اگر میں کہوں کہ پاکستانی چور ہیں پانچ روپے پر بھی بک جاتے ہیں، تو تمام پاکستانی مجھے برا بھلا کہنا شروع کردیں گے، حالانکہ میں انہیں ایسی سینکڑوں مثالیں بھی دے سکتا ہوں کہ کیسے کچھ پاکستانیوں نے معمولی فوائد پر اپنی شناخت، اور اپنے ملکی راز بیچ دئیے، لوگ مجھے جواب میں کہیں گے کہ آپ چند گندے بندوں کی کارستانیوں کا الزام ساری پاکستانی قوم پر نہیں ڈال سکتے، بالکل ایسے ہی اگر کچھ دوہری شہریت والے لوگوں نے پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے، تو آپ اسکا الزام ستر اسی لاکھ دوہری شہریت رکھنے والوں پر نہیں لگا سکتے، کیونکہ پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتی ہیں۔
پاکستان کے انیس ممالک کے ساتھ دوہری شہریت رکھنے کے معاہدات ہیں، کوئی بھی پاکستانی شہری اگر ان انیس ممالک کی شہریت لے لے تو اسکی پاکستانی شہریت بھی برقرار رہتی ہے، لیکن ان انیس ممالک کے علاوہ اگر کوئی پاکستانی کسی اور ملک کی نیشنیلیٹی حاصل کرتا ہے تو اسکی پاکستانی نیشنیلیٹی خود بخود ختم ہوجاتی ہے۔ یہ انیس ممالک مندرجہ ذیل ہیں۔
برطانیہ، فرانس، اٹلی، بیلجیم، آئس لینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا، فن لینڈ، مصر، اردن، شام، سوئٹزرلینڈ، ہالینڈ، امریکہ، سویڈن، آئرلینڈ، بحرین، ڈنمارک۔
پاکستان کے برعکس انڈیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ دوہری شہریت کے معاہدے نہیں ہیں، لحاظہ اگر کوئی انڈین شہری دنیا کے کسی بھی ملک سے شہریت لیتا ہے تو اسکی انڈین شہریت خود بخود ختم ہوجاتی ہے۔ ایسے لوگوں کیلئے این آر آئی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، نان ریزیڈنٹ آف انڈیا۔ انڈین آئین میں یہاں تک درج ہے کہ جو انڈین شہری ایک مالی سال کے دوران 182 دنوں سے کم وقت انڈیا میں رہتا ہے اسکی انڈین نیشنیلیٹی بھی ختم ہو جاتی ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں سوا تین کڑور انڈین NRI رہتے ہیں اور یہ لوگ انڈیا ویزہ لیکر آتے ہیں، لحاظہ ایسے لوگ انڈیا میں الیکشن نہیں لڑ سکتے، سرکاری نوکریاں حاصل نہیں کرسکتے، لیکن انڈیا میں بنک اکاؤنٹ کھلوا سکتے اور جائیدادیں خرید سکتے ہیں۔
پاکستانی حکومت نے خود انیس ممالک کے ساتھ دوہری شہریت کے معاہدات کئیے ہوئے ہیں، اگر دوہری شہریت والے اتنے ہی ناقابل بھروسہ ہیں تو حکومت یہ معاہدات ختم کیوں نہیں کردیتی، اور انڈیا والا ماڈل کیوں نہیں اپنا لیتی؟؟
اورسیز پاکستانیوں نے عمران خان کی پی ٹی آئی حکومت کیلئے بہت وقت اور پیسہ لگایا ہے، اور انہیں اس بات کا یقین ہے کہ عمران خان پاکستان میں وہ تبدیلی لا سکتا ہے جسکا عملی طور پر اورسیز پاکستانی فرسٹ ورلڈ خاص طور پر سکنڈینیوین ممالک میں مشاہدہ کر چکے ہیں، اس لئے جب سے عمران خان کی حکومت آئی ہے، اورسیز پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اپنے اپنے تجربات پاکستانی حکومت کے ساتھ شئر کرنے کو تیار بیٹھی ہوئی ہے، تاکہ جلد پاکستان میں تبدیلی کا عمل شروع کیا جاسکے، سیکنڈی نیویا اور خاص طور پر سویڈن میں کتعلیم، صحت، اور سوشل کا نظام، کوڑے کا نظام، مقامی حکومتوں کا نظام، اور ایسے بہت سے نظام گزشتہ کئی دہائیوں سے کامیابی کیساتھ چل رہے ہیں اور انہیں پاکستان میں بھی کامیابی سے چلایا جاسکتا ہے اور ایسا کرنے کے لئے ہم حکومت پاکستان کی مدد کرسکتے ہیں، اگر حکومت اور عدالتیں ہمیں شک کی نظر سے دیکھنے کی بجائے ہم پر اعتماد کرنا شروع کردیں۔
ہمیں نہ تو پاکستان سے عہدے چاہئیں، نہ ہی زیادہ تنخواہیں اور دیگر مراعات، بلکہ اگر ہماری کوششوں سے پاکستان میں تبدیلی آ جائے اور اس تبدیلی کے ثمرات عام عوام تک پہنچنا شروع ہوجائیں تو ہمارے لئے اتنی کامیابی ہی بہت ہے۔