Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
301

مینگو پولیفیکیشن۔

آم کے بارے میں حضرت غالب کہہ گئے ہیں:

انگبیں کے بحکم ربّ الناس
بھر کر بھیجے ہیں سر بمہر گلاس

مرزا غالب کا عقیدہ تھا کہ آم ہوں اور بہت سارے ہوں یہی عقیدہ ہمارا بھی ہے، صحرا میں پیاسے جیسے العطش العطش پکارتے ہیں اسی طرح غالب کے مقلدین جون جولائی کی گرمی میں الامبش الامبش پکارا کرتے ہیں۔

میں نے ایک ولایتئے سے پوچھا وہاں آم کیا کلو ملتے ہیں، اس نے حیرت سے کہا کلو؟ … بھیا وہاں ہر آم پہ ٹیگ لگا ہوتا ہے، ایک لے کے کھا لیں، زیادہ طلب ہو تو ایک اور لے کے کھا لیں، وہاں کلو کا کوئی حساب نہیں بلکہ کیلوریز کا حساب ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں فراوانی اتنی ہے کہ بڑی بالٹی میں آم ڈالتے ہیں پھر پانی، پھر چارپائی کنارے بیٹھ کر اسی میں پاؤں ڈال لیتے ہیں اور رکتے اس وقت ہیں جب بالٹی کا پیندا یا اپنے پاؤں نظر آنے لگیں، ہمارے ہاں اتنی ساری کیلوریز ہضم کرنا بھی کوئی مشکل بات نہیں بس ایک بار بیوی سے جھگڑا ہو جائے تو دو کلو مزید آم کھانے کی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے اور اگر بیوی سے محبت ہو تو منا پیدا ہونے کی گنجائش نکل آتی ہے۔

شاعروں کو محبت میں جس قدر رقیب زہر لگتا ہے اسی قدر آم خوری میں ہمیں شراکت دار برا لگتا ہے بلکہ بموقع امب خوری ہمیں رقیب برداشت ہے نہ دوست، اس مبارک موقع پر نہ کوئی رقیب ہو نہ کوئی قریب ہو تو ہی آم کھانے کا مزا ہے۔

مرزا غالب اور صاحباں والے مرزا جہاں ایک ہی خاندان کے چشم و چراغ تھے وہاں ان کا ذوق بھی کچھ مختلف نہ تھا، مرزا غالب کو صرف آم پسند تھے لیکن مرزا صاحب کو چوری کے آم پسند تھے، مرزا غالب آم گھر لے آتے تھے جبکہ مرزا صاحب جنگل کی طرف لے جاتے تھے، مرزا غالب کو موسم کے بعد آم میسر نہیں ہوتے تھے لیکن مرزا صاحب کو سارا سال یہ سہولت میسر رہتی تھی، بلآخر یہی اوور ڈوز ہی ایک دن ان کی جان بھی لے گئی۔

آم کھانے میں سب سے اہم کام آم کو پولا کرنا ہے، یہ بہت آرٹسٹک کام گردانا گیا ہے، زرا سی بے احتیاطی سے آم پولا ہونے کی بجائے ایسے پچک جاتا ہے جیسے کوئی سہانا سپنا اچانک ٹوٹ گیا ہو، آم پولا کرنا کب، کیسے، کہاں اور کس نے ایجاد کیا اس کی تاریخی حیثیت پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

موجد کا نام:

آم پولا کرنا ایک مسلمان بھینسدان نے ایجاد کیا تھا جس کا نام نجم الدین، کنیت آمبروسا اور لقب بھینسدان تھا، نجم الدین آم بروسا بھینسدان کا اصلی وطن ترکی تھا، ترک امیر البحر خیرالدین باربروسا آپ کے گرائیں تھے اس لئے انہوں نے آپ کی برکت سے اپنا نام باربروسا رکھا تھا، بچپن میں کسی کو پتا نہیں تھا آمبروسا بڑے ہو کر کتنا بڑا کارنامہ سرانجام دیں گے لیکن اپنی والدہ محترمہ کی دعاؤں سے آپ نے ایکدن وہ کچھ کر دکھایا جو اس سے پہلے کسی سے نہ ہو سکا بلکہ آج اس کارنامے پر ساری ہندوستانی قوم کا منہ اور سر فخر سے لتھڑا ہوا ہے۔

مؤجد کے حالات زندگی:

نجم الدین آمبروسا بچپن ہی سے انتہائی ذہین اور درویش صفت انسان تھے اس لئے آپ قسطنطنطنطنیہ کے مضافات سے بھینسیں چُرایا کرتے تھے، آپ کے پاس چونکہ ہر ورائیٹی کی بھینس موجود ہوتی تھی اس لئے کوتوال شہر نے آپ کو بھینسدان کا لقب عطا کیا تھا، ایک بار جب آپ کے پاس دس سے زیادہ بھینسیں اکٹھی ہوگئیں تو انہیں سنبھالنا دن بدن مشکل ہوتا جا رھا تھا لہذا اپنی بھینسیں بیچنے کی غرض سے ایک قافلے کے ساتھ آپ اناطووووووولیہ کی منڈی مویشیاں چلے گئے، وہاں جا کر پتا چلا کہ راتوں رات ترکی کا بادشاہ بدل گیا ہے اور نئے بادشاہ نے اعلان کیا ہے کہ سب آلتو فالتو لوگ میری سلطنت سے باہر نکل جائیں ورنہ تین دن بعد ان سب کو حورم سلطان کی بھینٹ چڑھا کر ملکہ عالیہ والیہ وغیرہ کا صدقہ اتار دیا جائے گا، چنانچہ اس اعلان کو سن کر آپ تبلیغ کی غرض سے ہندوستان تشریف لے آئے۔

آپ کو پہلے سے پتا تھا کہ ہندوستان میں اس کام کیلئے کافی کھلی جگہ میسر ہے اس لئے آپ نے یہ بات ٹھان رکھی تھی کہ توبہ کے بعد ایک دن وہاں جا کر تبلیغ کیا کروں گا لیکن قدرت کو کچھ اور ہی مقصود تھا اس لئے وہ وقت بہت جلدی سر پہ آگیا اور آپ کو ہندوستان جانا پڑا، یہاں پہنچ کر تھکاوٹ کے پیش نظر ابھی آپ نے تبلیغ کا کام شروع نہیں کیا تھا کہ آپ کو آم کے ایک باغ میں مالی کا عہدہ پیش کر دیا گیا جو آپ نے مالک کا دل رکھنے کیلئے دو وقت کی روٹی کے عوض خوشدلی کے ساتھ قبول کرلیا۔

مینگو پولیفیکیشن کی دریافت:

ایک دن آپ حسب معمول آم کے باغ میں لیٹے ہوئے کچھ ایسا کرنے کا سوچ رہے تھے جس سے آپ کا نام رہتی دنیا تک قائم رہے نیز آپ کے والدین کا نام بھی روشن ہو جائے، پھر آپ کی والدہ محترمہ کی دعاؤں سے وہ لمحہ بھی آگیا کہ اتنے میں ایک پکا ہوا آم آپ کے سر کے بلکل پاس آکر گرا، آپ نے اٹھ کر سب سے پہلے تو خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ آپ کا سر زخمی ہونے سے بچ گیا ہے۔

بعد ازاں آپ نے غور سے دیکھا تو چوٹ لگنے سے وہ آم ایک طرف سے پولا ہوا پڑا تھا چنانچہ آپ نے اپنی ذہانت سے فوری طور پر یہ بات محسوس کرلی کہ اگر اسے چاروں خانے چِت یعنی چاروں طرف سے پولا کر دیا جائے تو اس میں موری نکال کے اس کا جوس باآسانی پیا جا سکتا ہے لہذا آپ نے موقع غنیمت جان کر اسے باقی اطراف سے بھی پولا کرکے رکھ دیا۔

پھر وہ آم لے کر باغ کے مالک کو دکھانے کیلئے سرپٹ بھاگتے ہوئے آپ اس کے گھر پہ پہنچ گئے، وہاں آپ نے اس طریقہ کار کی تفصیلات بتائیں اور آم کے اوپری حصے میں موری نکال کے بھی دکھائی نیز آپ نے یہ بھی واضع کیا کہ آم کے اوپر یہ جگہ بنیادی طور پر موری نکالنے کیلئے ہی بنی ہے جبکہ شاخ کے ساتھ آم کو لٹکانے کا کام بھی اسی جگہ سے اضافی طور پر لیا جاتا ہے۔

باغ کے مالک نے آپ کے ہاتھ سے آم لے کر چوپا تو اسے بہت نرم اور میٹھا لگا جبکہ اس طریقے کار میں اسے وہ سہولت بھی نظر آئی جو عام طریقوں میں نظر نہیں آتی تھی، اس شاندار ایجاد پر مالک نے وہ باغ آپ کے نام کر دیا اور خود فقیری اختیار کرلی تاکہ مفاد عامہ کیلئے آپ اس کام پر مزید تحقیقات جاری رکھ سکیں، یوں نجم الدین آمبروسا نے اس نئے سائنسی قانون کی بنیاد ڈالی اور اس کا سہرا اپنے سر پر باندھ لیا۔

ابتدا میں اس طریقہ کار کو آم پولا کرنا ہی کہتے تھے لیکن برصغیر میں آمد کے بعد ایک انگریز محقق نے اسے مینگو پولیفیکیشن کا نام دیا اور اس طریقے کو اپنے نام سے رجسٹرڈ کروانے کی بھونڈی سی کوشش بھی کر ڈالی لیکن برصغیر کی غیور عوام اس سازش کے خلاف متحد ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے اور انگریز سائنسدان کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر بھرپور احتجاج کیا یہاں تک کہ اس گھناؤنی سازش پر پانی پھیر دیا گیا، انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ آم پولا کرنے کو اپنے نام سے منسوب کرانا چاہتے تھے اس لئے برصغیر والوں نے انگریزوں کو بلآخر اپنے وطن سے ہی باہر نکال دیا۔

مینگو پولیفیکیشن کے بین الاقوامی اثرات:

یہ قانون منظر عام پر آنے کے بعد اہل مغرب پر مسلمانوں کی دھاک ایک بار پھر سے بیٹھ گئی، جب اس طریقہ کار کی شہرت بلادِ غرب تک پہنچی تو وہاں کے سائنسدان اس بات پر سخت حیران ہوئے کہ فروٹ سے کوئی قانون کیسے ایجاد کیا جا سکتا ہے، یہ وہ دور تھا جب مغربی سائینسدان مسلمانوں کی نقلیں کرکے دھڑا دھڑ نئے نئے قوانین ایجاد کر رہے تھے، انگریز سائنسدان اس ایجاد پر اسقدر حیران تھے کہ کئی دن تک کسی نے کچھ بھی نہ “پیا” بلکہ انگشت بدنداں ہو کر صرف پیٹیز کھاتے رہے، پھر وہ سب آپس میں سر جوڑ کر بیٹھ گئے تاکہ وہ بھی فروٹ سے کوئی قانون ایجاد کر سکیں، بلآخر نیوٹن نامی ایک جیلس قسم کے سائینسدان نے آمبروسا کی نقل کرتے ہوئے سیب گرنے کو بنیاد بنا کر کشش ثقل کا قانون دریافت کر ڈالا۔

اس ایجاد کا توڑ کرنے کیلئے چند سال بعد لاھور کے ایک بندے نے کششِ شکل کا قانون بنا کر ایک بار پھر مسلمانوں کی انگریزوں پر برتری کو ثابت کر دیا تاہم اس قانون کو خفیہ رکھنے کیلئے اسے پؤنڈی کا نام دیا گیا تاکہ اس کی نقل نہ بن سکے یہی وجہ ہے کہ ایک طویل عرصے تک کششِ شکل سے مسلمانوں کا بچہ بچہ بلکہ بچی بچہ سب واقف تھے سوائے انگریز کے، پھر جب کسی طرح سے انگریزوں کو اس قانون کی بھنک پڑ گئی تو ان لوگوں نے اس کے مقابلے میں کپڑے نہ پہننے کا قانون بنا ڈالا، اس قانون کا عملی مظاھرہ دیکھنے کیلئے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہر سال گرمیوں میں یورپ کا رخ کرتی ہے تاھم ابھی تک کسی کو اس کا کوئی جواب نہیں سوجھ سکا، اس نئے بیالوجیکل قانون کا جواب دینا مسلمانوں کیلئے ہنوز ایک بڑے چیلنج سے کم نہیں تاہم کچھ اینجیوز اس کے جواب میں کوئی نیا کانڈ کرنے کی بھرپور جستجو کر رہی ہیں پھر بھی یہ بیل منڈے چڑھتے دکھائی نہیں دیتی، امید ہے کہ کوشش البتہ جاری رہے گی۔

مینگو پولیفیکیشن کی ایجاد کا فائدہ:

اس ایجاد سے قبل لوگ آم کے چِھلکے اتار کے کھایا کرتے تھے، اس طریقہ کار میں آم کا بیشتر رس چوء کر جھولی میں گر پڑتا تھا جس سے دامن پر داغ لگ جایا کرتے تھے، یہ داغ دھونے کیلئے عوام کو کاسٹک سوڈا کا استعمال کرنا پڑتا تھا جو آم کھانے کی پاداش میں اضافی خرچے کا موجب بنتا جبکہ غریب آدمی یونہی دامن پر آم کے داغ لئے گھومنے پھرنے پر مجبور رہتا تھا۔

اس کے علاوہ دوسرا طریقہ آم کاٹ کر کھانے کا تھا جس میں سب ایک ساتھ بیٹھ کر آم کھاتے لیکن اس طریقے کار میں ایک بڑی خرابی یہ تھی کہ جس کی رفتار تیز ہوتی وہ زیادہ آم کھا جاتا جس سے باقیوں کو استحصال کا سامنا کرنا پڑتا تھا، اس طریقے سے آم کھاتے وقت لڑائی جھگڑا ہو جانا بھی عام سی بات تھی جس سے بعض اوقات طرفین کو بھاری جانی و مالی نقصان بھی اٹھانا پڑ جاتا تھا۔

آم کاٹ کر کھانے میں یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ ایک انسان نے آخرکار کتنے آم کھائے ہیں خواہ گن کر ہی کیوں نہ کاٹے گئے ہوں جبکہ آم پولا کرکے چوپنے میں یہ اطمینان رہتا ہے کہ بندے نے واقعی چار چھ آم بلا شرکت غیرے خود ہی کھائے ہیں، ان حالات میں مینگو پولیفیکیشن انتہائی انسانیت نواز قانون بن کر سامنے آیا جسے بلاشبہ نعمت غیرمترقبہ بھی کہا جا سکتا ہے۔

مؤجد کے بقیہ حالات زندگی:

نجم الدین آمبروسا کا ایجاد کردہ طریقہ دیکھتے ہی دیکھتے پورے ہندوستان میں پھیل گیا، آمبروسا اپنی اس ایجاد پر ابھی مزید تحقیق کر رہے تھے کہ آپ کی شہرت سن کر ایک دن حاکم وقت ملک ناصرالدین کیقباد نے آپ کو دلی دربار میں طلب کیا اور آم پولے کرنے میں آپ کی مہارت دیکھ کر اپنے دربار میں پانچ سیری منصب عطا کیا، پانچ سیر آم تو آپ چٹکیوں میں پولا کر دیتے تھے اس لئے ابتداء میں آپ کو پانچ سیری منصب عطا کیا گیا اور باورچی سے شاہی خلعت چھین کر ان صاحب کو پہنا دی، آج کل خلعت کی شکل کے کچن ایپرن بنے بنائے مل جاتے ہیں لیکن اس وقت بادشاہ اپنے خاص خاص بندوں کو مرحمت کیا کرتے تھے، شاہی خلعت دے کر بادشاہ نے آپ کو اپنی خدمت پر مجبور کر دیا، آپ بادشاہ سلامت کو آم پولے کرکے دیتے تھے کہ ایک دن آم کھٹا نکل آیا تو بادشاہ کا دل بھی ان سے کٹھا ہو گیا چنانچہ اس نے آپ کو دس سیری منصب عطا کرکے شاہی وزیروں کی خدمت پر مامور کر دیا کیونکہ اس عرصے میں آپ دس سیر آم بھی نہایت مہارت کے ساتھ منٹوں میں پولا کر دینے پر قادر ہو گئے تھے۔

آم بروسا اپنی لیاقت و قابلیت کی بنیاد پر ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے شاہی فوج میں ایکدن دس ہزاری منصب تک پہنچ گئے تب آپ کئی ماتحتوں کے ساتھ مل کر دس ہزار کے لشکر کیلئے آم پولا کیا کرتے تھے۔

ایجاد کے بقیہ فائدے:

آمبروسا کے طریقے سے بہت عرصہ تک لوگ آم کو ہی جوس والا ڈبہ بنا کر پیتے رہے لیکن پچھلی صدی کے آخر میں اس ایجاد کو مد نظر رکھ کر باقائدہ جوس کا ڈبہ ایجاد کیا گیا مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس ڈبے کی رائیلیٹی آم بروسا کی اولادوں کو نہیں ملتی وہ آج بھی چوک یتیم خانہ سے بنگلہ یتیم والا تک رکشے چلا کر اپنا پیٹ پالتے ہیں۔

دور حاضر میں ایجاد کا فائدہ:

دور حاضر میں اس ایجاد کا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اسے باقائدہ باٹنیکل سائنس سبجیکٹ کے طو پر تعلیمی اداروں میں بھی رائج کیا گیا ہے، اس تکنیک کو پہلی بار ایک اسکول نے متعارف کرایا، اب ان کے اسکول میں آم پولا کرنے کی خصوصی عملی تربیت دی جاتی ہے جس سے بچوں میں آم پولا کرنے کی خودانحصاری 98 فیصد تک پہنچ گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کے اسکول میں بچوں کے داخلے کی شرح اردگرد کے سب پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے کہیں زیادہ ہے، اس کے بعد دیگر اسکولوں میں بھی اس رجحان کے تحت استادوں کی ویکینسیاں نکل رہی ہیں جو بے روزگاری کم کرنے میں یقیناً معاون ثابت ہوں گی۔

آمبروسا کی وفات اور پولیفیکیشن لیگیسی:

نجم الدین آمبروسا نے خوشحالی کی وجہ سے کافی طویل عمر پائی تھی لیکن ایک دن آپ کی وفات واقع ہوگئی تاہم اس سے قبل آپ اپنی اولاد اور شاگردوں کی ایک بڑی تعداد نہایت مہارت کے ساتھ برصغیر کے اندر پھیلانے میں کامیاب ہو چکے تھے۔

آپ کے شاگرد آج بھی برصغیر میں سرعام پائے جاتے ہیں جنہوں نے بعد میں باقائدہ پولیفیکیشن لیگیسی کی بنیاد رکھی ان میں بڑے بڑے استاد لوگ پیدا ہوئے جو قیام پاکستان کے بعد کئی بار حکومت میں بھی آئے، انہیں پہچاننے کی واحد نشانی یہ ہے کہ پاکستان میں ہر وہ کام جس سے ملک و ملت کو پولا کیا گیا ہو وہ کارنامہ ہمیشہ انہی لوگوں نے سرانجام دیا ہے، یہی وہ لوگ ہیں جو ملک و قوم کو آم سمجھ کے پولا کرتے ہیں اور ان کو اس کام سے باز رکھنا بھی ممکن نہیں بس انتظار اس بات کا ہے کہ کب ان کو آم لڑ جائیں اور ان کی کارستانیوں سے نجات ملے۔

آمبروسا کے عقیدت مند:

آپ کے عقیدت مندوں میں وہ سارا ویلا طبقہ بھی شامل ہے جن کی نظریں ہر وقت استاد کے آبائی وطن قسطنطنیہ کے احوال پر لگی رہتی ہیں یہ وہاں کی خوشی غمی امپورٹ کرکے خوامخواہ میں اپنا آپ ہی پولا کرتے رہتے ہیں۔

آمبروسا کے مقلدین:

نجم الدین آم بروسا کے مقلدین اب بھی ہر گھر میں پائے جاتے ہیں، ان کی نشانی یہ ہے کہ جب بھی کوئی بچہ آم کھانے لگے یہ اسے اپنی ماہرانہ خدمات ضرور پیش کرتے ہیں کہ لایئے بیٹا ہم اسے پولا کرکے دیتے ہیں پھر آپ مزے سے جھونسنا تاکہ آپ کا ڈریس خراب نہ ہو۔

مینگو پولیفیکیشن کی ایجاد کے بعد یورپ میں لوگ آج بھی کیلوریز کے حساب سے ہی آم کھاتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں کیلوگرامز کے حساب سے کھائے جاتے ہیں بلکہ مینگو پارٹیز بھی منعقد کراتے ہیں پھر ہمارے ہاں بلک میں آم کھا کر فالتو کیلوریز کو ٹھکانے لگانے کی کوشش میں جھگڑے بڑھتے ہیں یا پھر آبادی بڑھتی ہے۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں