عاصمہ جہانگیر بھی دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ کیسی بھرپور، تند وتیز طوفانی ریلے جیسی زندگی انہوں نے گزاری ۔ ان لوگوں میں سے تھیں، جو زندگی اپنی شرائط، اپنی سوچ کے مطابق بسر کرتے ہیں۔ زندگی کے سرکش ، منہ زور گھوڑے کی باگ انہوں نے ہمیشہ کھینچ کر رکھی، اسے اپنے قابو میں رکھا اور سچ تو یہ ہے کہ ایک جنگجو کی موت ان کے حصے میں آئی۔گھوڑے کی پشت پر موت۔ عرب جنگجو یہی خواہش رکھتے کہ آخری سانسیں وہ گھوڑے کی پشت پر لیں، ایک ہاتھ میں تلوار سونتے، دوسرے میں باگ تھامے دلکی چال میں گھوڑا چلاتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوجائیں۔ بستر پر گزرے بیماری کے ماہ وسال سے یہ جنگجو نفرت کرتے۔ عاصمہ جہانگیر بھی زندگی کی آخری سانسوں تک نبردآزما رہیں۔ صرف دو دن قبل سپریم کورٹ میں وہ پیش ہوئیں اور اپنے موکل کا مقدمہ لڑا۔ کہتے ہیں کہ زندگی کی آخری سانسوں میں وہ اسی مقدمے سے متعلق گفتگو کر رہی تھیں۔ عاصمہ جہانگیر کی سوچ، نظریات سے اختلاف ہوسکتا ہے، مگر شائد ہی کوئی ایسا ہو جو کہے کہ انہوں نے حکمرانوں سے ڈر کر سمجھوتے کئے یا کسی گروہ کے خوف سے اپنا موقف بدل لیا۔ ان کی جو سوچ، موقف اور نظریہ تھا،جیسا بھی تھا، آخری دم تک اس کے ساتھ وفادار اور پوری کمٹمنٹ سے اس کے لئے سرگرم رہیں۔
عاصمہ جہانگیر کے انتقال کی خبر تیزی سے سوشل میڈیا پر پھیلی۔ اگلے چند گھنٹوں میں سینکڑوں پوسٹیں اس حوالے سے تحریر ہوئیں۔ انہیں سراہنے والے، مدح سرائی کرنے والے غم گسار بھی کم نہیں تھے۔ بہت سوں نے کرب سے لکھا کہ لگتا ہے آج ہماری ماں بچھڑ گئی۔افسردگی سے کئی لوگوں نے لکھا کہ ان کے سر سے سائبان ہٹ گیا اور وہ ہمیشہ ان کی کمی محسوس کریں گی۔ اسی طرح کی غمگین، اداس تحریریں جا بجا فیس بک پر بکھری تھیں، ٹوئٹر پر ان کا ماتمی ٹرینڈ چل رہا تھا،قسم قسم کے تعزیتی ون لائنر پڑھنے کو ملے۔
اسی غم کی انتہا میں مبالغہ بھی بہت ہوا۔کچھ لکھنے والوں نے ان کا مادر ملت فاطمہ جناح سے موازنہ کیا ،بعض نے تو ان سے بھی بڑھا دیا۔ دوسری طرف ان کی سوچ اور نظریے سے اختلاف رکھنے والوں میں ایک گروہ ایسا تھا، جس نے بے رحمی سے عاصمہ جہانگیر پر تنقید کی اور ان کی عاقبت کے حوالے سے منفی تبصرے کئے۔ یہ معاملہ دراز ہوتا گیا، حتیٰ کہ معروف معنوں میں رائیٹ ونگ یا اسلامسٹ حلقے کے کئی معروف لکھاریوں اور بلاگرز نے اس ٹرینڈ کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے لوگوں کو یہ یاد دلایا کہ مرنے والوں کی بھلی باتوں کو یاد کرنے کا حکم ہے اورشائستگی کا تقاضا یہ ہے کہ مرحومہ کا سوگ منانے والوں کی دل آزاری نہ کی جائے ۔ پریشان کن بات ہے کہ آج کل ہرغلط حرکت کا جواز شریعت سے دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
فیض آباد دھرنے سے شہرت پانے والے مولوی خادم رضوی کی بہت سے ویڈیوز گردش کر رہی ہیں، جن میں انہوں نے مخالفین کے لئے سخت اور ناشائستہ الفاظ استعمال کئے، کہیں کہیں تو مغلظات سے بھی گریز نہیں کیا۔ جب تنقید ہوئی تو فٹ سے اسلام کی ابتدائی زمانے کی ایک آدھ مجہول روایت کا حوالہ دے ڈالا۔ ایسے ہی موقعوں پر کہتے ہیں عذر گناہ بدتراز گناہ۔ ہمارے ہاں پچھلے سال ڈیڑھ میں دو تین واقعات ایسے ہوئے۔ پہلے ممتاز سماجی کارکن عبدالستار ایدھی کے انتقال کے موقعہ پر بعض دریدہ دہنوں نے ایدھی صاحب جیسے فرشتہ سیرت انسان کے خلاف فتوے جڑ دئیے۔ بلاوجہ کا تماشا بنانے کی کوشش کی گئی۔ پھر جذام جیسے مرض کے خاتمے کے لئے اپنی زندگی کھپا دینے والی روتھ فاﺅ کی شخصیت فتووں اور مفروضہ تبصروں کی زد میں آئی۔ عاصمہ جہانگیر کے انتقال پر بھی مخالفین کو ضبط اور برداشت سے کام لینا چاہیے تھا۔ کسی کی بخشش کا فیصلہ اس رب کریم نے کرنا ہے، ہم انسان جسے اپنی عاقبت کا علم نہیں، وہ دوسروں پر رائے زنی کیسے کر سکتے ہیں؟
عاصمہ جہانگیر ایک متنازع شخصیت تھیں، زندگی میں بھی تنقید کا نشانہ بنتی رہیں، ایک بہت بڑا حلقہ ان کی سوچ، خیالات اور تصورات سے سخت اختلاف کرتا تھا۔ وہ نظریاتی، فکری اختلافات اپنی جگہ موجود ہیں، رہیں گے۔ان کی زندگی میں ہم نے ڈٹ کر اپنی رائے کا اظہار کیا، ضرورت پڑنے پر دوبارہ اس سوچ کا مقابلہ کریں گے ۔ اخلاقیات کا تقاضاہے کہ یہ سب کچھ دیر کے لئے سائیڈ پر رکھ کر مرحومہ کے لئے دعائے مغفرت کی جائے۔دعا ہے کہ رب تعالیٰ مرحومہ پر اپنا کرم فرمائیں اور خطاﺅں سے درگزر کریں، آمین۔ یہ افسوس کادن ہے۔ سوگ منانے والوں کے جذبات کا احترام لازم ہے۔”اختلافی نوٹ“ کے لئے بعد میں بہت مواقع ملیں گے۔
ہمارے محترم دوست اور نائنٹیءٹو نیوز کے کالم نگار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے نہایت موزوں الفاظ میں تعزیتی پوسٹ لکھی جو اعتدال اور توازن کا عمدہ نمونہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ”اگر کسی کوعاصمہ جہانگیرسے اختلاف مذہب کے متعلق ان کے عمومی رویہ سے تھا تو یہ کسی اور سے کہیں زیادہ اللہ تعالیٰ کا استحقاق ہے اور اب وہ اللہ کے حضور پیش ہو چکیں۔اب بات براہ راست رب اور اس کے بندے کے بیچ ہے۔اگر اختلاف پاکستان کے مسائل و معاملات کے باب میں ہے تو کم از کم میرے علم میں تو یہ بات نہیں کہ ان کے کسی عمل یا فکر کی وجہ سے کبھی پاکستان کو کسی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ اگر بات صرف نقطہ نظر یا طریقہ کار سے عدم اتفاق کی ہے تو پھر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ موت ایک ایسا حادثہ ہے جس کے نتیجے میں جہاں مرنے والے کی مہلتِ عمل ختم ہو جاتی ہے، وہیں پیچھے رہ جانے والوں کے ظرف کا امتحان شروع ہو جاتا ہے۔جانے والوں کا یہ حق ہے کہ انہیں تکریم اور بردباری سے الوداع کہا جائے. اس میں کوتاہی کی گنجائش نہیں اور ہمیں اس روایت کو مضبوط کرنا ہے. یہ سیرت نبوی، صلی اللہ علیہ والہ وسلم، کا درخشندہ باب اور اس سے وابستہ اعلی اخلاقی اقدار کا سبق ہے۔“
گزشتہ روز ٹی وی اور ریڈیو کے ممتاز اداکار قاضی واجد بھی انتقال کر گئے۔ قاضی واجد بہت بڑے اداکار تھے، اخباری خبروں کے مطابق انہوں نے 1956ءمیں ریڈیو سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا، اس طرح چھ عشروں سے زائد انہوں نے صداکاری، اداکاری کے شعبے میں گزارے۔ قاضی واجد کا تعلق ان فنکاروں میں ہوتا ہے، جن سے پی ٹی وی کے زمانے کی سنہری یادیں وابستہ ہیں۔ کیسے کیسے شاندار ڈراموں میں انہوں نے کام کیا اور اپنی لاجواب اداکاری سے تین نسلوں کو محظوظ کرتے رہے۔
قاضی صاحب اصلاً ریڈیو کے آدمی تھے، ان کی بلند، واضح کھرج دار آواز اور غضب کی ڈائیلاگ ڈیلیوری انہیں دوسروں سے ممتاز بناتی تھی۔ حسینہ معین کے کئی بہت مقبول ڈراموں میں انہوں نے کام کیا اور ہر کردار میں نگینے کی طرح فٹ رہے۔ کون تنہائیاں یا دھوپ کنارے کے قاضی واجد کو بھلا سکتا ہے۔دھوپ کنارے میں ڈاکٹر زویا(مرینہ خان) کے والد کا کردار ایسا ادا کیا کہ دیکھنے والوںکے دل میں اتر گئے ۔ ان جیسا شفیق اور دل موہ لینے والی مسکراہٹ والا والد کا کردار کو ئی اور نہیں نبھا سکا۔انتہائی شائستہ لب ولہجہ، ہر لفظ کی بہترین ادائیگی اور کردار میں ڈوب کر پرفارمنس دینا۔ کسی انٹرٹینمنٹ شو میں شرکت کرتے تو ہنستے مسکراتے نظر آتے۔جن صحافیوں کو ان سے انٹرویو لینے کا موقعہ ملا، سب نے قاضی واجد کی شائستگی اور خوش اخلاقی کو سراہا۔
قاضی واجدکے مقدر میں بھی گھوڑے کی پشت پر موت آئی۔ ٹی وی کی دنیا کایہ بوڑھا جنگجو زندگی کے آخری دنوں تک نبرد آزما رہا۔ کہتے ہیں دو دن پہلے بھی ایک شوٹنگ کرائی۔ قاضی واجد کے ہماری نسل پر بہت احسانات ہیں، خوشی اور مسرت کے بہت سے لمحات ان کی وجہ سے آئے۔ زندگی بھر وہ دوسروں کی زندگیوں میں خوشیاں پھیلاتے رہے، رب کریم ان پر کرم فرمائے اور ان کی روح کو آسودہ رکھے آمین۔