321

گوگل کا ‘ڈوڈل’ کے ذریعے مہدی حسن کو خراجِ عقیدت

گوگل مہدی حسن کے علاوہ ماضی میں نصرت فتح علی خان، عبدالستار ایدھی، نور جہاں اور نازیہ حسن سمیت بہت سے بڑے پاکستنی فن کاروں کو ڈوڈل کے ذریعے خراجِ عقیدت پیش کرتا رہا ہے۔
کراچی — انٹرٹینمنٹ کی دنیا میں 18 جولائی کی تاریخ عالمی شہرتِ یافتہ پاکستانی گلوگار اور غزل گائیک مہدی حسن کا یومِ پیدائش ہے۔ وہی مہدی حسن جن کے بارے میں ‘بلبلِ ہند’ لتا منگیشکر نے کہا تھا کہ “مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتا ہے۔”

لتا کی اس بات سے کسی کو انکار نہیں۔ مہدی حسن کے فن کی دنیا دیوانی ہے۔ حتیٰ کہ دنیا کا سب سے بڑا سرچ انجن ‘گوگل’ بھی ان کی سال گرہ پر انہیں خراجِ عقیدت پیش کرنا نہیں بھولا۔

‘گوگل’ نے 18 جولائی کی مناسبت سے بدھ کو مہدی حسن کا خصوصی ‘ڈوڈل’ جاری کیا ہے۔

گوگل مہدی حسن کے علاوہ ماضی میں نصرت فتح علی خان، عبدالستار ایدھی، نور جہاں اور نازیہ حسن سمیت بہت سے بڑے پاکستنی فن کاروں کو ڈوڈل کے ذریعے خراجِ عقیدت پیش کرتا رہا ہے۔

اپنے منفرد فن کی بدولت ہی مہدی حسن کو ’شہنشاہِ غزل‘ کہا جاتا تھا۔ انہوں نے غزل کے ساتھ ساتھ پاکستانی فلم انڈسٹری کو جتنے بھی گانے دیے وہ فلم انڈسٹری کے لیے آبِ حیات ثابت ہوئے۔

مہدی حسن 18 جولائی 1927ء کو بھارتی ریاست راجستھان کے ایک چھوٹے سے علاقے لونا ‘ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا فن خداداد تھا اور اسی لیے صرف آٹھ سال کی چھوٹی سی عمر میں انہوں نے اپنی آواز کے جادو سے لوگوں پر سحر طاری کرنا شروع کردیا تھا۔ اسی وقت ان کی آواز سننے والوں نے اندازہ لگالیا تھا کہ یہ لڑکا آگے جاکر بہت بڑا گلوکار بنے گا۔

کچھ برسوں بعد جب 1947ء میں پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو مہدی حسن اپنے بزرگوں اور اہل خانہ کے ساتھ ہجرت کرکے کراچی آ بسے۔

سن 1957 میں اپنے فن کے اظہار کے لیے انہوں نے ریڈیو کو چنا۔ اس دور میں وہ ٹھمری گانے میں بے مثال تھے۔ ریڈیوکے لیے کام کرنے کے دوران ہی انہیں اپنی گائیکی میں روایت پسندی کے ساتھ ساتھ جدت طرازی اور نئے تجربات کرنے کا موقع ملا جن کی بدولت وہ دنیا بھر میں جانے پہچانے گئے۔

ان کی شہرت میں فلمی گانوں کا بھی بہت اہم کردار رہا۔ یہ فلمی گائیکی ہی تھی کہ جس نے انہیں ’پیار بھرے دو شرمیلے نین‘ جیسا سدا بہار گانا دیا۔

فلمی دنیا میں انہوں نے 1962ء میں قدم رکھا اور فلم ’فرنگی‘ کے لیے ایک گانے کو اپنی آواز دی جس کے بول تھے ’گلوں میں رنگ بھرے، بادِ نو بہار چلے۔۔‘

یہی وہ گانا تھا جس نے مہدی حسن کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا اور جہاں سے مہدی حسن نے کامیابی کا جو سفر شروع کیا وہ امر ہوتا چلا گیا۔

آج آپ ‘ایک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا۔۔‘ سن لیں یا ’زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں۔۔‘ گنگنا لیں۔۔ یا ’جب کوئی پیار سے بلائے گا۔۔‘ گالیں۔۔ مہدی حسن کی آواز کہیں پھیکی پڑتی نظر نہیں آئے گی۔

وہ پاکستان کے لیجنڈری گلوکار تھے جنہوں نے 24 ہزار سے زیادہ گانے اور غزلیں گائیں۔ اگر کوئی ان کے مقبول ترین گانوں اور غزلوں کی فہرست تیار بھی کرے تو یہ فہرست بھی بہت طویل ہوگی۔

مہدی حسن کو ان کی زندگی میں ہی ’تمغۂ امتیاز‘، ’ستارۂ امتیاز‘ اور ’تمغۂ حسنِ کارکردگی‘ کے علاوہ بھی ڈھیر سارے اعزازات اور ایوارڈ سے نوازا گیا۔

مہدی حسن کو 1999ء میں سانس کے مرض نے آگھیرا تھا۔ جن دنوں وہ کراچی کے آغا خان اسپتال میں بسترِ مرگ پر تھے ان دنوں راقم نے ان سے ملاقات کی تھی۔

اس وقت بھی مہدی حسن کو اپنی تکلیف سے زیادہ رنج اس بات کا تھا کہ ان کے مرض نے زندگی میں ہی ان سے ان کا فن چھین لیا تھا۔ بیماری کے سبب انہوں نے کئی برس پہلے ہی گانا ترک کردیا تھا۔

اس سے قبل وہ کئی سال تک وہیل چیئر پر بھی رہے ۔اس دوران ان کے اعزاز میں بہت سی تقریبات بھی ہوئیں، ٹی وی پروگرامز بھی ہوئے جن میں وہ وہیل چیئرپر بیٹھ کر ہی شرکت کرتے رہے لیکن اس دوران وہ بہت خاموش رہتے تھے اور اکثر ان کی آنکھیں نم رہتی تھیں۔

ان کی یہ نم آنکھیں ان کے حالات سے زیادہ اس حقیقت کا اظہار تھیں کہ ایک فن کار وقت سے پہلے ہی اپنی آواز کھو بیٹھا ہے۔

پھر 13 جون 2012ء کا وہ دن بھی آیا جب مہدی حسن اسپتال میں علاج کے دوران راہی ملک عدم ہوئے۔ انہوں نے 84 سال کی عمر پائی۔۔

لیکن کیا مہدی حسن جیسے لوگ کبھی مرجاتے ہیں۔۔؟ شاید نہیں۔۔ البتہ بقول گلزار، “مہدی حسن کی آواز کو چوٹ لگی ہے، وہ زخمی ہے۔۔”

ورنہ مہدی حسن لاکھوں پرستاروں کے دلوں میں اور ان کی یادوں میں اب بھی زندہ ہیں اور آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں