285

جنسی بے راہ روی اور مخصوص تعلیمی نصاب۔

ارسطو نے کہا تھا کہ ” انسان معاشرتی حیوان ہے” . اس حیوان کو سدھارنے کی ضرورت ہوتی ہے معاشرتی اقدار ، تادیبی قوانین ، مذہبی جزا و سزا کے ایمانی اسباق اور عصری تعلیم اور طریقوں سے ، تب کہیں جا کر یہ حیوان شرفِ انسانیت پاتا ہے .

اگر اسکو مناسب طور نہ سدھایا جائے تو یہی حیوان جنسی بلا بن جاتا ہے اور یہ بلا ہر عمر کی بچیوں اور خواتین کی عفت و ناموس کیلیے ایسا خطرہ بن جاتا ہے کہ مرنے کے بعد کفن میں لپٹی انکی میتیں بھی گورستان میں محفوظ نہیں رہ پاتیں۔ قصور شہر کے ایسے ہی بلے اتنے بیباک ، بے خوف اور نڈر ہو چکے ہیں کہ جب ننھی زینب کا تا حال ماتم برپا ہے ، شہر کیا پورا ملک سوگوار ہے ، پولیس مستعدی سے ایک کے بعد ایک مشکوک کو کسٹڈی میں لے کر تحقیقات کا دائرہ وسیع تر کرتی جا رہی ہے اور اخبارات و نشریات مسلسل اس ایشو پر بول رہے ہیں . اس عالم میں بھی اسی شہر قصور سے ایک چار سالہ بچی کو زیادتی کیبعد قتل کی ایک اور خبر آ گئی . بیباکی کہیں ، بے شرمی یا بے غیرتی کہ جنسی بلے نے عین اس وقت بھی اکتفا نہ کیا جب پولیس ان جیسوں کو سونگھ سونگھ کو اٹھا رہی ہے .

معاملہ کی نوعیت یا شدت کو گویا نہ معاشرہ سمجھا نہ پولیس اور نہ ہی جنسی حیوان ابھی تک سمجھ پا رہے ہیں . یا پھر مجرم پولیس کی استعداد کار اور معاشرے کی مٹی پاؤ روش کو بہتر جانتے ہوئے مصروف کار ہیں کہ یہاں کچھ ہونے والا تو ہے نہیں .

یہ غلط فہمی ہرگز نہ رہے کہ یہ بلے صرف گلیوں میں ہی پائے جاتے ہیں بلکہ یہ حیوان تمام اداروں میں اور ہر جگہ موجود ہیں اور یہ سب ایک دوسرے کو تحفظ بہم پہنچاتے ہیں .

جنسی بلے کہیں باہر سے نہیں آ جاتے ، نہ انہیں ہنود بھیجتے ہیں نہ ہی یہود بلکہ وہ ادھر ہی کہیں موجود ہوتے ہیں۔ اس معاشرے میں رہتے ہوئے باوجوہ اپنے اندر کے وحشی درندے کی سرکشی کو قابو نہیں کر سکتے . افراد کے ایسے قبیح جرائم سے معاشرہ بھی مطلقاً بری الزمہ نہیں ہو سکتا . تعین کرنا ہو گا کہ چوک ہوئی کہاں ہے ؟ والدین سے ، اساتذہ سے یا پورے معاشرے سے ؟

خوب آہ و فغاں ہو چکا ، بہت مزمتیں ہو چکیں . اب ضرورت ہے کہ سول سوسائٹی ، ماہرین تعلیم ، نفاذِ امنِ عامہ کے ادارے ، عدلیہ ، مققنہ اور علماء ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہو کر “ابھی یا پھر کبھی نہیں کی بنیاد پر “اس سلگتے ہوئے ایشو پر اپنا ماہرانہ و متفقہ بیانیہ تیار کریں اور پھر اسی سکرپٹ کی روشنی میں اور قوانینِ دیگر میں موجود سقم کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تجاویز پارلیمنٹ کو قانون سازی کیلیے بھیجیں اور حکومت بغیر کسی التوا کے فوراً قانون پاس کروائے . اور اسے طرح خصوصی نصاب کی ترویج پر بھی توجہ دیں .

مخصوص تعلیم کا نام آتے ہی ارباب محراب و منبر اور حاملین دستار و جبہ چیں بچیں ہوتے ہیں تو کچھ لوگ تو گویا جیسے انکی دم پر کسی نے پاؤں رکھ دیا ہو .

ہم یہ فرض ہی کیوں کر لیتے ہیں کہ یہ مذکورہ تعلیمی نصاب بدیسی یا اغیار سے مستعار شدہ ہو گا . مجوزہ نصاب کا نام جنسی تعلیم یا سیکس ایجوکیشن مناسب نہیں لگتا تو بالکل صحیح ، یہ نام حتمی بھی نہیں مگر دوسرے نام پر تو اتفاق ہوا جا سکتا ہے ناں . مثلاً مخصوص تعلیم ، تعلیم بچپن تا لڑکپن ، نوجوان مسلم ، کمسنوں کا سفر بلوغت وغیرہ

قرآن و احادیث کے بے شمار احکامات ایسے ہیں جنکو مختلف عمر کے بچوں کیلیے بتدریج مذکورہ و مجوزہ مخصوص تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جا سکتا ہے . مثلاً

* بچے جب سات سال کی عمر کو پہنچیں تو انکا بستر علیحدہ کر دیا جائے .

* نظام خاندان اور فرد کا اسکے اندر اور معاشرے میں مقام .

* سورۃ نور میں سمجھ اور تمیز رکھنے والے بچوں کو سکھانے کی تاکید کہ آرام و استراحت کے اوقات میں بغیر اجازت بڑوں کے خلوت کدے میں داخل نہ ہوں .

* نوجوانوں کو بھی احادیث کی تعلیم دینا ہو گی کہ نبی پاک کی تعلیمات کی روشنی میں بغیر لحم کے غزا اور صیام کے زریعے اپنی نفسانی جبلت کو کنٹرول کر کے جہاں اپنی عفت کا خیال رکھیں وہیں اپنے خاندان کی عزت و ناموس پر بھی حرف نہ آنے دیں .

* نیز وجوبِ حجاب ، نجاست و نظافت ، حیض و نفاس ، ستر ، غسل اور وجوبِ غسل جیسے احکامات پر روئے زمین پر اسلام سے بہتر تعلیم دینے والا کوئی بھی مزہب نہ کبھی تھا نہ ہے اور اسلام کے بعد تو کوئی آنا ہی نہیں . پھر کیا ہیکہ اس بابت بات ہو تو گویا آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے –

نفاس ، ستر ، غسل ، مواد تولید کو کپڑے سے کھرچنے اور زنا سے متعلق جرح کو دس بارہ سال کا بچہ گھر مسجد یا مدرسہ میں موجود کتب احادیث سے اگر پڑھ لے تو شاید ہی کوئی اعتراض کرے مگر سکول میں انکی حفاظت کے اضافی نظریے کے پیش نظر یہی کچھ اور قرآن و احادیث کی روشنی میں عصری تقاضوں کے مطابق مزید مواد پڑھایا اور سمجھایا جائے تو اس میں بھی مضائقہ تو کوئی ہونا نہیں چاہیے . مگر ہر بار اس کا زکر ہوتے ہی ایک طبقہ بغیر سوچے سمجھے آسمان سر پر آٹھ لیتا ہے جیسے اسلام کو کوئی خطرہ ہو ؟ سوشل میڈیا پر آج بھی لوگوں نے اس قماش کی پوسٹوں کی بھرمار کر کے گویا اسلام کی بہت بڑی خدمت کر لی ہو –

یاد رہے مسائل روایتی نہیں بلکہ نئے ہیں اسلیے عصری تعلیم اور جدید طریقوں سے استفادہ بھی ضروری ہے . اس ذیل میں عامر خان کی انڈین وڈیو کلپ کی مثال دی جا سکتی ہے جس میں بچوں کو سمجھاتے دکھایا گیا ہیکہ اجنبی یا اپنے لوگ بچے کے جسم کے کونسے حصوں کو چھو سکتے ہیں اور کونسے حصوں کو چھونے نہیں دینا . عامر خان تکنیک پر بچوں کی مزید راہنمائی کی ضرورت ہے .

جب آپ خلاء چھوڑ دیں گے تو غیر ملکی مواد اور این جی اوز کی مدد سے وہ خلاء تو پر ہو جائیگا مگر کمینے جب اپنی ننگی تہزیب کی اینٹری دیتے ہیں تو پھر یہاں ایک عرصہ دراز تک ڈھول پیٹا جاتا ہے . مشرف دور میں مہنگے انگریزی سکول میں قوم کی عفت مآب بچیوں سے ایک سوالنامے میں انکے پہلے جنسی تجربے سے متعلق پوچھا گیا تھا . جس کے بعد لمبے عرصہ تک لے دے ہوتی رہی .

عالمی استمعاروں کی آلہ کار ان این جی اوز کے ہتھکنڈوں اور پروپیگنڈے سے بچنا ہے تو مذہبی طبقے کو چار قدم آگے بڑھ کر اسلام کے قلعوں یعنی مساجد و مدارس کو ہر قسم کے تشدد سے پاک کرنا ہو گا اور مدارس میں ضروری معاشرتی اصلاح کی تعلیم دینا ہو گی بلکہ اس ضمن میں قوم کی بھی راہنمائی کرنا ہو گی . ضرورت ہے کہ ہمارے مدارس بچوں کے خلاف کسی بھی قسم کے تشدد کے خلاف آہنی دیوار اور باقی اداروں کیلیے ایک مثال بن جائیں . صرف اسی صورت میں این جی اوز کو پرایا لچ یہاں تولنے سے باز رکھ سکتے ہیں .

p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں