ایک نیک دل بادشاہ نے ایک یتیم، غریب اور بے آسرا لڑکے کو اپنے محل میں پناہ دے رکھی تھی۔ بادشاہ کی عادت تھی کہ جب بھی اُس کے سامنے کوئی کھانے پینے کی لذیذ چیز پیش کی جاتی وہ پہلے اُس لڑکے کو کھانے کے لیے دیتا پھر خود کھاتا۔ یہ سلسلہ کافی عرصے تک یونہی چلتا رہا۔
ایک دِن بادشاہ کے سامنے کچھ پھل لائے گئے تو بادشاہ نے حسب معمول اور حسب عادت ایک پھل کاٹ کر پہلے اُس لڑکے کو دیا، جسے وہ بڑے آرام سے کھانے لگا۔ بادشاہ نے پوچھا “بیٹا! پھل کا ذائقہ کیسا ہے؟”لڑکے نے جواب دیا،۔۔۔۔ “حضور! بہت مزیدار ہے۔۔!”جب لڑکا پھل کھا چکا تو بادشاہ نے ایک پھل اپنے لیے کاٹ کر کھانے کا ارادہ کیا۔ جیسے ہی اُس نے وہ پھل اپنے منہ میں رکھا فوراً باہر تھوک دیا، “توبہ توبہ اتنا کڑوا۔۔!” بادشاہ کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔”تم تو کہتے تھے بڑا مزیدار پھل ہے، لیکن یہ تو بہت کڑوا ہے۔۔!” بادشاہ نے حیرت اور افسوس سے لڑکے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔! دوستو! لڑکے نے بڑا تاریخی جواب دیا۔۔! اُس نے کہا “حضور! آپ مجھ غریب کو روزانہ اتنے لذیذ اور مزیدار کھانے اور پھل پیش کرتے ہیں، پہلے مجھے دیتے ہیں پھر خودکھاتے ہیں۔ حالانکہ میں اِس عزت اور مرتبے کا اہل نہیں ہوں۔ تو کیا ہوا اگر ایک مرتبہ کڑوا پھل بھی کھانے کو مل گیا، میں تو اِسے بھی آپ کا احسان سمجھ کر کھا گیا۔۔!
“ذرا ہم اپنا محاسبہ کریں کہ۔۔!!!ہم پر اللہ تعالیٰ کی کتنی نعمتوں کا احسان ہے۔ ہم ہر پل، ہر لمحہ اُن سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ لیکن اگر کبھی خدانخواستہ ہمارے اوپر اِن نعمتوں کی بابت آزمائش آجائے تو کیا ہم بھی اُسے اللہ کا احسان سمجھ کر برداشت کریں گے، یا پھر گلے شکوں سے کفر کی حد تک پہنچ جائیں گے۔۔