تقریباً ایک ہفتہ پہلے، روس کے ایوانِ زیریں نے ایک ابتدائی مسودہ قانون کی منظوری دی تھی، جس میں ’رُونیٹ‘ نام کے ایک ایسے ادارے کے قیام کی تجویز دی گئی ہے، جو ایک مقامی نیٹ ورک ہوتے ہوئے عالمی انٹرنیٹ سے الگ آزادنہ کام کرنے کا حامل ہو گا۔ اس کا موازنہ چین کے ’گریٹ فائر وال‘ سے کیا جا رہا ہے۔
اس مسوہ قانون کا مقصد ملک میں کسی سائیبر حملے کی صورت میں، آزادانہ طور پر انٹرنیٹ کا نظام جاری رکھنا ہے۔ تاہم اب ناقدین اور چند قانون ساز، بظاہر اس پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ ملک کے اندر یہ تکنیکی صلاحیت موجود ہی نہیں کہ وہ کوئی ایسا اہم ادارہ بنا سکے۔
روس میں سرکاری تحویل میں کام کرنے والے میڈیا کا کہنا ہے کہ یہ قانون سازی، مغربی ممالک سے کشیدگی کے ردِ عمل میں کی گئی تھی۔ مغربی ممالک، ماسکو پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ خود سائیبر حملے کرتا ہے، اور سوشل میڈیا کے پلٹ فارموں کا استعمال کرتے ہوئے، غیر ملکی انتخابات میں مداخلت کرتا ہے۔
ناقدین، بحرحال اس قانون سازی کو، ملک میں بنیادی سائبر ڈھانچے پر کنٹرول حاصل کرنے کی ایک چال قرار دے رہا ہے۔
قانونی مسودے میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ ویب کی ساری ٹریفک اور ڈیٹا، سسٹم سے گزرے جن کا کنٹرول سرکاری تحویل میں ہے، اور ایک ایسا مقامی نظام تشکیل دیا جائے، جو روس کے اندر ایک ایسی غیرمعمولی صورت حال میں بخوبی کام کر سکے جب اس کا رابطہ غیر ملکی ڈھانچوں سے کٹ چکا ہو۔
تاہم گزشتہ ہفتے جب اس مجوزہ قانون کا مطالعہ کیا گیا تو چند اقلیتی قانون سازوں نے اس پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا کہ روس ایک ایسا تکنیکی انفراسٹرکچر کیسے تعمیر کر سکے گا جو تمام قانونی تقاضوں پر بھی پورا اتر سکے۔
ایک قانون ساز ویلری گارٹنگ نے اسمبلی میں یہ سوال کیا کہ آپ میں سے کتنے ارکان انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر ہیں۔ جب صرف ایک قانون ساز نے ہاتھ اٹھایا تو ویلری کا کہنا تھا کہ صرف ایک۔ تو پھر ہم کیسے اس قانونی مسودے کو منظور کریں، جس کی ہمیں کچھ سمجھ ہی نہیں ہے۔
جسٹ رشیا پارٹی کی ویلری کا کہنا تھا کہ روس، تاروں کے سوا کسی بھی قسم کا آئی ٹی ہارڈویئر نہیں بناتا، تو پھر اںٹرنیٹ کیسے بنائے گا۔