386

دہلی میں اردو زبان پر جشنِ ریختہ

داغ دہلوی نے جب یہ شعر کہا ہوگا کہ ’’اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ، سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے‘‘ تو انھیں یہ اندازہ نہیں رہا ہوگا کہ ایک وقت آئے گا جب واقعی اردو ادب کی دھوم سارے جہاں میں ہو گی۔ ریختہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام دارالحکومت دہلی میں منعقدہ تین روزہ جشن ریختہ کے پانچویں ایڈیشن میں جب ہم پہنچے تو یہ شعر اپنی پوری معنویت کے ساتھ جلوہ گر نظر آیا۔

اس جشن میں محفل خانہ، بزمِ خیال، دیارِ اظہار اور سخن زار کے عنوان سے چار پنڈالوں میں سجے اسٹیجوں سے تین روز تک مسلسل اور ایک ساتھ پروگرام چلتے رہے۔

دہلی کے قلب میں واقع انڈیا گیٹ کے نزدیک میجر دھیان چند نیشنل اسٹیڈیم میں فیسٹیول کا آغاز وڈالی برادران کی قوالیوں سے اور اختتام نوراں سسٹر کی قوالیوں سے ہوا۔ مجموعی طور پر چالیس سے زیادہ سیشن ہوئے اور ہر سیشن شائقین سے بھرا رہا۔

جشن ریختہ کے پانچویں سیشن میں فن کاروں، شاعروں، ادیبوں، اداکاروں اور فلم سازوں نے اردو زبان کے حوالے سے اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ مرد و خواتین کے مشاعرے، داستان گوئی، مکالمے، بیت بازی، غزل سرائی اور فلم اسکریننگ وغیرہ نے آنے والے شائقین کو خوب محظوظ کیا۔

جاویداختر اور شبانہ اعظمی نے اپنے اپنے والد جاں نثار اختر اور کیفی اعظمی کے فن پر گفتگو کی۔

’’فیض کے تین عشق‘‘ کے نام سے ایک سیشن میں گوپی چند نارنگ نے فیض کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالی۔

علامہ اقبال کے فن پر پولینڈ کے ایک پروفیسر پیوترے کلودکو ووسکی نے گفتگو کی۔

پروفیسر پرشوتم اگروال اورعبدل بسم اللہ نے کبیر کے فن پر تبادلۂ خیال کیا۔

ایک سیشن میں بدنام شعرا اور شاعرات پر گفتگو ہوئی تو ایک میں اپنی شاعری سنانے کے لیے نوجوانوں کی بھیڑ مشتاق نظر آئی۔

ریختہ فاؤنڈیشن کے چئرمین سنجیو صراف کا کہنا ہے کہ یہ اردو زبان ہی ہے جو تمام انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ سکتی ہے۔

ممتاز شاعر اور ریختہ فاؤنڈیشن کے ایڈیٹر انچارج فرحت احساس نے وائس آف امریکہ سے بات چیت میں بتایا کہ ریختہ نے ملک بھر میں اردو کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ ریختہ کا مقصد اردو زبان اور اردو تہذیب کو زیادہ سے لوگوں تک پہنچانا ہے اور وہ اس میں پوری طرح کامیاب ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ کل جو پانچواں جشن ختم ہوا ہے اس میں صرف پہلے دو روز میں مختلف مذہبوں اور تہذیبوں کے ڈھائی لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انگریزی تعلیم حاصل کرنے والی نئی نسل، انجینئر، ڈاکٹر، آئی ٹی پروفیشنل وغیر پہنچے۔ شرکا میں 80 فیصد نوجوان تھے۔

بقول ان کے اس پلیٹ فارم سے اردو کے تعلق سے بہت بڑی تبدیلی آئی ہے اور اردو کو فروغ دینے میں ہندوستان میں پہلے کبھی اتنا بڑا پروگرام نہیں چلایا گیا۔

کئی پروگراموں کی نظامت کرنے والے معروف شاعر اور ناظم مشاعرہ شکیل جمالی نے کہا کہ ریختہ فاؤنڈیشن نے اردو کو گھر گھر تک پہنچا دیا اور اب لوگ اردو سیکھ رہے ہیں۔ اب تو ریختہ نے اردو رسم الخط سکھانے کی بھی کوشش شروع کر دی ہے۔ اس کے لیے تمام وسائل استعمال کیے جا رہے ہیں۔ کلاسز شروع کی گئی ہیں۔

بقول ان کے ریختہ نے معیار کے معاملے میں کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ اس میں ادب، فلم، اسٹیج ہر شعبے کی بڑی شخصیات نے اس میں شرکت کی۔ اس میں نوجوانوں کی بڑی تعداد آتی ہے اور اردو زبان سے اپنی دلچسپی کا مظاہرہ کرتی ہے۔

اس فیسٹیول میں دہلی کے باہر سے بھی لوگ آئے۔ یہاں سے آٹھ سو کلو میٹر دور اتر پردیش کے مؤناتھ بھنجن سے آنے والے ایک شائق ابو اشعر فہیم نے کہا کہ ابھی تک ہم صرف یو ٹیوب پر ریختہ کو سنتے تھے۔ اس بار ہم نے سوچا کہ خود چل کر دیکھا جائے کہ کیا کام ہو رہا ہے۔

ان کے مطابق ریختہ نے اردو کو اس معاشرے تک پہنچا دیا ہے جو اپر سوسائٹی کہلاتا ہے۔ اس نے دوریاں ختم کر دی ہیں۔ اب لوگ اردو پڑھ رہے ہیں، لکھ رہے ہیں، اردو کتابیں خرید رہے ہیں اور اردو میں سوچ رہے ہیں۔ اس نے گنگا جمنی تہذیب کو پروان چڑھایا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس نے مختلف تہذیبوں کے مابین دوریاں ختم کر دی ہیں۔

فیسٹیول کے شرکا میں زبردست جوش دیکھا گیا ہے۔جب ایک سیشن میں فلم اداکار جاوید جعفری نے کہا کہ ’’لوگ کہتے ہیں کہ اردو خطرے میں ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ اردو قطرے قطرے میں ہے‘‘ تو شائقین نے انتہائی پرجوش اور والہانہ انداز میں ان کا استقبال کیا۔

متعدد شائقین یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ اب ہمیں اس کے اگلے فیسٹیو ل کا انتظار رہے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں