353

حاجی عبدالوہابؒ

پاکستان تبلیغی جماعت کے امیر حاجی عبدالوہابؒ صاحب پچانوے سال کی عمر میں آج اٹھارہ نومبر کے دن اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے ہیں، آپ نے ستر پچھتر سال کے لگ بھگ خالصتاً دین اسلام کی سربلندی کیلیئے خرچ کر دئیے، آپ کی بےلوث محنت سے دنیا کے کونے کونے، شہر شہر، اور ملک ملک میں دین کی تبلیغ کا کام پھیلا، پاکستان سے تبلیغی جماعتیں تمام دنیا میں پھیلیں اور بھٹکے ہوئے مسلمانوں کی زندگیوں میں دین اسلام کی شمع روشن کی اور لاکھوں کڑوروں لوگوں کو دین کے کام پر لگا دیا۔ آج جناب حاجی عبدالوہابؒ صاحب کی وفات پر ہر آنکھ اشکبار ہے، اور مولانا کی مفغرت کیلئے دعا گو ہے۔

حاجی عبدالوہابؒ 1922 میں دہلی میں پیدا ہوئے، آپ راجپوت گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، آپ نے اسلامیہ کالج لاہور سے گریجوایشن کی ڈگری حاصل کی اور کچھ عرصہ پاک و ہند تقسیم سے پہلے تحصیلدار کے عہدے پر فائز رہے۔ جوانی کے دنوں میں آپ عبدالقادر رائے پوری صاحب سے بہت متاثر ہوئے اور مجلس احرار ہند کے سرگرم رکن اور اسکی بورے والا شاخ کے صدر بھی رہے ہیں۔

مولانا الیاس کاندھلوی نے جب دہلی میں تبلیغی جماعت کی بنیاد رکھی تو عبدالوہاب صاحب یکم جنوری 1944 کو نظام الدین مرکز پہنچے اور مولانا الیاس کی زندگی میں ہی انہوں نے تبلیغی جماعت میں شمولیت اختیار کر لی۔ آپ نے تبلیغ سے بےلوث محبت اور اسلام کی سربلندی کیلئے اپنی نوکری چھوڑ دی اور کل وقتی دین اسلام کو لوگوں کی زندگیوں میں لانے کیلئے کمر بستہ ہوگئے۔

حاجی عبدالوہابؒ ان پانچ پاکستانیوں میں سے ایک تھے جنہوں نے اپنی تمام زندگی دین اسلام کیلئے وقف کر دی، آپ مولانا محمد الیاس کاندھلوی، یوسف کاندھلوی، محمد ذکریا کاندھلوی اور انعام الحسن کاندھلوی کے نزدیکی اور بہترین دوست بھی تھے۔

محمد شفیع قریشی پاکستان تبلیغی جماعت کے باضابطہ طور پر پہلے امیر تھے، انکے بعد حاجی محمد بشیر صاحب امیر بنے اور تیسرے نمبر پر جناب حاجی مولانا عبدالوہاب صاحب امیر تبلیغی جماعت بنے جو اپنی وفات تک امارت کے عہدے پر فائز رہے۔

حاجی عبدالوہاب صاحب کو 2013 میں مولانا سمیع الحق صاحب مرحوم کے ساتھ لُویا جرگہ کا ہیڈ بنایا گیا، اور انہوں نے پاکستانی طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کئیے، جناب عبدالوہاب صاحب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ 2014/2015 کے (The Muslim 500) شمارے میں انہیں دنیا کے پانچ سو بااثر ترین مسلمانوں کی لسٹ میں دسویں نمبر پر جگہ دی گئی۔

خطبہ حج الوداع کے موقعہ پر نبی صلی اللہ وسلم نے سوا لاکھ صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم کے مجمعہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ کیا میں نے اللہ کا پیغام آپ تک پہنچا دیا ہے؟ اس پر سب صحابہ نے یک زبان ہو کر فرمایا تھا کہ جی رسول اللہ آپ نے پہنچانے کا حق ادا کر دیا ہے، اس جواب پر اللہ کے نبی صلی اللہ وسلم نے اپنی انگلی مبارک آسمان کی طرف کر کے یہ فرمایا تھا کہ اے اللہ تو گواہ رہنا اور صحابہ کو فرمایا کہ میرا پیغام غائیبین تک پہنچا دو، صحابہ کا یہ سننا تھا کہ وہ ساری دنیا میں پھیل گئے، اور اپنی وفات تک دین کی سربلندی کیلئے کام کرتے رہے، جسکا ثبوت صحابہ اکرام کی تمام دنیا میں پھیلی قبریں ہیں، جبکہ مکہ مدینہ میں صرف چند سو صحابہ اکرام مدفون ہیں۔ حاجی عبدالوہاب کی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ ہے اور ہم سب کا فرض ہے کہ نبی صلی اللہ وسلم کے امتی ہونے کا حق ادا کریں اور مولانا صاحب کی طرح دین کی سربلندی کیلئے کام کرنا شروع کردیں، کیونکہ یہ دنیا عارضی ہے، جلد ختم ہونے والی ہے اور آخرت کی زندگی ہمیشہ کیلئے ہے اور اس ہمیشہ والی زندگی میں کامیابی دین اسلام پر چلنے سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں