415

پاکستانی ڈاکٹر مسیحا یا چور؟ (حصہ سوئم)

میڈیسن کمپنیاں ڈاکٹرز کو آجکل گاڑیاں ڈائریکٹ گفٹ نہیں کرتیں بلکہ یہ کام وہ مریضوں سے کرواتی ہیں، مریض صحت یاب ہونے پر خوش ہو کر ڈاکٹرز کو گاڑی گفٹ کر دیتے ہیں جو درحقیقت میڈیسن کمپنیز کی طرف سے ہی آئی ہوتی ہیں، اس سے ڈاکٹر کا ضمیر بھی مطمئین ہوجاتا ہے کہ وہ رشوت نہیں بلکہ گفٹ لے رہا ہے اور میڈیسن کمپنیاں بھی نظروں میں نہیں آتیں اور ڈاکٹر خفیہ طریقے سے اسی کمپنی کی ادویات لکھ کر مریضوں کو دیتا رہتا ہے، چاہے مریض کو اسکی ضرورت ہو یا نہ ہو، ڈاکٹر اپنا ٹارگٹ پورا کر ہی لیتا ہے۔
کچھ ڈاکٹرز لمبی لمبی داڑھیاں رکھ کر تبلیغی جماعت کے اندر تبلیغ کے دوران مختلف علاقوں سے مریض گھیر کر اپنے کلینکس پر بھی لارہے ہیں۔ تبلیغی جماعت کے سابقہ امیر مولانا انعام الرحمن صاحب فرماتے تھے، تبلیغی جماعت کے اندر کچھ لوگ اہل غرض بھی آگئے ہیں، جو تبلیغ کے ساتھ ساتھ اپنی غرض بھی پوری کرتے ہیں، اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت عطا فرمائے، یہ لوگ تبلیغی جماعت کے عظیم کام کو متنازعہ بنا رہے ہیں، راقم نے خود تبلیغی جماعت کے ساتھ وقت لگایا ہوا ہے، اس لیئے اس پلیٹ فارم کے غلط استعمال پر دلی درد محسوس ہورہا ہے۔
پاکستان کے ایک بڑے شہر میں ایسے تبلیغی ڈاکٹروں کے بہت سے گروہ موجود ہیں جو لمبی داڑھیوں کے ساتھ بڑے زوروشور سے تبلیغی جماعتوں کے ساتھ مختلف علاقوں میں جاتے ہیں، وہاں موجود لوگوں کی آنکھیں چیک کرکے انہیں ڈرا دیتے ہیں کہ تمہاری آنکھوں کا رنگ پیلا ہورہا ہے تمہیں تو ہیپاٹائٹس ہوگیا ہے ہمارے کلینک پر تشریف لاؤ ہم اسکا کوئی حل نکال لیں گے اور وہ غریب لمبی داڑھیوں اور تبلیغی جماعت کی وجہ سے یقین کرتے ہوئے وہاں پہنچ بھی جاتے ہیں، ڈاکٹر صاحبان اپنی ذاتی لیباریٹریوں سے ٹیسٹ کرواتے ہیں اور مریض کو ہیپاٹائٹس کا بتا کر اسے کورس بھی شروع کروا دیتے ہیں، اگر مریض کے پاس دوائیوں کے پیسے نہ ہوں تو کمال مہربانی کرتے ہوئے انکی اقساط بھی کر دیتے ہیں، اگر کوئی مریض ہیپاٹائٹس ثابت ہونے کی لیباریٹری کی رسید مانگے تو اسے اس بات سے ڈرا کر رسید نہیں دیتے کہ اسکی کل کو شادی وغیرہ ہونی ہے رسید ساتھ رکھنے سے رشتہ داروں اور دوسرے لوگوں کو پتا چل جائے گا کہ اسے ہیپاٹائٹس ہوا تھا، لہذا اسے رسید نہیں دی جائے گی۔ کچھ لمبی لمبی داڑھیوں والے ڈاکٹر ان پڑھ اور غریب مریضوں کے علاج کے بہانے آپریشن کر کے انکا ایک ایک گردہ بھی نکال دیتے ہیں، مریض ساری عمر ایک گردے کے ساتھ زندگی گزارتا اور روتا رہتا ہے جبکہ ڈاکٹر صاحبان گردہ بیچ کر اپنا منافع پکا کر لیتے ہیں۔ یہ ڈاکٹرز انسانی روپ میں بھیڑیوں سے بھی بدتر ہیں، کیونکہ بھیڑیا بھی شاید پیٹ بھرنے پر چیڑ پھاڑ چھوڑ دیتا ہے، لیکن یہ بھیڑیا نما انسان بڑی بڑی جائیدادیں بنا رہے ہیں اور اپنی موت کو بھولے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹروں کی بےایمانیاں انکے ذاتی اور انفرادی اعمال ہیں، اس میں نہ تو داڑھی کا قصور ہے اور نہ ہی تبلیغی جماعت کا قصور ہے بلکہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ کچھ مفاد پرست اور بےایمان لوگ داڑھی بھی رکھ لیتے ہیں اور تبلیغ میں بھی آجاتے ہیں، ایسے ڈاکٹروں کے دماغ میں اتنی خباثت بھری ہوتی ہے کہ یہ جماعت کی تشکیل پر بھی سیاست کرتے ہیں، ہر ڈاکٹر کا مریض گھیرنے کا اپنا اپنا علاقہ ہے، ایک علاقے کے ڈاکٹر کی دوسرے علاقے کے ڈاکٹر کے علاقہ میں تشکیل نہیں ہوسکتی، اگر ہو جائے تو لڑائی ہونے کا خطرہ موجود ہوتا ہے، ایک مریض ہونے کے ناطے آپ سے درخواست ہے کہ علاج کروانے اور قابل اعتماد ڈاکٹر ڈھونڈنے کیلئے داڑھی اور نمازی ہونے کو پیمانہ نہ بنائیں بلکہ یہ چیک کر لیں کہ جس ڈاکٹر کے حوالے آپ اپنا جسم کر رہے ہیں اس میں خوف خدا کتنا ہے۔
پاکستان میں غیرصحت مندانہ طرز زندگی اپنانے اور ملاوٹ شدہ خوردنی اشیاء کھانے سے لوگ بہت سی بیماریوں میں مبتلا ہوگئے ہیں، ان میں ایک بیماری ریڑھ کی ہڈی اور جوڑوں کے درد کی دائمی بیماری بھی ہے، اس بیماری کا مستقل علاج موجود نہیں ہے بلکہ مریضوں کو تمام عمر درد دور کرنے والی ادویات کھانا پڑتی ہیں، مستقل ادویات کھا کھا کر عام مریض نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں اور وہ اس بیماری کا شارٹ کٹ ڈھونڈنے کے چکر میں ایسے لالچی ڈاکٹروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو انکی ریڑھ کی ہڈی اور دوسرے جوڑوں میں سٹیرائیڈل انجیکشن لگا دیتے ہیں، ان انجیکشنز سے مریض کو وقتی فائدہ ہوتا ہے لیکن بعد میں مریض کی رہی سہی قوت مدافعت بھی ختم ہوجاتی ہے۔
کچھ ڈاکٹرز نے سرکاری ہسپتالوں سے طویل رُخصت لیکر ہسپتال کے نزدیک اپنے پرائیویٹ کلینک بنائے ہوئے ہیں، چھوٹے شہروں میں موجود ایسے ڈاکٹر اکثر دس بارہ ڈسپنسر ٹائپ لڑکے اپنے پاس نوکری پر رکھ لیتے ہیں، ہر لڑکے کا تعلق اردگرد کے کسی بڑے گاؤں سے ہوتا ہے، ہر لڑکے کی یہ ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ فارغ اوقات میں اپنے گاؤں میں لوگوں کو اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ مذکورہ ڈاکٹر سے علاج کروائیں اسکے ہاتھ میں جوڑوں کے درد کی شفا ہے، لوگ چونکہ پہلے ہی ایسے دردوں سے تنگ آئے ہوئے ہوتے ہیں لہذا وہ ان ڈاکٹروں کے کلینک میں جوق درجوق جانا شروع کر دیتے ہیں اور یہ ڈاکٹر سٹیرائیڈل انجیکشن لگا کر مریضوں کو وقتی آرام دے دیتے ہیں اور پچاس سو روپے کے انجیکشن کی قیمت چار پانچ ہزار روپے چارج کر لیتے ہیں۔
یہ تحریر لکھنے کا مقصد ڈاکٹروں کے خلاف ایک محاذ کھڑا کرنا نہیں بلکہ لوگوں کو اس بات کا شعور دلانا ہے کہ وہ ان ڈاکو ڈاکٹروں سے کیسے بچ سکتے ہیں، اللہ سے دعا ہے کہ وہ ایسے ڈاکٹروں کو ہدایت عطا فرمائے اور ہمیں اسے ڈاکٹروں کے شر سے محفوظ رکھے آمین۔
(ڈاکٹروں کی بےایمانیوں پر لکھے جانے والے حقائق کا تیسرا حصہ۔۔۔۔جاری ہے)
#طارق_محمود

اپنا تبصرہ بھیجیں