ایک بار پشتو فلم دیکھنے کا اشتیاق ہوا، چند دوست مل کر ایک سینیما میں گئے، فلم کا نام تھا، زما جاناناں، شائد یہی نام تھا لیکن پکا یاد نہیں تاہم فلم دیکھنے کے لئے جو احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی تھیں وہ بڑی اچھی طرح سے یاد ہیں
گیلری کا ٹکٹ لینا ھے خواہ کتنا ہی مہنگا کیوں نہ ہو،
سیٹیں اوپر کی پہلی لائین میں ہوں اور کارنر سے شروع ہوں تاکہ ایک سائیڈ پر اور پشت پر دیوار ہو جبکہ تیسری غیر محفوظ سائیڈ پر سعید خان بیٹھے گا تاکہ ہر خطرے سے اپنی زبان میں بخوبی نمٹ سکے،
ہاف ٹائیم میں باھر نہیں نکلنا ہے تاکہ پٹھان بھائی ہمارے اوپر آنکھ نہ رکھ لیں،
پانی نہیں پینا تاکہ واش روم نہ جانا پڑے،
شومئی قسمت اگر کسی کو واش روم جانا پڑے تو کوئی اکیلا نہیں جائے گا،
تین لوگ ایک ساتھ واش روم جائیں گے تاکہ ایک اندر ہو تو دو باھر ہوں، باہر کھڑا ایک بندہ بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے، اس لئے سب دوست ایک ساتھ نہیں جا سکتے تو کم از کم تین تین کی ٹولیوں میں جاؤ،
کسی صورت میں بھی ایک دوسرے کا ساتھ نہیں چھوڑنا،
شو ختم ھو تو ایک دوسرے کا ھاتھ پکڑ کر باہر نکلنا ھے،
کوئی لڑکا رش میں ادھر ادھر ہو جائے تو فوراً گیٹ کے پاس پہنچ جائے تاکہ اسے ڈھونڈنے میں آسانی رہے،
نوجوانی میں پشتو فلم دیکھنے جانا گویا جنگ پہ جانے جتنی احتیاط کا متقاضی ہے،
فلم دیکھنے کے بعد ایک احتیاط اور سمجھ میں آئی کہ انڈروئیر پہن کے جانا دوطرفہ شر سے حفاظت کے لئے بہترین چیز ھے
فلم کیا تھی، کیا نہیں تھی، کچھ نہیں سمجھ آئی، بس مسرت شاھین کے چہرے پر بنایا گیا تل یاد ہے اور اس کے رگڑ دگڑ، دا دا ودڑ دا ڑا دا، رگڑ دگڑ، ڈھیوں ڈھیوں ڈھاؤں ڈھاؤں طرز کے گانوں پر اس کا بڑا ھیلیرئیس قسم کا ڈانس یاد ہے،
کچھ ڈائیلاگ شائد اس طرح کے تھے
اوے لکا زما دشمنان دے
دغا زما جنگونا دے
ڈز ڈز ڈز ڈز
دغا شپیتو گولیان سرا او جانونا ورکا
ڈز ڈز ڈز ڈز
دل تہ راشہ جانانہ ورکا
دغا شپک دشمنونا سرا زما یوا سڑے ڈیر دے
ڈز ڈز ڈز
دوسری جو چیز یاد ھے وہ ھے گانے پہ گانا
کوئی پیدا ھوا تو گانا چالو
کوئی مر گیا تو گانا چالو
کوئی کسی کو ڈھونڈنے جا رھا ھے تو گانا شروع
اگر ڈھونڈنے سے بندہ نہیں مل رھا تو پھر گانا چالو
ھر کامیابی پر گانا، ھر ناکامی پر گانا
اوپر سے پشتو میوزک کی اپنی ہی شان ھے
پشتو گانے کا میوزک مجموعی طور پر کچھ اس طرح سے ہوتا ہے
دا، دا، وُدڑ، دا، ڑا، دا،
دا، دا، وُدڑ، دا، ڑا، دا،
رَگڑ دَگڑ، ٹیوں ڑِیوں، رَگڑ دَگڑ
دا، دا، ودڑ، دا، ڑا، دا،
دا، دا، ودڑ، دا، ڑا، دا،
ڈھیوں ڈھیوں،
ڈھاؤں ڈھاؤں،
پشتو میوزک سننے کے لئے کم اور ہیروئین کی ذاتی اشیاء ہلانے کے لئے زیادہ کام آتا ھے
جہاں چھوٹی چیزیں ہلانی ہوں تو وہاں
ڈھیوں ڈھیوں کی علیحدہ ہی آواز آتی ھے
زما دلدارا زما جانان دے دلتا او پیار کڑو
ڈھیوں ڈھیوں ڈھیوں ڈھیوں
اس ڈھیوں ڈھیوں پر وہ بیچاری اپرفلور کے دونوں فلیٹ جس بے دردی سے چار بار ہلاتی ھے اسے دیکھ کر یقین آجاتا ھے کہ ہیروئین کو رزق کمانا کتنا مشکل ھے
اس کے ساتھ دوسری ٹیون ڈھاؤں ڈھاؤں کی طرح سے ہوتی ھے، اس ڈھاؤں ڈھاؤں پر ہیروئیں منہ دوسری طرف کر کے نئی دہلی کو وہ زوردار جھٹکے دیتی ھے کہ دیکھنے والوں کی جان پہ بن جاتی ھے اور سارے کا سارا ھال سیٹیوں اور پشتو کے نامعلوم نعروں سے گونج اٹھتا ھے
کل ملا کر پشتو گانا کچھ اس طرح سے بجتا ہے
دا، دا، ودڑ، دا، ڑا، دا،
دا، دا، ودڑ، دا، ڑا، دا،
رگڑ دگڑ، رگڑ دگڑ
زما دلدارا زما جانان دے دلتا پیار او کڑو
ڈھیوں ڈھیوں ڈھیوں ڈھیوں
دلتا پیار او کڑو دے
ڈھاؤں ڈھاؤں ڈھاؤں ڈھاؤں
ہیرو صاحب بیک گراؤنڈ موسیقی کی لے پر ہیروئین کے بیک گراؤنڈ رقبے پر تحقیق کر رہا ہوتا ہے،
پھر جذبات سے مغلوب ہو کر وہ ایکدم ہیروئین کے بم پکڑنے کی کوشش شروع کرتا ھے مگر ڈھاؤں ڈھاؤں کا جھٹکا بڑا شدید ہوتا ہے اس لئے بیچارے کے ہاتھ کچھ نہیں آتا
اس موقع پر سب دیکھنے والوں کے کلیجے حلق میں آ جاتے ہیں کیونکہ بم اسکواڈ کے بغیر بم پکڑنا بہت حوصلے کا کام ہے
پشتو گانا اس وقت خود بخود ختم ہوجاتا ہے جب ہیروئین کے پیچھے جھٹکے کھا کھا کے ہیرو کا سانس پھول جاتا ہے
ویسے تو پہلے ہی گانے میں ہیرو کو یقین آ جاتا ھے کہ ہیروئین کی کوئی چیز قابو میں آنے والی نہیں پھر بھی وہ ہر گانے میں کوشش ضرور کرتا ہے، اس بات سے ٹرائی ٹرائی اگین کی اہمیت واضع ہوتی ہے
پشتو گانا اگر کسی ہالی وڈ کی فلم میں ڈال لیا جائے بمعہ اس پر ھونے والے رقص کے تو یقیناً ایسی فلم اسلامی جمہوریہ افغان پورہ میں بھی بے حد مقبول ہوگی
ایک بندہ تھری ڈی فلم دیکھنے گیا، ہیرو نے اپنی جیب سے کار کی چابی نکال کے ہیروئیں کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اس کا ہاتھ ناظرین کے سامنے تک چلا آیا، اس بندے نے بھی چابی پکڑنے کے لئے ہاتھ آگے بڑھا دیا، پھر شرمندگی کے احساس سے فوراً تھری ڈی چشمہ اتار کے ارد گرد دیکھا کہ کسی نے اس کی یہ حرکت دیکھی تو نہیں، مگر وہاں اس کے ارد گرد سبھی لوگ چشمے لگائے چابی پکڑنے کی کوشش میں لگے ھوئے تھے،
پشتو فلم پوری نہیں تو کم از کم اس کے گانے بھی لازمی طور پر تھری ڈی میں ھونے چاھئیں تاکہ ہیروئین کا فرسٹ فلور اور گراؤنڈ فلور گانے کے دوران جس قدر ہیرو صاحب کے ناک منہ کے پاس گھومتا رھتا ھے اتنا ھی فلم بین کو بھی اپنے ناک منہ کے قریب نظر آنا چاہئے اور جس طرح ہیرو ان پر آزادانہ ہاتھ پھیر رہا ہوتا ہے ویسے ہی ناظرین بھی ہوا میں ہاتھ گھما گھما کر اپنا شوق پورا کر سکیں، کیونکہ ناظرین اپنے مزے کے لئے پیسے خرچ کر کے آتے ہیں جبکہ ہیرو مزے لینے کی بھی فیس لیتا ھے تو پھر ناظرین کا تو بلکہ زیادہ حق بنتا ھے
الغرض یہ کہ پشتو فلم دیکھنے کا اپنا ہی مزا ھے، اور اس کے گانے دیکھنے کا علیحدہ ھی سواد ہے، جو فلم میں نے دیکھی تھی اس فلم میں اس قسم کے پورے بارہ گانے تھے،
پشتو کی سمجھ تو کچھ نہیں آئی لیکن ایک حساب کتاب کے بعد اس بات پر دل مطمئن ھو گیا کہ چھ روپے کے ٹکٹ میں ایسے 12 عدد لذیذ گانے جن میں پوری ہیومن اناٹومی ہلا کے دکھا دی گئی ہو کچھ برا سودا نہیں ہے گویا کہ ہر اناٹومک گانا آٹھ آنے کا پڑا تھا اور باقی کی فلم مفت میں دیکھی۔ (پختون بھائیوں سے معزرت کے ساتھ)