تین دن پہلے میرے ایک ٹیچر نے کوئی بات سمجھانے کے لیے سرسری انداز میں کہہ دیا کہ فرض کریں آپ کسی طرح جان لیتے ہیں کہ آپکا آخری لمہہ بہت قریب ہے تو آپ کیا کریں گے۔
یہ جان لینے کے بعد میں کیا کرُوں گا یہ تو ایک الگ بات ہے لیکن اُنکے ایسا کہنے سے اب تک میں باوجُود کوشش اپنے ذہن سے یہ آخری لمہے کا تصوُر ہٹا نہیں پایا۔
جب عمُومی مُشاہدے کے باعث یہ علم ہو کہ موت آنا طے شُدہ امر ہے اور یہ بھی طے ہو کہ آج ہی جیسے ہی کسی دن موت ایسے چُپکے سے آنی ہے کہ میں آج ہی کی طرح اپنے روزمرّہ کاموں میں مشغُول ہونگا تو موت کا وقت قریب یا دُور ہونے کی اہمیّت ثانوی ہو جاتی ہے۔
کوئی بظاہر سو سال بھی جی لے جب اُسے یہ یقین نہیں دیا گیا کہ وہ سو سال جی پائے گا تو پھر اُسکی زندگی لمہہ بھر ہی کی ہے اور ہر نیا شُروع ہونے والا لمہہ اُسکے لیے بس ایک بونس ہی ہوگا خواہ بونس ملتے ملتے اُسکی زندگی سوسال ہو جائے.
موت کے کسی بھی لمحے اچانک آگھیرنے کے حقیقت ہونے کے یقین سے اصل اہمیّت اس بات کی باقی بچتی ہے کہ آخر موت تو آنی ہی ہے اور یہ کہ زندگی تو بس ایک لمہاتی حقیقیت ہے۔
ساتھ ہی سوال اُٹھتا ہے کہ زندگی دیے جانے کا یقیناََ کوئی مقصد تو ضرور تھا
اپنے اردگرد موجُود فطرت پر نظر ڈالنے سےظاہر ہوتا ہے کہ میرے اردگرد کُچھ بھی بے مقصد نہیں.
جب میرے علاوہ میرے اردگرد موجُود فطرت کی طرف سے بچھائے گئے ہر بندوست کا کوئی خاص مقصد ہے
تویقیناََ میرا بھی کوئی مقصد ہونا چاہیے.
اگر پیدا کرنے والے نے کوئی مقصد دے کر پیدا کیا تھا تو ظاہر ہے مرنے کے بعد اُس مقصد کی تکمیل کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں کم از کم مُجھ سے تو سوال جواب ضرور ہونا چاہیے
کیونکہ میں فطرت کے دیگر مظاہر سے واضع طور پر مُختلف ہُوں.
ایک درخت، پہاڑ اور دریا تو اپنا مقصد پُورا کرنے پر مجبُور ہیں اس دُنیا میں شاید ایک میں ہی ہُوں جسے آزاد مرضی کے ساتھ پیدا کیا گیا
ورنہ درخت دریا اور پہاڑ اور ان جیسے دیگر مظاہرِ فطرت تو اپنی فطرت میں ہی خدمت گُذار ہیں
جہاں آزاد مرضی کا حق حاصل ہو وہاں احتساب فطری ہے
جیسے ایک مُرغی یہ علم اپنی فطرت میں لے کر پیدا ہوتی ہے کہ کب اور کتنے دنوں کے لیے انڈوں پر بیٹھنا ہے
ایسے ہی ہر انسان کُچھ احساسات اپنی فطرت میں لے کر پیدا ہوتا ہے
ان احساسات میں سے بُنیادئ احساسات یہ ہیں کہ کوئی پیدا کرنے والا تو ضرُور ہے ، اُس نے پیدائش کا کوئی مقصد بھی ضرُور رکھا ہے اور زندگی کے دوران ملنے والی آزاد مرضی کی وجہ سے مقصد کے تناظُر میں مرنے کے بعد حساب بھی ضرُور دینا ہو گا.
اپنا اپنا فطری علم بھُلا دینا ایک مُرغی یا اُس جیسے دیگر جانداروں کے لیے مُمکن نہیں
تبھی اُنکا موت کے بعد حساب غیر فطری ہے
لیکن اُوپر بیان کیے گئے انسانوں کے فطری احساسات کو دبا دینا انسانوں کے لیے عین مُمکن ہے
کیونکہ آزاد مرضی اُن کے فہم پر ہر قسم کے غیر فطری سراب کا بوجھ ڈال سکتی ہے اور ڈالتی بھی ہے.
انسان اگر کسی بھی لمہے مرنے کے امکان کا فطری احساس مرنے نہ دیں تو خالق کے ہونے اور موت کے بعد احتساب کا احساس اُنہیں دیگر انسانوں کے لیے فائدہ مند بنائےرکھے گا یعنی اُنکے اعمال کی رُوح انسانوں کے لیے عمُومی فائدے کا جذبہ لیے ہوئے ہوگی
اور یہی انسان کی پیدائش کے مقصد کا خُلاصہ ہے.
تبھی تو اللہ سُورہ البقرہ میں اُن غیر مُسلم توحید پرستوں کو بھی بے خوف رہنے کی نوید دیتا ہے جن کا اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان ہو اور یہ ایمان اُنسے عملِ صالح کرواتا ہو.
جس کسی پر اسلام کے پیغام کی اتمامِ حُجّت مُکمّل ترین ابلاغ سے نہیں ہُوئی
اُنہیں قیامت کے دن انہی بُنیادی فطری احساسات اور اعمال کی بُنیاد پر سزا یا جزا کا حقدار قرار دیا جائے گا.
خُلاصہٴ کلام بس یہئ ہے
کہ ایک احساس ہر احساس پر غالب ہے
اُس احساس کو زندہ رکھنے میں ہی فلاح ہے
اور وہ احساس یہی ہے
کہ عین مُمکن ہے کہ اگلا لمہہ ہی میری زندگی کا آخری لمہہ ہو.
کوئی سمجھے تو یہ احساس ہیرے سے بھی قیمتی ہے
کیونکہ یہی احساس دیگر فطری احساسات
یعنی اللہ کی موجُودگی اور روزِ آخرت کے حساب کے احساس کو گہنانے نہیں دیتا اور انسان کو دیگر انسانوں کے لیے فائدہ مند بنائے رکھتا ہے۔