1,002

سرزمینِ بنی اسرائیل کی سیر۔ ( ساتواں حصہ )

ابراہیم احمد صاحب کے گھر کھانا کھا کر ڈائننگ ٹیبل پر ہی بیٹھے ہوئے تھے اور فلسطین کے موضوع پر باتیں ہورہی تھیں، میں نے ابراھیم صاحب سے درخواست کی کہ آپ چونکہ مسلمان، عیسائی اور یہودی علماء کے درمیان ثالثی کرواتے رہے ہیں اسلئیے آپ ہمیں یروشلم میں عیسائیوں اور یہودیوں کی تاریخ کے بارے میں بتائیں، میرے ایسا کہنے پر نوے سالہ فلسطینی بابے نے جو تفصیل بتائی وہ میرے لئے حیران کُن تھی۔

یروشلم دنیا کا واحد شہر ہے جسے مسلمان، عیسائی اور یہودی مقدس مانتے ہیں، یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ یہی وہ جگہ ہے کہ جہاں سے انسان کی تخلیق ہوئی تھی اور یہی حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ کی قربانی کی تیاری کی تھی۔

مسیحی سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کو یہی مسلوب کیا گیا تھا اور یہی انکا سب سے مقدس کلیساء باقی ہے۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ وسلم نے سفر معراج پر جانے سے قبل یہی ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کی امامت کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اور مسیحی ایک ہزار سال تک اس مقدس شہر پر قبضے کیلئے برسر پیکار رہے ہیں۔

ہیکل سلیمانی ایک مسجد یا عبادت گاہ تھی جو سیلیمان علیہ اسلام نے اللہ کے حکم سے جنوں سے تعمیر کروائی تھی، تاکہ لوگ اسکی طرف منہ کر کے یا اسکے اندر عبادت کر سکیں، ہیکل سلیمانی کی تعمیر سے پہلے یہودیوں کے ہاں ایک مشترکہ عبادت گاہ کو کوئی تصور نہ تھا، اس قوم کے لوگ خانہ بدوشوں والی زندگی گزارتے تھے اور ایک خیمے میں انہوں نے تابوت سکینہ رکھا ہوتا تھا جسکی طرف منہ کر کے یہ عبادت کیا کرتے تھے۔

روایات کے مطابق تابوت سکینہ شمشاد نامی لکڑی سے بنا ہوا تھا اور اسے جنت سے حضرت آدم علیہ اسلام کے پاس بھیجا گیا تھا۔ یہ تابوت نسل در نسل انبیاء کرام سے ہوتا ہوا حضرت موسیٰ علیہ اسلام کے پاس پہنچا، اس صندوق میں حضرت موسیٰ علیہ اسلام کا عاسہ، من وسلویٰ اور دیگر انبیاء کرام کی یادگار نشانیاں تھیں۔ یہودی اس تابوت کی برکت سے ہر مصیبت اور پریشانی کا حل کر لیا کرتے تھے، مختلف اقوام کے ساتھ جنگوں میں اس صندوق کو لشکر کے آگے رکھا کرتے تھے اور اسکی مدد سے مخالف اقوام پر فتح حاصل کرلیا کرتے تھے۔

جب حضرت داؤد علیہ اسلام کو بادشاہی نصیب ہوئی تو آپ نے اپنے لیئے ایک شاندار محل تعمیر کروایا، ایک دن انہیں خیال آیا کہ میں خود تو محل میں رہتا ہوں جبکہ میری قوم کا معبد یعنی تابوت سکینہ آج بھی خیمے میں رکھا ہوا ہوتا ہے۔ بائبل کے مطابق بادشاہ داؤد نے فرمایا کہ میں خود تو دیودار کی شاندار لکڑی کے بنے محل میں رہتا ہوں جبکہ خداوند کا معبد ایک خیمے میں پڑا ہوا ہے، چنانچہ آپ نے ایک مضبوط ہیکل کی تعمیر کا ارادہ کیا تاکہ تابوت سکینہ کو اس میں رکھا جاسکے اور انکی قوم کے لوگوں کو اسکی طرف منہ کر کے عبادت کرنے میں آسانی ہو، ماہرین نے حضرت داؤد علیہ اسلام کو مشورہ دیا کہ ہیکل کی تعمیر کا کام آپکی زندگی میں ممکن نہیں ہے لحاظہ آپ یہ ذمہ داری اپنے بیٹے حضرت سلیمان علیہ اسلام کے سپرد کر دیں، چناچہ ایسا ہی کیا گیا اور حضرت سلیمان علیہ اسلام نے 970 قبل مسیح سے 930 قبل مسیح تک جنوں کی مدد سے بھاری پتھروں کے ذریعے ایک بڑے ہیکل کی تعمیر شروع کی، تعمیر کے دوران آپ کا انتقال ہوگیا اور اس وقت آپ ایک لکڑی کے تختے کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے تھے، جن یہ سمجھ کر تعمیر کرتے رہے کہ آپ زندہ ہیں، اور اسی دوران جنوں نے اس ہیکل کی تعمیر مکمل کرلی، یہ ایک وسیع العریض اور عالی شان ہیکل تھا، اور اسکو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا، بیرونی حصے میں عام لوگ عبادت کیا کرتے تھے، درمیان والے حصے میں انبیاء کی اولاد علماء عبادت کیا کرتے تھے جبکہ آخری اندرونی حصے میں تابوت سکینہ رکھا گیا تھا اور اس حصے میں سب سے بڑے عالم کے علاوہ کسی اور کو اندر آنے کی اجازت نہیں تھی۔

وقت گزرتا رہا اور اس قوم میں یکے بعد دیگرے پیغمبر تشریف لاتے رہے، ہدایت کا پیغام دیتے رہے لیکن اس قوم کے لوگ بد سے بدتر ہوتے رہے، یہ کسی بھی صورت میں توبہ تائب ہونے کیلئے تیار نہیں تھے، ایک طرف یہ لوگ عبادت کرتے تھے تو دوسری طرف اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی بھی کیا کرتے تھے اسی وجہ سے اللہ ان سے ناراض ہوگیا اور اس قوم پر لعنت کردی۔

586 قبل مسیح میں بائبل عراق کے بادشاہ بخت نصر نے یہودیوں پر حملہ کر کے انہیں شکست دی اور ہیکل کو تباہ برباد کردیا گیا یہاں سے تابوت سکینہ اٹھا لیا گیا اور چھ لاکھ کے لگ بھگ یہودی قتل کردئیے گئے اور دو لاکھ یہودی غلام بنا کر بخت نصر انہیں اپنے ساتھ بائبل عراق لے گیا اور شہر کے باہر ایک بستی تعمیر کی جس میں ان دو لاکھ یہودی غلاموں کو رکھا گیا اور اس بستی کا نام تِل ابیب رکھا گیا، تابوت سکینہ کی بےحُرمتی کی گئی اور اسے کہیں پھینک دیا گیا، روایات میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے کسی محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا، جسکے بارے میں کسی انسان کو معلوم نہیں ہے۔

اس بےحُرمتی کا عذاب بخت نصر کو ایسے ملا کہ 539 قبل مسیح میں ایران کے بادشاہ سائرس نے بائبل پر حملہ کر کے اسکا بیڑہ غرق کردیا اور غلام یہودیوں کو آزاد کر کے انہیں واپس یروشلم جانے کی اجازت دے دی۔ سائرس ایک نرمُ خُو اور انصاف پسند حکمران تھا، اس نے ستر سال سے تباہ شدہ ہیکل کی تعمیر نُو کا نہ صرف یہودیوں سے وعدہ کر لیا بلکہ اس میں ہر طرح کی مدد کی یقین دھانی بھی کروا دی اور یُوں 537 قبل مسیح کو دوسرے ہیکل کی تعمیر کا آغاز ہوا، لیکن یہ منصوبہ یہودیوں کی آپس کی لڑائی کی وجہ سے اختلافات کا شکار ہو کر عملی طور پر بند ہوگیا بعد میں حضرت زکریا علیہ اسلام نے یروشلم کے گورنر کو ہیکل کی تعمیر کرنے کیلئے راضی کیا اور یوں دوسرے ہیکل کی تعمیر شروع ہوگئی، اور ایرانی بادشاہ کے تعاون سے ساڑھے چار سال کے قلیل عرصے میں 515 قبل مسیح کو دوسرا ہیکل تعمیر ہوگیا اور یہودیوں نے اس میں عبادت شروع کر دی، اس دفعہ اس میں تابوت سکینہ نہیں تھا کیونکہ اسے مزید بےحُرمتی سے بچانے کیلئے اللہ کی طرف سے ہی معجزانہ طور پر کسی نامعلوم مقام پر محفوظ کر دیا گیا تھا، جسکا کسی انسان کو علم نہیں ہے لیکن یہودی اس تابوت کو حاصلُ کرنے کیلئے پورے کُرۂ ارض کو کھود ڈالنا چاہتے ہیں۔

حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی پیدائش کے چند سال پہلے یہودی بادشاہ ہیروڈس نے اس ہیکل کی خستہ ہالی کے پیش نظر دوبارہ تعمیر کا ارادہ کیا تو اسے بہت بڑی یہودی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس نے یہودیوں کو اس بات پر قائل کر لیا کہ وہ اسے گِرائے گا نہیں بلکہ اسکی مرمت کرے گا، یوں اس نے مرمت کے نام پر ہیکل کے ایک حصے کو گِرا کر دوبارہ تعمیر کروانا شروع کردیا، وہ ہیکل کے کچھ حصے گراتا جاتا اور نئے تعمیر کرتا جاتا، اس دوران چونکہ یہودیوں کی عبادت میں خلل نہیں پڑ رہا تھا اسلئیے انہوں مے مخالفت نہ کی اور یوں ہیکل تیسری دفعہ تعمیر کر دیا گیا۔

جب حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کا ظہور ہوا اور یہودیوں نے انکی سب سے زیادہ مخالفت کی، ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے، اصل میں یہودی اپنے مسیحا کے انتظار میں تھے جو آ کر انہیں دوبارہ پہلے والی شان و شوکت عطا کرتا لیکن حضرت عیسیٰ علیہ اسلام نے دین کی تجدید نُو شروع کی تو یہودیوں نے ناراض ہو کر انہیں مسلوب کروا دیا، اس گناہ کا عذاب یہودیوں کو ستر سال بعد رومی جرنیل ٹائٹس کی شکل میں بُھگتنا پڑا، اس رومی جرنیل نے ہیروڈس کے بنائے ہوئے ہیکل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور لاکھوں یہودیوں کو قتل کردیا اور باقی ماندہ یہودیوں کو ذلیل رُسوا کر کے یروشلم کے پورے خطے سے نکال باہر کیا اور یوں یہودی پوری دنیا میں بکھر کر ذلالت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔

اٹھارہ انیس سو سال تک ساری دنیا میں بھٹکنے کے بعد جب برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کیا تو ساری دنیا سے یہودی اکٹھے کر کے اس جگہ دوبارہ بسا دیئے جس سے ایک ناجائز یہودی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا، مسلمان ممالک کی نااہلی اور اقربا پروری اور لالچ کی وجہ سے یہ ناجائز ریاست اسرائیل کے نام سے نہ صرف معرض وجود میں آ گئی بلکہ یہودیوں کو اس میں آزادانہ رہنے کی اجازت مل گئی۔ یہودیوں کا اپنا ملک دوبارہ تو بن گیا لیکن یہ قوم اپنی ہزاروں سالہ پُرانی دغاباز فطرت سے باز نہ آئی، اور اس نے 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں یروشلم، اردن کے مغربی کنارے، شام کی یہاڑیوں اور مصر کے ایک علاقے پر قبضہ کر لیا۔

آج اس قوم کی شرارتیں اور چالبازیاں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آج سے ہزاروں سال پہلے بھی یہ کتنے دغاباز اور سازشی رہے ہونگے، کس وجہ سے اللہ نے ان پر لعنت فرما دی تھی، انہوں نے اپنی پُرانی سازشیں استعمال کرتے ہوئے ساری دنیا کے مسلمان ممالک میں آگ لگا دی ہے، یہ مسلمان ممالک کو کمزور کر کے ختم کرنا چاہتے ہیں اور جلد از جلد ایک بڑے ہیکل کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں جہاں یہ تابوت سکینہ ڈھونڈ کر رکھ سکیں اور اپنے مسیحا کے آنے سے پہلے پوری تیاری کر لیں تاکہ وہ مسیحا آ کر انہیں دوبارہ پرانی شان و شوکت عطا کر سکے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا تل ابیب سے یروشلم میں امریکی سفارت خانہ تبدیل کرنا اور گولان کی متنازع پہاڑیوں کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنا گریٹر اسرائیل بنانے کی ایک کڑی ہے۔

بابا ابراہیم کی بتائی گئی تاریخ کو سن کر ہماری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں، انکے گھر بیٹھے بیٹھے دو گھنٹے گزر چکے تھے اور ہم نے ابھی جبل الزیتون پر موجود باقی ماندہ زیارات کرنی تھیں، لہذا ابراہیم صاحب کا شکریہ ادا کرنے کے بعد ہم انکے پوتے کے ساتھ باقی ماندہ زیارات کیلئے روانہ ہو گئے۔

جاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سرزمینِ بنی اسرائیل کی سیر۔ ( ساتواں حصہ )” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں