عید الفطر:جسم باقی ہے۔ روح نکل چکی ہے
آج عید الفطرہے ، ہر طرف مسرتیں ہی مسرتیں دیکھنے کومل رہی ہیں، ایک
دوسرے کو مبارک بادیاں دی جا رہی ہیں، گھروں میں دسترخوان سجے ہوئے ہیں اور
مختلف پکوانوں سے دوستوں اور رشتے داروں کی ضیافتوں کا اہتمام کیا جا رہا
ہے ۔ بلاشبہ عید الفطر کے دن خوشی منانا ہمارا حق ہے۔ جوکسی بھی طرح سے ہم
سے چھینا نہیں جا سکتا۔ عید کا دن خوشی ومسرت سے ہی عبارت ہے۔ مگر اللہ
عزوجل نے اس عظیم دن کے پیچھے وہ عظیم مقاصد، مصلحتیں اور حکمتیں چھپا رکھی
ہیں کہ جن سے صرف نظر کر کے نہ تو عید الفطر کا حقیقی مقصد پوراہوسکتا ہے۔
اور نہ وہ خوشی حاصل ہوسکتی ہے۔ جو اللہ عزوجل کو محبوب ہے ۔
عید الفطر
ایک طرف تو ان روزے داروں کے لیے پیغام مسرت ہے۔ جنہوں نے پورے مہینے خدا
کی اطاعت و بندگی میں اپنے آپ کو باندھے رکھا، جنہوں نے صحیح معنوں میں
رمضان المبارک کا حق ادا کیا اور ایک مہینے کی دینی وجسمانی تربیت کے بعد
اللہ عزوجل نے انہیں انعام و اکرام سے نوازا اور یہی انعام و اکرام عید
الفطر کی شکل میں ہمارے سامنے ہے ۔ دوسرے ان غریبوں اورمفلسوں کے لیے خوشی
کی نوید ہے۔ جو اپنی تنگ دستی کی وجہ سے خوشیوں سے محروم رہ جاتے ہیں اور
مفلوک الحالی ان کی خواہشات کا گلا گھونٹ دیتی ہے ۔
دراصل عید الفطر ان
یتیم بچوں کے لیے ہے۔ جن کے سرپردست شفقت رکھنے والا کوئی نہیں ہوتا، جنہیں
کوئی عیدی نہیں دیتا اورجواچھالباس پہننے تک کوترس جاتے ہیں۔ مزہ تو جب
ہے۔ کہ ہم اپنی خوشیوں میں غریبوں کو بھی شامل کر لیں، یتیموں کے سروں
پردست شفقت رکھیں، انہیں عیدی دیں اور ان کے غموں میں شریک ہوں مگر اب
ایسامعلوم ہوتا ہے۔ کہ عید الفطر کا حقیقی پیغام اور اس کے تقاضوں کو عملی
طورپرسمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ عید ہرسال آتی ہے۔ اور اپنا یہ پیغام
سناسناکرہم سے رخصت ہو جاتی ہے۔ مگر ہم اپنی خوشیوں میں اتنے مگن رہتے ہیں
کہ عید کے تقاضوں اور پیغامات کو کنارے لگاتے چلے جاتے ہیں۔
یہ کتنا بڑا المیہ ہے۔ کہ ہم عید کے دن انہیں لوگوں سے گلے ملتے ہیں
جنہیں ہم جانتے پہچانتے ہیں جو ہمارے اپنے ہوتے ہیں یا جو ہمارے احباب و
رشتے دار ہوتے ہیں۔ ہمارے گھروں کے دسترخوان بھی ایسے ہی لوگوں کے لیے وسیع
کیے جاتے ہیں اور انہیں لوگوں کے لیے لذیذ اور مرغن غذائیں تیار کی جاتی
ہیں جبکہ غریبوں اور بے کسوں سے گلے ملنے سے ہم کتراتے ہیں یا کم از کم
اتنی گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کرتے جیسی دوسروں کے ساتھ کرتے ہیں اور ہم
میں بہت سارے کم نصیب وہ بھی ہیں جو غریبوں سے گلے ملنے اورسلام کرنے میں
کسرشان سمجھتے ہیں۔ ہمارے گھروں کے دسترخوان تک ان کی رسائی نہیں ہو پاتی۔
ذرا نظر اٹھا کر دیکھیے کہ سماج میں کتنے لوگ ہیں جو عید الفطر کے پیغامات
کو عملی جامہ پہنا کر خود بھی خوش ہوتے ہیں اوردوسروں کو بھی اپنی خوشیوں
میں شریک کر کے خوش رکھتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے۔ کہ عید الفطرکاجسم باقی ہے۔
روح نکل چکی ہے ۔ ہم تو مرغن غذاؤں سے شاد کام ہولیتے ہیں اور اللہ کی
نعمتوں سے خوب خوب فیضیاب ہو جاتے ہیں مگر کتنے غریب ایسے ہیں کہ اس دن ان
کے گھروں میں چولہے۔ تک نہیں جلتے، انہیں سویاں تک نصیب نہیں ہوتیں، ان کے
بچوں کو کوئی عیدی دینے والا نہیں ہوتا اور وہ نئے کپڑوں سے بھی محروم
رہتے ہیں۔۔ کیاعید الفطراسی کا نام ہے؟یاد رکھیے عید الفطر کا حق اسی وقت
اداہوسکتا ہے۔ جب ہم غریبوں اور پریشان حالوں کو بھی اپنی خوشی تقسیم کریں،
ان کے ساتھ مساویانہ سلوک کریں اور ان کے ساتھ ہم دردی و تعاون کریں۔ عید
الفطر کا ایک پیغام یہ بھی ہے۔ کہ آپس کی شکایتوں، دلوں کے رنج اور عداوتیں
دور ہو جائیں، روٹھے ہوئے لوگوں کو منایا جائے مگرشایدایسانہیں ہو پاتا۔
اس کے ذمے دار ہم خود ہیں کیوں کہ ہمارے دلوں کو اخلاص کی دولت نصیب نہیں۔
ہم عید کے دن بڑے جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے سے گلے ملتے
ہیں ہم ایک دوسرے سے مصافحہ بھی کر لیتے ہیں مگر کیا بات ہے۔ کہ دل کے دامن
سے کدورت کے داغ دھبے نہیں دھل پاتے۔ دلوں پر کدورت کی گرد جو پہلے بھی
جمی تھی اب بھی برقرار رہتی ہے ۔
عید الفطر کے دن ہمارے مولوی حضرات یا امام صاحبان تقریباًہرمسجدسے یہ
اعلان کرتے یا کراتے ہیں کہ عید کی نمازسے پہلے پہلے صدقۂ فطر ادا کرو ورنہ
