سویڈن گھریلو اور انڈسٹرئیل کوڑے کو اکٹھا کرنے اور اسے دوبارہ کارآمد بنانے کے جدید حل میں وسیع مہارت رکھتا ہے۔ کوڑے کی ری سائیکلنگ میں سویڈن دنیا میں نمبر ون ہے، اور اس نے کوڑے سے توانائی بنانے کا نظام بنا کر کوڑے کی قیمت بڑھا دی ہے، اور پورے ملک میں کوڑا زمین میں میں دبانے کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے اور 99 فیصد کوڑا ری سائیکل ہو کر مختلف چیزوں اور توانائی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ سویڈن اس مربوط نظام کیوجہ کوڑے سے پورے ملک میں ہیٹنگ، بجلی، بائیو گیس، بائیو کھاد، اور دوسری مختلف چیزیں بناتا ہے۔ کوڑے کی نوعیت کے اعتبار سے اس پر مختلف کیمیائی عمل کیے جاتے ہیں جو کوڑے سے انتہائی کارآمد چیزیں بنانے میں مدد دیتے ہیں۔
جس کوڑے سے دوسری کارآمد چیزیں نہیں بنتیں اس سے توانائی اور بجلی بنائی جاتی ہے۔ ایک کارآمد ماحول دوست اور مثالی طریقے سے کوڑے سے بجلی پیدا کی جاتی ہے جس سے پورے سویڈن میں ضلع اور بلدیہ کی بنیاد پر ہیٹنگ اور بجلی فراہم کی جاتی ہے۔
سویڈن ایک ٹن کوڑے سے دنیا کے کسی بھی ملک سے سب سے زیادہ توانائی پیدا کرتا ہے، اور پورے ملک میں کوڑا سنبھالنے کا نظام لگاتار بہتری کی طرف جا رہا ہے اور بلدیاتی لیول پر مختلف کمپنیاں پرائیویٹ سیکٹر کے مدد سے کام کر رہی ہیں۔ کوڑے کے نظام میں نئی ٹیکنالوجی بنانا ایک خطرے سے بھرپور اور ہمت والا کام ہے کیونکہ کسی بھی لمحے آپکی ساری محنت اور پیسہ ضائع بھی ہو سکتا ہے۔ سویڈن کا 2020 تک زیرو ویسٹ کا وژن کامیابی کی طرف جا رہا ہے۔
سویڈن نے کوڑے کی ری سائیکلنگ کا ایسا انقلابی نظام بنایا ہے کہ ملکی کوڑا اسکے لئے کم پڑ گیا ہے۔ یہ اتنا انقلابی ہے کہ سویڈن کو اپنے ری سائیکلنگ پلانٹس چلانے کے لئے دوسرے ملکوں سے کوڑا امپورٹ کرنا پڑ رہا ہے۔ سویڈن سالانہ ایک پرسینٹ سے بھی کم کوڑے کو زمین میں دباتا ہے جبکہ %99 کوڑے سے توانائی بجلی ہیٹنگ بائیو گیس بائیو کھاد اور دوسری بہت سی چیزیں بن جاتی ہیں۔ انگلینڈ کا اخبار انڈیپینڈنٹ اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ انگلینڈ ایسا کرنے کا صرف خواب ہی سوچ سکتا ہے۔ انگلینڈ اپنا کوڑا ٹرانسپورٹ کی مد میں بہت زیادہ پیسے خرچ کر ری سائیکل کے لئے سویڈن بھیجتا ہے۔
انگلینڈ نے یورپی یونین کے ساتھ اپنے کوڑے کو 2020 تک 50 پرسینٹ تک ری سائیکل کرنے کا ٹارگٹ رکھا ہوا ہے۔ ری سائیکلنگ پلانٹس لگانے میں سینکڑوں ملین پاؤنڈز خرچہ آئے گا اور اس سی کئی نوکریاں بھی نکلیں گی۔ مگر انگلینڈ 2014 تک صرف 45 پرسینٹ کوڑا ری سائیکل کر رہا تھا جو بجٹ کٹ اور افراط زر کی وجہ سے اب 44 پرسینٹ ہو گیا ہے۔ یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ اس فگر کو اور بھی خراب کر دے گا۔ یورپ نے 2030 تک 65 پریسنٹ کوڑا ری سائیکل کرنے کا ٹارگٹ رکھا ہوا ہے اور یوکے اپنے ہمسایوں سے بہت پیچھے ہے۔
سویڈن کے لوگ شروع سے ماحول دوست چیزیں پسند کرتے ہیں اور سویڈن نے 1991 سے معدنی ایندھن پر بہت زیادہ ٹیکس لگایا ہوا ہے جسکی وجہ سے اب یہاں آدھی سے زیادہ بجلی قبل تجدید ذرائع سے حاصل ہوتی ہے۔ سویڈن کی کوڑے کی ری سائیکلنگ کی ڈائریکٹر انا کارن گریپوال کہتی ہیں کہ ہم نے کئی دہایوں پہلے لوگوں کو خبردار کر دیا تھا کہ اپنا کوڑا باہر پھیکنے کی بجائے کچرا کے کنٹینروں میں پھینکیں۔ اسکی وجہ سے اب لوگ اپنا کوڑا اپنے گھر کے باہر لگے کنٹینرز میں خود چھانٹ کر پھینکتے ہیں یعنی پلاسٹک ، کاغذ ، گتا، اخبار، کچن کا سامان ، بیٹریز ، کانچ کا سامان اور اخبارات علیحدہ علیحدہ کنٹینرز میں پھینکا جاتا ہے اور ہر کنٹینر کی کوڑا اٹھانے والی گاڑی علیحدہ ہوتی ہے جسمیں ڈرائیور بغیر ہاتھ لگائے آٹو ریمورٹ کنٹرول کی مدد سے نہ صرف کوڑے کے کنٹینر کو گاڑی میں الٹ دیتا ہے بلکہ کنٹینر کو واپس اپنی جگہ رکھ بھی دیتا ہے اس طرح کوڑا اپنے ابتدائی مرحلے میں ہی چھانٹا جاتا ہے اور بعد میں بہترین طریقے سے ری سائیکل ہو جاتا ہے۔
سویڈن نے کئی دہائیوں سے ایسا نظام بنایا ہے کہ پرائیویٹ کمپنیاں خود ہی دوسرے ملکوں سے کوڑا امپورٹ کر کے دھرادھر توانائی بنا رہی ہیں اور یہ توانائی سویڈن کے ہیٹنگ نیٹ ورک میں جارہی ہے اور وہاں سے شدید سردی کے موسم میں لوگوں کے گھر دفاتر اور سکول گرم رہتے ہیں۔
جب فضول کوڑے کو مختلف پلانٹس میں جلایا جاتا ہے تو اسکا دھواں جو باقی ملکوں میں چمنی سے باہر نکل جاتا ہے سویڈن میں اس کو محفوظ کر کے سردیوں میں گھروں کو گرم رکھا جاتا ہے۔ یہ پلانٹس بلدیاتی لیول پر کام کرتے ہیں اور پورے سویڈن میں لوگوں کے گھروں میں بغیر وقت ضائع کیے ہیٹنگ مہیا کرتے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ وڈ فائبر جو کہ کاغذ میں استعمال ہوتا ہے اسے یکے بعد دیگرے چھ دفعہ بار بار جلانے سے وہ مکمل راکھ میں تبدیل ہوتا ہے۔ اس طرح سویڈن ایک ہی چیز سے کئی دفعہ توانائی حاصل کر لیتا ہے۔ سویڈن کے پاس ایسی مہارت ہے کہ بار بار نیا کوڑا جلانے کی بجائے ایک ہی دفعہ کے کوڑے سے کئی گنا زیادہ توانائی حاصل کر لی جاتی ہے۔
یورپی یونین نے کوڑے کو زمین میں دبانے پر بہت زیادہ جرمانہ اور ٹیکس رکھا ہوا ہے اور ہر ملک اتنے زیادہ ٹیکسز اور جرمانوں سے بچنے کے لئے اپنا کوڑا سویڈن کے حوالے کر دیتا ہے اس طرح سویڈن مفت کوڑا بھی لے لیتا ہے اور ٹرانسپوڑٹیشن کا خرچہ بھی بچا لیتا ہے۔ سویڈن کے کوڑے کی ری سائیکلنگ کے پلانٹس 24 گھنٹے چلتے رہتے ہیں اور کوڑا سٹور کرنے کے لئے زمین کے اندر بڑی بڑی جگہیں بنائی گئی ہیں جن سے زمین کے اوپر جگہ کی بچت بھی ہو جاتی ہے اور لوگوں تک اس کی بدبو بھی نہیں جاتی۔ سویڈن میں ہر بلدیہ اپنے پلانٹس پر خود خرچہ کرتی ہے اور اپنی توانائی اور بجلی کی ذمہ دار ہوتی ہے۔
انگلینڈ میں لوگ مکس کوڑا باہر پھینک دیتے ہیں جسکی وجہ سے کوڑے کو بعد میں علیحدہ علیحدہ کرنے میں مشکل پیش آتی ہے اور دوسرا انگلینڈ میں سویڈن کی طرز کے مہنگے اور جدید ری سائیکلنگ پلانٹس بھی نہیں ہیں اس لئے اسے اپنے خرچ پر اپنا کوڑا سویڈن بھیجنا پڑتا ہے تاکہ وہ یورپی یونین کے ٹیکس اور جرمانے سے بچ سکے۔
یوکے کو یورپی یونین سے نکلنے سے پہلے اپنے ری سائیکلنگ پلانٹس ہنگامی بنیادوں پر لگانے ہونگے اس پر کئی بلین پاؤنڈز خرچہ تو آئے گا مگر اس سے زیادہ نوکریاں پیدا ہونگی اور یوکے کی کوڑے سے بنا مہنگا راء میٹیریل خریدنے سے بھی جان چھوٹ جائیگی۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
p.p3 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Geeza Pro’; color: #454545}
p.p4 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}