اللہ کا فطری اور عمُومی قانون تو یہی ہے کہ انسان کو وہی ملےگا جسکے لیے وہ کوشش کرے لیکن اِدھر ایمان نے کسی بندے کے قلب کا راستہ دیکھا اُدھر شیطان کا اپنے رب سے شکوہ بڑھنے لگے گا کہ جب تک تُو رزق ، صحت اور اور عزّت کی فراوانی جیسےانعامات جاری رکھے گا کیسے مُمکن ہے یہ بندہ ناشُکری کرے.
تبھی خاص اُس بندے کے لیے اللہ کا خصُوصی قانُون اللہ کے عمُومی قانُون کی جگہ لے لیتا ہے کیونکہ اللہ قُرآن میں واضع طور پر کہتا ہے کہ عقل والے اور بے عقل برابر کیسے ہو سکتے ہیں.
پھر ایمان والوں کا حقیقی امتحان شُرُوع ہوتا ہے.
یہ ذلّت، قِلّت اور عِلّت کا امتحان ہے. لاکھوں میں سے کوئی ایک خُوش قسمت ہی اس امتحان کو پاس کرتا ہے لیکن جو اِس امتحان سے بھی صبر و شُکر سے گُزر جائے اُس کی کئی نسلیں کوثر سے سیراب تو ہونگی ہی خُود اُس کے لیے بھی سابقُون کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے.
چالیس سال کی زندگی ملے یا چار سو سال کی، رزق ، عزّت، صحت وغیرہ جیسی ہزاروں نعمتیں ملیں یا ذلّت، بیماری اور تنگ دستی جیسےامتحان بہرحال وقت گُزرنے کے بعد سب خواب جیسا ہو جانے والا ہے.
باالآخر مرنا ہی ہو گا، باالآخر مُجھے بھُلائے جانے کا عمل میری تدفین کے ساتھ ہی شُروع ہوگا.
جب یہ ہے ہے ہی امتحان تو اللہ میری مرضی کا سوال کیوں پُوچھے.
دوا، دُعا اور کوشش کرنا تو مُجھ پر فرض ہے کیونکہ یہ بھی امتحان کا حصّہ ہے لیکن امتحان تو بس شُکرگُزاری اور ایمان کا ہے تو کیا شُکر صرف رزق، صحت اور اولاد و عزّت سے مشروط ہے.
کاش میں جان پاوٴں کہ بہرحال میں خُود آج کو کل خواب جیسا کہُوں گا جیسے گُزرے کل کو آج خواب جیسا سمجھتا ہُوں.
میرا آج اور آنے والا کل بھی تو گُزرے دنوں جیساہی ہے. یہ بھی ماضی بننے کے لیے دوڑ میں لگا ہے. مُجھے رُکنا تو نہیں چاہیے لیکن دوڑ کو دوڑ ہی سمجھ کربھاگنا ہوگا.
بہرحال اس وقت کو گُزرنا ہے آخر میں شُکرگُزاروں کا اگلی منزلوں کا سفر جاری رہے گا ناشُکرے رُک کر پچھتائیں گے.
شیطان ملعُون سہی اُس کا اللہ سے شکوہ جائز ہے کیونکہ میرا دعوٰی ایمان کا ہے.