روزے زمین وآسمان کے بیچ معلق رہتے ہیں یعنی ان کی قبولیت صدقۂ فطر کی
ادائیگی کے بعد ہی ہوتی ہے ۔ یہ اعلان سن کر بعض بے چارے جاہل اورمفلس عوام
جوکسی صورت میں بھی فطرہ ادا کرنے کے اہل نہیں ہوتے وہ اپنے روزے قبول نہ
ہونے کے ا مکان سے فطرہ دیتے ہیں حالاں کہ یہ لوگ خود فطرے کی رقم کے مستحق
ہوتے ہیں۔ آپ یقین کیجیے کہ ان میں نہ جانے کتنے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بے
چارے یہ اعلان سن کرادھارپیسے لے کر فطرہ ادا کرتے ہیں مگر دال میں نمک کے
برابرایسے محصلین، امام صاحبان اور مولوی حضرات ہوں گے کہ جنہیں ا س کی فکر
ہو گی اور وہ اس طرف سنجیدگی سے غور کرتے ہوں گے۔ زیادہ تر لوگ اس سمت اس
لیے نہیں سوچتے کہ اس سے ان کے مدرسے کے بجٹ اور ان کے کمیشن کا حصہ شامل
ہوتا ہے ۔ اب توایسے لوگ بھی فطرہ وصول کرنے لگے ہیں جوکسی بھی طرح اس کا
حق نہیں رکھتے۔۔ کیا یہ حضرات اس طرح کی حرکتیں کر کے غریبوں کا حق نہیں
کھا رہے ہیں ؟آخر عوام تک دین کی صحیح معلومات کیوں نہیں پہنچائی جاتیں
؟اندازہ کیجیے کہ ایک غریب آدمی جو زکوٰۃ و فطرہ ادا کرنے کا بالکل بھی
مستحق نہیں بلکہ لینے کامستحق ہے ۔۔ عید الفطر کے دن اس کے چھوٹے چھوٹے بچے
نئے اور اچھے اچھے کپڑوں کی ضد کرتے ہیں۔ لذیذ پکوانوں کی خواہش ان کے
دلوں میں جاگ اٹھتی ہے۔ مگر تنگ دستی اور مفلوک الحالی ان کی تمنائیں پوری
کرنے سے عاجز رکھتی ہے ۔ ایسی صورت میں اگر وہ صدقہ فطرہ ادا کرے تو کیا
ہماری ذمے داری نہیں بنتی کہ ہم اسے اصل مسئلے سے آگاہ کریں اوراس کی
ضروریات پوری کرنے کی کوشش کریں۔
ہمارے سماج میں ایسے لوگوں کی بہتات ہے۔ کہ جن کی زبانیں ہمیشہ غریبوں
کے ساتھ ہم دردی، جذبۂ ترحم، تعاون، اظہار یک جہتی اورمساوات جیسی باتوں سے
تر رہتی ہیں۔ مقررین ا س موضوع پر تقریریں کرتے نہیں تھکتے، مقالہ نگاران
حضرات مقالوں پر مقالے لکھتے چلے جاتے ہیں، سماجی تنظیمیں ببانگ دہل غریبوں
کے حقوق کا نعرہ بلند کرتی ہیں مگر خود ان میں کتنے فی صد لوگ ہیں جو اپنی
باتوں پر عمل کرتے ہیں ؟دراصل ہمارے یہاں ریاکاری اتنی عام ہو چکی ہے۔ کہ
اللہ کی پناہ!اب لوگ اللہ کو خوش رکھنے کے بجائے اپنے نفس کو خوش رکھتے ہیں
ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی بھی ہے۔ جو عالم یا عالم نما ہیں۔ بدقسمتی سے
عید الفطر کے دن بھی ہمارے یہاں ریاکاری اور نمائش کی جانے لگی ہے ۔ میں
پورے وثوق کے ساتھ کہ سکتاہوں کہ خدا کی بارگاہ میں ایسی خوشیوں کی کوئی
اہمیت نہیں کہ جہاں غریبوں کا گزر نہ ہو، جہاں یتیموں کی رسائی نہ ہو اور
جہاں پریشان حالوں کی مزاج پرسی نہ ہو۔
اللہ عزوجل نے سال بھرمیں دو عیدی ں عید الفطر اور عید الاضحی اس لیے
رکھی ہیں کہ اگر مصیبت زدوں کوسال بھر کوئی نہیں پوچھتا تو کم از کم ان
دنوں میں انہیں کوئی پوچھ ہی لے مگرافسوس یہاں بھی نتیجہ صفر ہی رہتا ہے۔
الا ماشاء اللہ۔ بڑے خوش نصیب اور قابل رشک ہیں وہ لوگ جو عید کے پیغامات
کوسمجھتے بھی ہیں اور حتی المقدوراس کے تقاضوں کو پورا بھی کرتے ہیں ایسے
ہی لوگوں کی عید ، عید ہوتی ہے۔ اورایسے ہی لوگوں کی خوشیاں، خوشیاں۔ ورنہ
ایسی خوشی سے کیا فائدہ جسے دیکھ کر غریب کی آنکھیں نم ہو جائیں، اسے اس کا
احساس محرومی تڑپا دے اور آپ کی واہ اسے آہ پر مجبور کر دے۔
مجھے شکوہ دنیا داروں سے نہیں ان دین داروں سے ہے۔ جو ہمیشہ دین دین کی
رٹ لگاتے ہیں مگرایسے مواقع پران کی ’’دین داری‘‘ کہاں غائب ہو جاتی ہے؟یاد
رکھیے حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی بھی بڑی اہمیت ہے ۔ حقوق اللہ تو
خدا کے فضل سے معاف ہوسکتے ہیں مگر حقوق العباد صاحب معاملہ کے ذریعے ہی
معاف ہوں گے۔ عید الفطر بھی حقوق العباد ادا کرنے کا دن ہے۔ اگراس دن بھی
اس کی ادائیگی میں کوتاہی ہوئی تاس کا نتیجہ ہمیں دنیا میں بھی بھگتنا پڑے
گا اور آخرت میں بھی۔ عید الفطر بے پناہ برکتیں، سعادتیں، رحمتیں
اورمسرتیں لوٹنے کا دن ہے۔ اور یہ ساری برکتیں دونوں ہاتھو ں سے وہی لوٹتے
ہیں جو صحیح معنوں میں عید ادا کرتے ہیں۔
آئیے عہد کریں کہ عید کے دن کوئی بھوکا نہ رہے ، کوئی احساس محرومی کا
شکار نہ ہو، کوئی تلخی اور کدورت کی نفسیات میں مبتلا نہ ہونے پائے اور کسی
کا احسا س غربت اس کی آنکھیں نہ ڈبڈبا دے۔ آئیے دعا کریں کہ اے اللہ!تو
عید الفطر کے دن ہم سے وہ کام لے لے جو تجھے پسند ہو۔
٭٭٭
رمضان المبارک کے فوراً بعد عید الفطر کا مطلب کیا ہے؟
جب بندہ تیس دن تک لگاتار روزے رکھتا ہے ، روزے کے سارے عملی تقاضے پورے
کرتا ہے۔ اور اللہ کی اطاعت و فرماں برداری میں پوری پوری کوشش کرتا ہے۔
تو اللہ تعالیٰ تیس دن کے بعد اسے اپنی اس اطاعت شعاری کا ظاہری بدلہ عید
الفطر کی شکل میں عنایت فرماتا ہے ۔ اس دن جب اسے مزدوری ملتی ہے۔ تواس کے
صحن میں بے پناہ خوشیاں رقص کرنے لگتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب کوئی بھی شخص خوش
ہوتا ہے۔ تو وہ چاہتا ہے۔ کہ کہ اس خوشی میں اپنے دوستوں اور گھر والوں کو
بھی شریک کروں چنانچہ عید کے دن انعام یا مزدوری ملنے کے بعد یہ بندہ اپنے
احباب اور اہل خانہ کے ساتھ اپنی مسرتوں تقسیم کرتا ہے ۔ یہ مزدوری یا
انعام ہرمسلمان کو ملتا ہے۔ کہ اس لیے اس دن پوری دنیا کے مسلمان خوشی
مناتے ہیں، ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں کم از کم اس دن تو اپنی
ساری پریشانیاں اور غم و آلام بھول ہی جاتے ہیں۔ اگر غور کریں تو یہ رمضان
بھر کی ہماری محنتوں کی ظاہری مزدوری ہے۔ یہ ہماری اخروی مزدوری کی ہلکی سی
جھلک اور ادنیٰ سامظہر ہے۔ کہ جس کا اللہ عزوجل نے ہم سے وعدہ کیا ہے ۔۔
ذراسوچیں کہ جب عید الفطر کے دن ہماری خوشیوں کی معراج ہو جاتی ہے۔ تو اس
وقت ہماری مسرتیں اور مراتب کس بلندی پر ہوں گے جب ہمیں اس کا حقیقی بدل،
حقیقی جزا اور حقیقی مزدوری دی جائے گی۔ یہاں سوال یہ ہے۔ کہ رمضان المبارک
کے فوراً بعد عید الفطر کی شکل میں بندوں کو تحفہ دینے کی کیا ضرورت پیش
آئی؟
اللہ عزوجل نے بندوں کو مزدوری دینے میں قطعی دیر نہیں لگائی، اُدھر ان
کی ایک مہینے کی تربیت کے مراحل ختم ہوئے، ڈیوٹی پوری ہوئی اور اِدھر عید
الفطر، انعام یا یوں کہیے کہ مزدوری کی شکل میں ہمارے ذہن و فکر پر مسرتوں
کا نغمہ گانے لگی۔۔ اس میں اگر غور کیا جائے تو یہ پیغام بھی پوشیدہ ہے۔ کہ
مزدوری دینے میں قطعاً دیر نہیں کرنا چاہیے۔۔ ایک حدیث شریف میں تو یہاں
تک ہے۔ کہ مزدوروں کی مزدوری ان کا پسینہ سوکھنے سے پہلے ہی دے دو۔۔ عید
الفطر کو رمضان المبارک کے اختتام کے فورا بعد رکھنے میں غالباً یہی حکمت
کارفرما ہے۔ کہ بندوں کو بدلہ دینے میں بالکل بھی دیر نہ کی جائے۔ یہ تواس
کی ظاہری جزا یا مزدوری ہے۔ مگر خدا کے یہاں اس کی جو جزا ہے۔ وہ ہمارے ذہن
و فکر سے ماورا ہے۔ نہ ہم اسے قلم بند کرسکتے ہیں اور نہ ہی ہماری سوچیں
اس کا ادراک کرسکتی ہیں۔
یہ بھی یاد رکھنے کی چیز ہے۔ کہ یہ عظیم المرتبت خوشی کا موقع اللہ نے
ہمیں صرف بدلہ دینے، مزدوری تقسیم کرنے یا ان کی محنتوں کا صلہ دینے کے لیے
نہیں عنایت فرمایا بلکہ اس کے اندر بے پناہ حکمتیں بھی پنہاں ہیں۔ عید
سعید کی بے شمار مصالح اور مقاصد ہیں جو انفرادی اور اجتماعی طورپرسب کی
تربیت اور ذہن سازی کر کے ایک خوش حال معاشرے کی تشکیل کرنا چاہتے ہیں۔۔
چوں کہ یہ خوشی کا دن ہوتا ہے۔ ساری دنیا کے مسلمان مشترکہ طور پر اپنے
اپنے انداز، طور طریقوں اور اپنی اپنی تہذیب کے مطابق اظہارِ مسرت کرتے ہیں
اور اس مسرت کے موقع پر بہت سارے ایسے کام بھی ہو جاتے ہیں کہ جو صرف اہلِ
ثروت کرسکتے ہیں لیکن بے چارے جو لوگ دولت مند نہیں ہیں وہ صرف اشکوں اور
حسرتوں کے بیچ گھٹ کر رہ جاتے ہیں۔ اظہارِمسرت کے عنوان سے ان کی وہ
خواہشات پوری نہیں ہوتیں کہ جن کے وہ بھی مستحق ہیں اسی لیے اللہ عزوجل
بندوں سے خوشیوں اورمسرتوں کے درمیان توازن و اعتدال کا حکم دیتا ہے۔ یعنی
ایسا نہ ہو کہ مالدار تو اس دن خوب خوشی منائیں ان کے بچے نئے نئے کپڑے
پہنیں ان کے گھروں پر مختلف النوع میٹھے میٹھے پکوان پکیں مگر بے چارہ غریب
مادی آسائش کی عدم فراہمی کی وجہ سے نہ اپنے بچوں کی خواہش پوری کرسکے، نہ
انہیں اچھے کپڑوں اور اچھے کھانوں سے ان کی خوشیوں کودوبالاکرسکے اور نہ
عیدی دے کر اپنے بچوں کے چہروں پر خوشیوں کا غازہ مل سکے۔ اگرایساہوا تو
اس کواس دن بہت زیادہ احساسِ محرومی ہو گا اسے اس کا احساسِ غربت آنکھوں کو
نم کر دے گا۔ ہمارے معاشرے میں افراط و تفریط کے یہ مظاہر ہر جگہ عام ہیں
جومسلم بستیوں میں چند چند قدم کے فاصلے پر دیکھے جا سکتے ہیں۔۔ اللہ
تعالیٰ نے اسی بحران کے خاتمے کے لیے مالداروں پر خاص طور پر یہ ذمے داری
عائد کی ہے۔ وہ اپنی خوشیوں میں غریبوں کو بالضرور شریک کریں، روٹھے ہوؤں
کو منائیں، کم درجہ لوگوں کو گلے لگائیں، بچوں سے پیار کریں، بڑوں سے تعظیم
و اکرام سے پیش آئیں اور خاص طورپرافلاس کے ماروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ گلے گلے
لگائیں تاکہ کم از کم ا س دن تو یہ لوگ پیار کے دو بول سن سکیں۔۔ یہی وجہ
ہے۔ کہ اس دن صاحبِ نصاب مسلمانوں کو کچھ متعینہ فطرہ ادا کرنے کا حکم دیا
گیا ہے۔ اور اتنی سختی سے یہ حکم دیا گیا ہے۔ کہ حدیث شریف میں ہے۔ کہ روزہ
زمین وآسمان کے درمیان معلق رہتا ہے۔ جب تک کہ صدقۂ فطر ادا نہ کیا جائے۔۔
اس سے جہاں یہ بتانا مقصود ہے۔ کہ صدقۂ فطر کی کتنی اہمیت ہے۔ وہاں اس بات
کی بھی تعلیم دینا مقصود ہے۔ کہ غریب وافلاس کے ماروں کو گلے لگائے بغیر
نہ آپ کی مسرتوں کی کوئی حیثیت ہے۔ اور نہ آپ کے روزوں کی۔ اللہ تعالیٰ ان
کے بغیر نہ آپ کی مسرت کومسرت سمجھتا ہے۔ اور نہ آپ کی عبادتوں کو عبادت۔
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کہ اللہ عزوجل نے ہر جگہ اور ہر حکم میں
اعتدال و توازن کو کیوں برقرار رکھا ہے ۔۔ ایسا کہیں بھی نہیں ہے۔ کہ ایک
طرف تو ایک انتہا ہے۔ اور د وسری طرف دوسری انتہا۔۔ اس سے معاشرہ بحران کا
شکار ہو جاتا ہے۔ اور اس کی تعمیری و ترقیاتی صلاحیتیں کند پڑ جاتی ہیں۔۔
عید الفطر کے پسِ پشت کا ر فرما مقاصد و مصالح اورفلسفے کے مطالعے کے بعد
یہ کہنا بجا ہے۔ کہ ہماری خوشیاں اور مسرتیں اللہ عزوجل کے نزدیک اسی وقت
مقبول ہوں گی جب ہم غریبوں کو گلے لگائیں گے اور ہمیں ہماری مزدوری کا
حقیقی مزہ اسی وقت ملے گا جب ہم اپنی اپنی استطاعت کے مطابق غریبوں پر
خیرات و صدقات و عطیات کر کے ان کو بھی خوش کریں گے اور اپنے مولیٰ کو بھی
راضی کریں گے۔
رمضان المبارک میں پورے تیس دنوں تک روزے رکھ کر ہم جتنی بے قراری اور
بے چینی سے عید الفطر کا انتظار کرتے ہیں بلفظ دیگر یوں کہیے کہ اپنی
مزدوری پانے کی خوشی میں ان مسرت آگیں لمحات تک کتنی جلد پہنچ جانا چاہتے
ہیں الفاظ کے پیمانے میں اسے قلم بند نہیں کیا جا سکتا۔۔ رمضان المبارک کی
بہاروں سے لطف اندوز ہونے والے امیر بھی ہوتے ہیں اور غریب بھی۔۔ اللہ کی
طرف سے اس مبارک دن میں ہم سب کو مشترکہ طور پر مزدوری یا انعام دیا جاتا
ہے۔ مگر غریبوں اور ناداروں پراس نے اس مبارک ومسعودموقع پر ایک فضل اور
فرمایا کہ مالدار مسلمانوں کے اموال میں غریب بھائیوں کے لیے ایک متعینہ
حصہ مقرر کر دیا تاکہ یہ اسے پاکر یہ بے چارے غریب بندے روحانی خوشیوں کے
ساتھ ساتھ مادی اور دنیاوی مسرتوں سے بھی ہم آغوش ہوسکیں۔۔
عید الفطر کو محض رسم و رواج کا مجموعہ نہ بنائیں۔ یہ ہم سب کی مشترکہ
دینی و مِلی ذمے داری ہے۔ کہ اسے رسمیات کے پنجرے میں قید ہونے سے بچائیں،
اس کو حقیقی اور معنیاتی طور پرسمجھ کراس کے پیغام کو عمل کی صورت میں فروغ
واستحکام بخشیں اور اللہ کی اواز پر لبیک کہیں تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ
ہمارا پڑوسی، رشتے دار، عزیز دوست کو تو خوشیاں نصیب نہ ہوسکیں اور ہم چمنِ
مسرت کی خوب خوب گل ریزی کریں۔۔ یقین جانیے ہم ان کی دل شکنی کر کے خدا کو
راضی نہیں کرسکتے۔۔ آئیے عہد کریں کہ ہم اس مبارک دن میں خوشیاں تقسیم
کرنے میں کوئی تفریق روانہ رکھیں گے ہمارا دستِ شفقت امیر و غریب سارے بچوں
پر برابر برابر پہنچے گا۔ ہم پوری کوشش کریں گے کہ اس دن کوئی غریب غم گین
نہ رہے ، کوئی بھوکا نہ سوئے اور کوئی بھی خوشیوں سے محروم نہ رہے۔ تو کیا
آپ اس کے لیے تیار ہیں ؟
٭٭٭
عید الفطر اور ہماری دینی و اخلاقی ذمے داریاں
سب سے پہلے عید الفطر کی ڈھیرساری مبارک باد قبول فرمائیے۔۔ مبارکبادیوں
کی یہ سوغات ایک دوسرے کو پیش کیجیے اور اللہ عزوجل کا بے پناہ شکر ادا
کیجیے کہ اس نے رمضان المبارک کے بعد یہ مبارک دن ہمیں نصیب فرمایا۔ عید
الفطر خوشی کا دن ہے ۔۔ یہ مبارک دن اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے بندوں کے
لیے بہت بڑا انعام ہے ، اس کی سعادتوں، برکتوں، رحمتوں اور فضیلتوں کے بیان
سے صفحات بھرے پڑے ہیں مگراس کی حقیقی سعادتیں، برکتیں، رحمتیں اورمسرتیں
اسی شخص کو حاصل ہوں گی جس نے رمضان المبارک کے تقاضے پورے کیے ہوں گے،
رمضان المبارک کی صداؤں پر لبیک کہا ہو گا اورجس نے رمضان المقدس کی روشنی
سے اپنے دل۔ منور کیے ہو ں گے۔ عید الفطر کا دن ویسے توسبھی مسلمانوں کے
لیے خوشی کاسورج لے کر طلوع ہوتا ہے ، چاہے۔ انہوں نے رمضان شریف کا احترام
کیا ہو یا نہ کیا ہو یا روزے رکھے ہوں یا نہ رکھے ہوں لیکن اس عید کے دن
سے جو چاشنی، لذت اورجیسا ذائقہ روزے دار کشید کرتے ہیں اور جو خوشیاں اور
فرحتیں روزے داروں کو نصیب ہوتی ہیں وہ بے روز داروں کو نصیب نہیں ہوتیں
اور ہو بھی نہیں سکتیں۔۔ درحقیقت اگر ہم غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ اللہ
عزوجل نے اس دن کو روزے داروں ہی کے لیے خاص فرمایا ہے۔ بے روزے دار تو ان
کے طفیلی ہوتے ہیں۔ بے روزہ داروں کے لیے عید کا دن اور دیگر ایام ایک جیسے
ہی ہیں اس لیے وہ سروراورروحانی تسکین ان کو کیسے میسرآسکتی ہے۔ جو روزے
داروں کے مقدر میں ہے۔
عید الفطر کے سارے فضائل اور برکتیں اپنی جگہ لیکن اس مبارک دن کا سب سے
عظیم فلسفہ یہ ہے۔ کہ یہ امیروں اور غریبوں سبھی کے لیے خوشی کا پیغام لے
کر آتا ہے ۔۔ یہ ببانگ دہل یہ اعلان کرتا ہے۔ کہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی
اپنی خوشی میں شریک کیا جائے۔ اپنے پڑوسیوں، رشتے داروں، خاندان والوں،
غریبوں اورمفلسوں کا خاص خیال رکھا جائے تبھی صحیح معنوں میں عید الفطر کی
حقیقی خوشی حاصل ہو گی اور عید الفطر کے تقاضے پورے ہوں گے، مگرافسوس آج ہم
عید الفطر کے حقیقی پیغام کوسمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔۔ بڑے افسوس کے ساتھ
کہنا پڑتا ہے۔ کہ آج ہمارا معاشرہ حساس، با غیرت اوردردمندافرادسے خالی
ہوتا جا رہا ہے ۔ ایسے افراد اب دھیرے دھیرے عنقا ہوتے جا رہے۔ ہیں
جودوسروں کا بھی خاص خیال رکھتے ہوں۔ عام طورسے ہمارے معاشرے میں ہوتا یہ
ہے۔ کہ لوگ عید کے دن اپنے گھر والوں اور بیوی بچوں کا تو خوب خیال رکھتے
ہیں ان کے لیے مہنگے سے مہنگے اور اچھے سے اچھے ملبوسات حسب وسعت خرید تے
ہیں۔۔ اس تہوار کے موقع پر بچوں کو ہر خواہش پوری کرنے کی ہر ممکن کوشش
کرتے ہیں اچھے سے اچھے اور اعلیٰ سے اعلیٰ ماکولات و مشروبات سے شادکام
ہوتے ہیں۔۔ اس تہوار کے موقع پران کی فیاضی اپنے شباب پر ہوتی ہے۔ مگر ان
کے ارد گرد ایسے بے شمار لوگ مل جائیں گے جو عید کی لذتوں سے محروم رہ جاتے
ہیں، نہ ان کے پاس کپڑے خریدنے کے لیے پیسے ہوتے ہیں اور نہ عید کی خوشی
حاصل کرنے کے لیے مادی ذرائع۔ ذرا معاشرے میں جھانک کر دیکھے اسی عید کے دن
ایک نہیں بہت سارے گھروں پر چولہا تک نہیں جلتا، اپنے بچوں کو عیدی دینے
کے لیے ان کے پاس پیسے تک نہیں ہوتے اس لیے ان کے بچوں کے چہروں پروہ
خوشیاں دیکھنے کو نہیں ملتیں جودوسروں کے بچوں کے چہروں پر نظر آتی ہیں۔۔
اپنے بچوں کے پھول جیسے چہرے کو مرجھایا ہوا دیکھ کران لوگوں کے دل پر کیا
بیتتی ہو گی کیا کبھی اس کا بھی تصور کیا ہے؟
آپ اندازہ فرمائیں کہ جب خاص عید کے دن یہ بے چارے غریب بچے آپ کے بچوں
کوہنسی خوشی کھیلتے کودتے، ماحول کو خوشیاں تقسیم کرتے، اچھے کپڑے پہنے
ہوئے دیکھتے ہوں گے تو کیا ان کو اپنی غربت کا احسا س نہیں ہوتا ہو گا؟جن
بچوں کے پاس عیدی کے نام پر ایک پیسہ بھی نہ ہو، پہننے کے لیے اچھے کپڑے
نہ ہوں اور خواہشات کی تکمیل کے ذرائع نہ ہو ں تو ظاہر ہے۔ ان کے دل کوٹھیس
ضرور پہنچے گی۔۔ اس لیے ہماری آپ کی سب کی ذمے داری ہے۔ کہ ہم اپنے ساتھ
دوسروں کو بھی اپنی خوشی میں شریک کریں، نادار بچوں کو عیدی تقسیم کریں،
ان کے گھروں پر سوئیاں اور مٹھائیاں بھجوائیں، ان کو مبارک باد پیش کریں،
ان سے نرمی کا برتاؤ کریں اور ان سے مساوات کا رویہ اپنائیں تا کہ ان کو
بھی سماج میں اپنے وقار اور عظمت کا احساس ہو اور وہ اچھے شہری ثابت ہوسکیں
اور وہ بھی عید الفطر کی خوشی میں شامل ہو جائیں۔۔ اگر آپ اپنے معاشرے کی
فلاح چاہتے ہیں اس کو ترقی سے ہم کنار دیکھنا چاہتے ہیں تو اس عید الفطر کے
دن سے زیادہ کوئی اچھا موقع فراہم نہیں ہوسکتا۔ دل سے سارے رنج و غم مٹا
ڈالیے، محبتیں تقسیم کرنا شروع کر دیجیے، آج ہی سے اس کار خیر کی شروعات
خود سے کیجیے، دوسروں کے انتظار میں مت رہیے، اتحاد و اتفاق کا ثبوت پیش
کیجیے اور اخوت اور بھائی چارگی کا مظاہر ہ کیجیے انشاء اللہ سماج میں
صالحیت کا انقلاب برپا ہو جائے گا۔ عید الفطر میں انفرادی نہیں اجتماعی
خوشیاں منائیے در اصل یہی عید الفطر کا پیغام ہے۔ اور یہی اس کا تقاضہ بھی۔
رمضان المبارک کے دن گزار کر یہ مبارک دن بندوں کے لیے اللہ کا انعام
ہے۔ اس دن روزہ رکھنا حرام قرار دیا گیا ہے۔ اور’’ عید ‘‘ کے ساتھ ’’فطر‘‘
کا لاحقہ لگانے کا مقصد بھی یہی ہے۔ کہ یہ اللہ کی نعمتوں سے سیرابی کا دن
ہے۔ اس کی نوازشوں سے محظوظ ہوکراس کا شکریہ ادا کرنے کا دن ہے ۔۔ ہمارے
نوجوان بھائی عموماً عید کے دن۔ لہو و لعب، خرافات، ہلڑ بازی اور ناچ گانوں
میں مشغول ہو جاتے ہیں جو نہایت ہی بری بات ہے۔ اور گناہ عظیم کا سبب
بھی۔۔ روایتوں میں آیا ہے۔ کہ عید الفطر بخشش کا دن ہے ۔ ایک روایت سنیے
حضرت وہب بن منبہ فرماتے ہیں کہ جب بھی عید آتی ہے۔ تو شیطان چلا چلا کر
روتا ہے۔ اس کی بد حواسی اور آہ و زاری دیکھ دیگر شیطان اس کے ارد گرد جمع
ہو کر اس کے رونے کا سبب پوچھتے ہیں تو وہ جواب دیتا ہے۔ کہ افسوس آج کے دن
اللہ نے امت محمدیہ کو بخش دیا ہے ۔۔ لہٰذا تم انہیں لغویات اور خرافات
میں مشغول کر دو۔۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ عید الفطر جو حقیقت میں انعام
الٰہی ہے۔ اس پر ہم کو شکریہ ادا کرنا چاہیے اور لہو و لعب سے کوسوں دور
رہنا چاہیے۔
عید الفطر کے دن غربا و مساکین کی امداد و تعاون کرنا، بیماروں کی مزاج
پرسی کرنا، دوستوں سے اظہار محبت کرنا، اپنے سے کمتروں اور زیر دستوں کا
خیال کرنا، بچوں سے شفقت و نرمی سے پیش آنا، بڑوں کی تعظیم کرنا، نرمی،
رواداری اور بھائی چاری کا رویہ اپنا نا یہ سب ہماری دینی اور اخلاقی ذمے
داریاں ہیں جن سے عہدہ برآ ہو کر ہم اپنا دامن نہیں جھاڑسکتے۔۔ عام طور سے
مسلمان عید کی خوشی منانے کے لیے اپنے گھر والوں اور بچوں کے لیے طرح طرح
کے سامان خرید تے ہیں بلاشبہ بچوں اور گھر والوں کو خوش رکھنا کار ثواب ہے۔
مگر اکثر یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے۔ کہ یہ خرید اری فضول خرچی کے زمرے میں
آ جاتی ہے۔ اگر ہم تھوڑی سی کفایت شعاری سے کام لیں اور غریب بچوں کو بھی
اپنی اس خریداری میں شامل کر لیں اور ان کو اپنے بچے سمجھ کر ان کے لیے کچھ
نہ کچھ خرید لیں تو یقیناً یہ ایک بہت بڑا کار ثواب ہو گا یہ ایک عظیم
دینی، سماجی اور اخلاقی ذمے داری کو پورا کرنا ہو گا۔۔ اس کے جو نتائج
برآمد ہوں گے وہ معاشرے میں ایک مثبت اثر چھوڑیں گے۔۔ اجتماعی طور پر نہ
ہوسکے تو انفرادی طور پر ہی سہی اگر مسلمان اس سمت کمر ہمت کس لیں تو
معاشرے میں یقیناً ایک عظیم انقلاب برپا کیا جا سکے گا۔
چلتے چلتے پھر میں اس بات کا اعادہ کرتا ہوں کہ عید الفطر کا صحیح حق تو
اس وقت ادا ہو گا جب ہم اس کے تقاضوں کو پورا کریں گے اور اس کی ضرورت
اہمیت، افادیت اور مقصدیت پر غور و فکر کر کے اس کو عملی جامہ پہنائیں گے۔
تو کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں ؟
٭٭٭
عید الفطر صرف مالداروں کا تیوہار نہیں ہے
تیوہار کسی بھی مذہب کے ہوں خوشی ومسرت کا استعارہ سمجھے جاتے ہیں۔۔ ان
سے لوگوں کے مذہبی جذبات اور روایتی جنون وابستہ ہوتا ہے ۔۔ اپنے اپنے
مذاہب کو ماننے والے لوگ الگ الگ زاویے سے اور مختلف نقطہائے نظر سے اپنے
مذہبی تیوہاروں کا جشن مناتے ہیں۔۔ ان تیوہاروں کے سرسری جائزے سے ہی
اندازہ ہوتا ہے۔ کہ یہ محض وقتی اور عارضی مسرتیں ہوتی ہیں اور پھر یہ ساری
خوشیاں وقت کی دھول میں دب کر رہ جاتی ہیں۔ ان کے یہاں ان تیوہاروں کے
پیچھے کوئی حکمت اور کوئی۔ مقصد نظر نہیں آتا بس آبا و اجداد کی ایک روایت
چل آ رہی ہے۔ اسی پر چلنا فخر سمجھتے ہیں۔ لیکن اسلام اس تناظر میں کئی
معنوں میں مختلف ہے۔ اس کے تیوہاروں میں بے شمار حکمتیں و مصالح پوشیدہ
ہوتے ہیں جو پورے سماج پر مثبت طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔۔ عید الفطر میں
ذرا آپ غور کریں تو حکمتوں کا ختم نہ ہونے والا ایک طویل سلسلہ نظر آتا ہے۔
اور یہ پورا سلسلہ معاشرے کے امن و امان، سماج کی خوش حالی، فرد اور
معاشرے کی ترقی، اظہارِ یک جہتی، ہمدرد ی و غم گساری، سکون و اطمینان کی
بحالی اور ملت و ملک کی ترقیوں پر جا کر منتج ہوتا ہے ۔۔ عید الفطر صر ف
وقتی طور پر خوشی منا لینے، سوئیں کھا لینے اورآپس میں ایک دوسرے کو مبارک
باد دینے کا نام نہیں ہے۔ بلکہ اس کامقصداس سے کہیں زیادہ بلند ہے ۔ یہ ایک
مکمل نظام ہے ، ایک فلسفہ ہے۔ اور ایک عظیم نشانِ صلاح و فلاح ہے ۔۔ یہ
کوئی دوسرے مذاہب کے تیوہاروں کی طرح نہیں کہ بس خوشیاں منا لیں، رسمی طور
پر گلے مل لیے، مٹھائیاں کھالیں، رقص وسرودکی محفلیں آراستہ کر لیں یا
تحفتاً ایک دوسرے کو دے دیں کہ یہ رواج عرصے سے خاندان میں چلا آ رہا ہے ۔۔
عید الفطر حقیقی مسرتوں کا دن ہے۔ اور مسرت اسی وقت حقیقی معنی میں مسرت
ہوتی ہے۔ جب گھر کے سارے افراد، سارے اہل خاندان، اہل محلہ اور اہل بستی
مسرت و شادمانی کے آبشار میں نہا رہے۔ ہوں۔۔ ایسا نہ ہو کہ خاندان میں ایک
آدمی یا ایک فیملی تو خوشیوں سے سرشار ہے۔ اس کے بچے تومسرتوں کی خوشبو میں
بسے ہوں مگر دوسری فیملی کسی وجہ سے ان خوشیوں سے محروم رہے ۔ اس کی مادی
آسائشیں ا سے اس بات کی اجازت نہ دیں کہ وہ عید کے دن جی بھر کر خوش ہولے
اور اپنا درد و ملال کچھ کم کرسکے۔ عید الفطر کا اورمسرتوں کا یہ تقاضا
نہیں ہے۔ کہ آپ کا بچہ تو عید کے دن نئے نئے کپڑے پہنے اپنے دوستوں کے
جھرمٹ میں خوشیوں کے نعرے لگاتا پھرے مگر آپ کے پڑوسی کا بچہ یہ سب دیکھ کر
آب دیدہ ہو جائے، اس کو کوئی عیدی دینے والا نہ ہو، اس کے سر پر کوئی
دستِ شفقت رکھنے والا نہ ہواوراس کوپیارسے کوئی چمکارنے والا نہ ہو۔۔ اگر
ایسا ہے۔ تو یقین جانیے کہ آپ نے عید الفطر کے حقیقی پیغام کو سمجھا ہے۔
اور نہ آپ کے اندر ہمدردی و غم گساری کا جذبہ ہے ۔ آپ اپنے اردگرد ماحول کا
جائزہ لیجیے تواس افسوس ناک صورت حال کی چبھن آپ ضرورمحسوس کریں کہ
اکثرمسلمانوں نے شعوری یا غیر شعوری طور پر عید الفطر کو صرف مالداروں کا
تیوہار بنا دیا ہے۔ حالانکہ اگر آپ اسلام کے پورے سسٹم پر نظر کریں اور عید
الفطر کے پس منظراوراس کے بین السطورمیں چھپے ہوئے پیغامات کو بنظر غائر
جائزہ لیں تو یہ نتیجہ اخذ کرنے میں قطعاً دیر نہیں لگے گی کہ یہ امیروں،
مالداروں اور شاہزادوں سے کہیں زیادہ غریبوں اورمفلسوں کا تیوہار ہے ۔ اس
پر صرف امیروں اور رئیس زادوں کو حق جتانے کا حق نہیں ہے۔ بلکہ غریب زادے
بھی اس میں برابر کے شریک ہیں۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان غریبوں
اورمفلسوں کے حق میں سیندھ لگائے مگرافسوس ہم اپنے طرزِ عمل سے اس بات کا
اشارہ دیتے ہیں کہ اس پر غریبوں کا اتنا حق نہیں ہے۔ جتنا امیروں اور امیر
زادوں کاہے ۔۔
ہم دیکھتے ہیں اس دن خوشیوں اور اسبابِ مسرت میں دونوں قسم کے لوگوں کے
درمیان توازن نظر نہیں آتا اگر ایک طرف پیسے والے کے گھر میں مسرتیں نغمے
گا رہی ہوتی ہیں اور خوشیوں کی بلبلیں چہک رہی ہوتی ہیں تودوسری طرف دوہی
قدم کے فاصلے پرکسی مفلس کی دہلیز پر غربت منھ چھپائے کھڑی ہوتی ہے۔ اور
اپنی بے کسی پرآنسوبہارہی ہوتی ہے ۔۔ یہ تو اللہ عزوجل کا بے پایاں احسان
ہے۔ کہ اس نے ایک تو عید الفطر جیسا تیوہار ہمیں عطا فرمایا اور دوسرے یہ
کہ خوشیوں کے درمیان توازن برقرار رکھنے کے لیے امیروں کو صدقۂ فطر نکالنے
کا حکم دیا۔۔ اگر صدقۂ فطر ادا کرنے کا حکم نہ ہوتا تو ممکن تھا کہ غریبوں
اورافلاس کے ماروں کے یہاں خوشیوں کے دیپ نہ جلتے اور ان کو وہ سرشاری میسر
نہ آتی جو تیوہاروں اور خوشیوں کے موقع پرانسانی طبائع کا خاصہ ہوا کرتی
ہے۔ گویا اللہ نے اگر امیروں کو ایک خوشی سے نوازا ہے۔ تو غریبوں کو دوہری
خوشی سے سرفرازفرمایاہے ۔ امیروں کو تو صرف عید الفطر کی مسرت مگر غریبوں
کو ایک تو عید الفطر کی خوشی اور دوسری صدقۂ فطر کی خوشی۔۔ اللہ تعالیٰ نے
یہ حکم اتنی شدت کے ساتھ دیا ہے۔ کہ فرمایا گیا جس نے صدقۂ فطر ادا نہیں
کیاتو اس کے روزے زمین وآسمان کے درمیان معلق رہتے ہیں۔۔ اب صاحب نصاب
مسلمان نہ چاہتے ہوئے بھی صدقۂ فطر ضرور ادا کرتا ہے۔ کہ وہ اپنے روزوں کو
ضائع نہیں کرنا چاہتا۔۔ اس سے جہاں دیگر فوائد حاصل ہوتے ہیں وہاں غریبوں
کی خوشیوں کا بھی سامان ہو جاتا ہے ۔۔ اس کے ساتھ ساتھ شریعت کا حکم یہ بھی
ہے۔ کہ صدقۂ فطر عید کی نماز سے پہلے پہلے ادا کر دو۔ اس کے پیچھے غالباً
حکمت یہ رکھی گئی ہے۔ کہ مستحقین تک یہ رقم جلد سے جلد پہنچ سکے اور وہ عید
کی نمازسے پہلے ہی اپنی اور اپنے بچوں کی خوشیوں کے سارے سامان جمع
کرسکیں۔ یہاں پرذراسوچیے اگر صدقۂ فطر نماز کے بعد میں ادا کرنے کا حکم
ہوتا تو ظاہر ہے کہ ہر شخص بعد ہی میں اداکرتانتیجتاًمستحقین کو بعد ہی میں
ملتا تو ان کے چہروں پر ملال کے آثار ضرور ابھر آتے لہٰذا اللہ عزوجل نے
اتنا بھی گوارا نہیں فرمایا کہ ان کی خوشیوں میں کسی طرح کی کوئی تاخیر ہو
جس کی وجہ سے ان کے دل میں اضطرابی کیفیات پیدا ہوں بلکہ ان کو طلوع صبح سے
ہی خوشیوں میں شریک فرما دیا۔۔ آپ اس سلسلے سے سلسلہ ملاتے جائیے اور خدا
کی قدرت اوراس کے فضل و کرم پرسجدۂ شکر کرتے جائیے۔۔ ان سارے پیغامات سے یہ
واضح ہوتا ہے۔ کہ عید الفطر کے دن جتنے بھی احکام اور مذہبی روایات انجام
دی جاتی ہیں وہ کسی نہ کسی بڑے مقصد کے حصول کے لیے ہی ہوتی ہیں حکم بظاہر
تو چھوٹا معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اس کے نتائج انتہائی بڑے اوردوررس ہوتے ہیں۔
ہمارے رویوں اور عید الفطر کے دن کی ہماری سرگرمیوں سے یہ اندازہ لگانا
مشکل نہیں ہے۔ کہ ہم نے عید الفطر کے حقیقی پیغام کو سمجھا ہی نہیں ہے۔
بلکہ محض دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی طرح اس کو بھی لہو و لعب کا نمونہ
بنا لیا ہے۔ یا محض ایک کھلونے کی طرح سمجھ لیا ہے۔ کہ جس سے دن بھر کھیلا
جاتا ہے۔ اوراس کھیل میں خوشی ومسرت کے قہقہے۔ چاروں طرف گونجتے سنائی دیتے
ہیں۔ اگر ایسا ہے۔ تو ہم میں اور دیگر مذاہب کے معتقدین میں فرق کیا ہے۔
؟ہم مسلمان ہیں توہم میں اور ان میں کچھ فرق تو ہونا ہی چاہیے ؟یاد رکھیے
ہمارے اسلامی تیوہار صرف کھیل کود اور ہلڑ بازی کا نام نہیں ہیں بلکہ یہ
پورے کے پورے سماج کی صلاح و فلاح کے لیے ہوتے ہیں اوراس سے فرد اور معاشرے
کی اصلاح مقصود ہوتی ہے ۔۔ کیا ہم ان مقاصد اور حقائق سے آشنا ہوں گے ؟
قصہ مختصر ہمیں عید الفطر کی روحانی مسرتیں اسی وقت حاصل ہوں گی جب
ہمارے اندر یہ احساس جاگزیں ہو جائے گا کہ اس مبارک ومسعوددن کے موقع پرکون
سے کام اللہ عزوجل کو پسندہیں اور کون سے ناپسند ہیں۔۔ یہ مسلمانوں کو
بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کہ اللہ کے مطالبات کیا ہیں مگر مسلمان جان کر بھی
انجان بننے کی کو شش کرتے ہیں اور سماج میں پھیلے ہوئے اخلاق بحران میں
مزید اضافہ کر دیتے ہیں۔۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عید کی روحانی مسرتوں سے سرفراز
فرمائے اور اس کی برکتوں، سعادتوں، رحمتوں، فضیلتوں سے خوب خوب فیض یاب
فرمائے۔
٭٭٭
عید الفطر مزدوری ملنے کا دن ہے
سب سے پہلے تو عید الفطر کی ڈھیرساری مبارک باد قبول فرمائیے کہ اللہ
عزوجل نے یہ سعید دن ہمیں اور آپ کو نصیب فرمایا اور یہ موقع عنایت فرمایا
کہ ہم سب لوگ اس کی نعمتوں سے فیضیاب ہوسکیں اور اسے راضی کرسکیں۔۔ جب بندہ
تیس دن تک لگاتار روزے رکھتا ہے ، روزے کے سارے عملی تقاضے پورے کرتا ہے۔
اور اللہ کی اطاعت و فرماں برداری میں اپنی خواہشات کی چادرسمیٹ لیتا ہے۔
تو اللہ تعالیٰ تیس دن کے بعد اسے اپنی اس اطاعت شعاری کا ظاہری بدلہ عید
الفطر کی شکل میں عنایت فرماتا ہے ۔ اس دن جب اسے مزدوری ملتی ہے۔ تواس کے
صحن میں بے پناہ خوشیاں رقص کرنے لگتی ہیں۔۔ اس دن پوری دنیا کے مسلمان
خوشی مناتے ہیں ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں کم از کم اس دن تو
اپنی ساری پریشانیاں اور غم و آلام بھول ہی جاتے ہیں گویا یہ رمضان بھر کی
ہماری محنتوں کی ظاہری مزدوری ہے۔ یہ ہماری اخروی مزدوری کی ہلکی سی جھلک
اور ادنیٰ سامظہر ہے۔ کہ جس کا اللہ عزوجل نے ہم سے وعدہ کیا ہے ۔۔
ذراسوچیں کہ جب عید الفطر کے دن ہماری خوشیوں کی معراج ہو جاتی ہے۔ تو اس
وقت ہماری مسرتیں اور مراتب کس بلندی پر ہوں گے جب ہمیں اس کا حقیقی بدل،
حقیقی جزا اور حقیقی مزدوری دی جائے گی۔
اللہ عزوجل نے بندوں کو مزدوری دینے میں قطعی دیر نہیں لگائی اُدھر ان
کی ایک مہینے کی تربیت کے مراحل ختم ہوئے، ڈیوٹی پوری ہوئی اور اِدھر عید
الفطر، انعام یا یوں کہیے کہ مزدوری کی شکل میں ہمارے ذہن و فکر پر مسرتوں
کا نغمہ گانے لگی۔۔ اس میں اگر غور کیا جائے تو یہ پیغام بھی پوشیدہ ہے۔ کہ
مزدوری دینے میں قطعاً دیر نہیں کرنا چاہیے ایک حدیث شریف میں تو یہاں تک
ہے۔ کہ مزدوروں کی مزدوری ان کا پسینہ سوکھنے سے پہلے ہی دے دو۔۔ عید الفطر
کو رمضان المبارک کے اختتام کے فورا بعد رکھنے میں غالباً یہی حکمت
کارفرما ہے۔ کہ بندوں کو بدلہ دینے میں بالکل بھی دیر نہ کی جائے۔ یہ تواس
کی ظاہری جزا یا مزدوری ہے۔ مگر خدا کے یہاں اس کی جو جزا ہے۔ وہ ہمارے ذہن
و فکر سے ماورا ہے۔ نہ ہم اسے قلم بند کرسکتے ہیں اور نہ ہی ہماری سوچیں
اس کا ادراک کرسکتی ہیں۔
٭٭٭