنچا۔ اسے لگ رہا تھا کہ نئے نئے نوٹوں سے بھرا یہ بیگ پرنٹنگ پریس سے ابھی ابھی تازہ چھپ کر جیسے اسی کیلیے یہیں چھپڑ پھاڑ کر آ پہنچا ہے۔
مگر اس سے پہلے کہ اسکی نیت خراب ہوتی ، ایمانداری کا جذبہ اس پر غالب آ گیا اور اس نے فوراً سے پہلے نوٹوں کے اس بوجھ سے خود کو آزاد کرانے کا سوچ لیا . ایماندار پاکستانی نے وہیں سے پولیس کو فون کیا اور فی الفور بینک سے متصلہ اے ٹی ایم پر پہنچنے کی درخواست کی . جلد ہی کچھ سپاہیوں کے ہمراہ ایک پولیس آفیسر آ پہنچتا ہے اور ابتدائی انکوائری میں ہی معلوم پڑا کہ بینک ملازمین ڈسپنسر میں کیش لوڈ کرنے آئے تھے مگر کسی وجہ سے لوڈ نہ کر سکے اور واپس جاتے ہوئے کیش بیگ لے جانا بھول ہی گئے۔ خیر بینک نے بےمثال ایمانداری پر پاکستانی نوجوان کو انعام دینا چاہا جو اس نے لینے سے انکار کر دیا۔ بعدازاں شہر کے میئر نے صحافیوں اور کیمروں کی موجودگی میں اس ایماندار پاکستانی کو ایوارڈ اور تعریفی سند سے نوازا۔
یوں ایک فرد کے ایماندارانہ فعل سے میڈیا میں پاکستان اور پاکستانیوں کی خوب ستائش ہوئی . دیار غیر میں کسی پاکستانی کا ایسا یہ اکلوتا واقعہ قطعاً نہیں ، بلکہ ایسے بے شمار پاکستانی نابغے ہر ملک میں پھیلے ہوئے ہیں . برطانیہ ، سعودی عرب ، دبئی اور دیگر کئی ممالک سے ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں تو بےساختہ اقبال کا یہ شعر زبان پر آ جاتا ہے۔
قابل تحسین ہیں ایسے پاکستانی جو غربت کے باوجود سخت محنت تو کرتے ہیں مگر پرایا دھن خود پر حلال نہیں سمجھتے . دولت کی چمک انکی آنکھوں کو خیرا نہیں کر سکتی . امانت لوٹاتے ہیں تو بدلے میں کسی صلہ کے متقاضی نہیں ہوتے . امانتوں کے امین ان ایمانداروں کو سلامِ آفرین۔