329

بہادر شاہ ظفر کی عبرت ناک موت

ہندوستان کے آخری شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو میکنن میکنزی بحری جہاز میں بٹھا دیا گیا۔یہ جہاز17 اکتوبر 1858ء کو رنگون پہنچا ،شاہی خاندان کے 35 مرد اور خواتین بھی تاج دار ہند کے ساتھ تھیں۔ کیپٹن نیلسن ڈیوس رنگون کا انچارج تھا۔وہ بندر گاہ پہنچا۔ اس نے بادشاہ اور اس کے حواریوں کو وصول کیا۔رسید لکھ کر دی اور دنیا کی تیسری بڑی سلطنت کے آخری فرمانروا کو ساتھ لے کر اپنی رہائش گاہ پر آ گیا۔ نیلسن پریشان تھا۔ بہادر شاہ ظفر قیدی ہونے کے باوجود بادشاہ تھا اور نیلسن کا ضمیر گوارہ نہیں کر رہا تھا وہ بیمار اور بوڑھے بادشاہ کو جیل میں پھینک دے مگر رنگون میں کوئی ایسا مقام نہیں تھا جہاں بہادر شاہ ظفر کو رکھا جا سکتا۔وہ رنگون میں پہلا جلا وطن بادشاہ تھا۔نیلسن ڈیوس نے چند لمحے سوچا اور مسئلے کا دلچسپ حل نکال لیا۔نیلسن نے اپنے گھر کا گیراج خالی کرایا اور تاجدار ہند۔ ظِلّ سْبحانی اور تیموری لہو کے آخری چشم و چراغ کو اپنے گیراج میں قید کر دیا۔بہادر شاہ ظفر17 اکتوبر 1858ء کو اس گیراج میں پہنچا اور 7 نومبر 1862ء تک چار سال وہاں رہا۔آخری دن بدنصیب بادشاہ کی خادمہ نے شدید پریشانی میں کیپٹن نیلسن ڈیوس کے دروازے پر دستک دی اور اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا۔ ملازمہ کی آواز سن کر نیلسن نے اپنا پسٹل اٹھایا، گارڈز کو ساتھ لیا اورگیراج میں داخل ہو گیا۔

بادشاہ کی آخری آرام گاہ کے اندر بَدبْو، موت کا سکوت اور اندھیرا تھا۔اردلی لیمپ لے کر بادشاہ کے سرہانے کھڑا ہو گیا۔نیلسن آگے بڑھا۔بادشاہ کا کمبل آدھا بستر پر تھا اور آدھا فرش پر۔اْس کا ننگا سر تکیے پر تھا لیکن گردن ڈھلکی ہوئی تھی۔ آنکھوں کے ڈھیلے پپوٹوں کی حدوں سے باہر اْبل رہے تھے۔ گردن کی رگیں پھولی ہوئی تھیں اور خشک زرد ہونٹوں پر مکھّیاں بِھنبھِنا رہی تھیں۔ نیلسن نے زندگی میں ہزاروں چہرے دیکھے تھے لیکن اس نے کسی چہرے پر اتنی بے چارگی۔ اتنی غریب الوطنی نہیں دیکھی تھی۔ وہ کسی بادشاہ کا چہرہ نہیں تھا۔وہ دنیا کے سب سے بڑے بھکاری کا چہرہ تھا اور اس چہرے پر ایک آزاد سانس,جی ہاں……. صرف ایک آزاد سانس کی اپیل تحریر تھی۔

 کیپٹن نیلسن نے بادشاہ کی گردن پر ہاتھ رکھا۔ زندگی کے قافلے کو رگوں کے جنگل سے گزرے مدت ہو چکی تھی۔ ہندوستان کا آخری بادشاہ زندگی کی حد عبور کر چکا تھا۔ نیلسن نے لواحقین کو بلانے کا حکم دیا۔ لواحقین تھے ہی کتنے ایک شہزادہ جوان بخت اور دوسرا اس کا استاد حافظ محمد ابراہیم دہلوی۔ وہ دونوں آئے. • انھوں نے بادشاہ کو غسل دیا۔ کفن پہنایا اور جیسے تیسے بادشاہ کی نمازِ جنازہ پڑھی۔ قبر کا مرحلہ آیا تو پورے رنگون شہر میں آخری تاجدار ہند کے لیے دوگز زمین دستیاب نہیں تھی۔ نیلسن نے سرکاری رہائش گاہ کے احاطے میں قبر کھدوائی اور بادشاہ کو خیرات میں ملی ہوئی مٹی میں دفن کر دیا۔ قبر پر پانی کا چھڑکاؤ ہورہا تھا ۔ گلاب کی پتیاں بکھیری جا رہی تھیں تو استاد حافظ ابراہیم دہلوی کے خزاں رسیدہ ذہن میں 30 ستمبر 1837ء کے وہ مناظر دوڑنے بھاگنے لگے جب دہلی کے لال قلعے میں 62 برس کے بہادر شاہ ظفر کو تاج پہنایاگیا۔ ہندوستان کے نئے بادشاہ کو سلامی دینے کے لیے پورے ملک سے لاکھ لوگ دلی آئے تھے اور بادشاہ جب لباس فاخرہ پہن کر۔ مگر سات نومبر 1862ء کی اس ٹھنڈی اور بے مہر صْبح بادشاہ کی قبر کو ایک خوش الحان قاری تک نصیب نہیں تھا. استاد حافظ محمد ابراہیم دہلوی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے جوتے اتارے۔ بادشاہ کی قبر کی پائینتی میں کھڑا ہوا اور سورہ توبہ کی تلاوت شروع کر دی۔

یہ قرآن مجید کی تلاوت کا اعجاز تھا یا پھر استاد ابراہیم دہلوی کے گلے کا سوز, کیپٹن نیلسن ڈیوس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے ہاتھ اٹھایا اور اس غریبْ الوطن قبر کو سیلوٹ پیش کر دیا اور اس آخری سیلوٹ کے ساتھ ہی مغل سلطنت کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ آپ اگر کبھی رنگون جائیں تو آپ کو ڈیگن ٹاؤن شِپ کی کچّی گلیوں کی بَدبْودار جْھگّیوں میں آج بھی بہادر شاہ ظفر کی نسل کے خاندان مل جائیں گے۔ یہ آخری مْغل شاہ کی اصل اولاد ہیں مگر یہ اولاد آج سرکار کے وظیفے پر چل رہی ہے۔ یہ کچی زمین پر سوتی ہے۔ ننگے پاؤں پھرتی ہے۔ مانگ کر کھاتی ہے اور ٹین کے کنستروں میں سرکاری نل سے پانی بھرتی ہے, مگر یہ لوگ اس کَسمَپْرسی کے باوجود خود کو شہزادے اور شہزادیاں کہتے ہیں۔ یہ لوگوں کو عہد رفتہ کی داستانیں سناتے ہیں اور لوگ قہقہے لگا کر رنگون کی گلیوں میں گم ہو جاتے ہیں یہ لوگ شہر میں نکلتے ہیں تو ان کے چہروں پر صاف لکھا ہوتا ہے۔ جو بادشاہ اپنی سلطنت۔ اپنے مینڈیٹ کی حفاظت نہیں کرتے۔ جو عوام کا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں۔ ان کی اولادیں اسی طرح گلیوں میں خوار ہوتی ہیں۔ یہ عبرت کا کشکول بن کر اسی طرح تاریخ کے چوک میں بھیک مانگتی ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں کو یہ حقیقت سمجھ نہیں آتی۔ یہ خود کو بہادر شاہ ظفر سے بڑا بادشاہ سمجھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں