قارئین تصیح فرمالیں۔ گزشتہ کالم میں میں نے دو لفظ درست لکھے تھے لیکن غلطی سے غلط چھپ گئے۔ لفظ ’’فائنانس‘‘ ہے فنانس نہیں، اسی طرح ’’ہائوزنگ‘‘ ہے ’’ہائوسنگ‘‘ نہیں حالانکہ عموماً یونہی لکھے جاتے ہیں جو غلط ہے۔ گزشتہ کالم کا عنوان تھا ’’اس کا انجام دیکھنا ہے مجھے‘‘ تب تک ’’فیصلہ‘‘ کی تاریخ اور وقت کا کسی کو علم نہ تھا اور یہ مصرعہ میں نے اپنےاس شعر سے لیا؎
انجام سامنے ہے اور استاد محترم صوفی تبسم یاد آتے ہیں جو برسوں پہلے لکھ گئے۔
یہی زندگی ہے اور یہی اس کا سبق بھی اگر کوئی سیکھنا سمجھنا چاہے کہ کانٹے کاشت کر کے کوئی کنول نہیں کاٹ سکتا۔ تم بدی بیج کر نیکی کی فصل نہیں اٹھا سکتے۔ تم شرپھیلا کر خیر نہیں سمیٹ سکتے اورانگارے دہکا کر اوس کی آس؟
عوام نے برف فروشوں کو بادشاہ بنا دیا۔
عوام نے دست کار، مزدوروں کو مہابلی بنا دیا۔
پاتال سے اٹھا کر اوج کمال تک پہنچا دیا۔
جواباً انہوں نے عوام کو کیا دیا؟
دھوکہ در دھوکہ …..فریب در فریب…..جھوٹ در جھوٹ۔
(سورۃ الانعام آیت 124)
(سورۃ الرحمٰن آیت 41)
(سورۃ المائدہ آیت 87)
(سورۃ البقرہ آیت 213)
(سورۃ آل عمران آیت 188)
اب اپنی 60 کروڑ روپے کی گھڑی سے کہو اسے تبدیل کرنے کی کوشش کر دیکھے کہ قیمتی ترین گھڑی بھی برا وقت تبدیل نہیں کرسکتی….. نواز فیملی سے بھی بڑا امتحان ان کے سیاسی اور فکری ’’ورکرز‘‘ کا ہے کہ وہ شخصیت پرست ہیں یا وطن پرست؟ ہڈیاں، چیچھڑے، مفادات، مراعات کافی ہوگئیں۔ ان کی تاریخ گواہ ہے کہ نہ یہ عوام کے دوست ہیں، نہ افواج سے ان کی بنتی ہے اور عدلیہ پر یلغار بھی ان کے چہرے پر چیچک کے داغوں کی طرح ہمیشہ ’’چمکتی‘‘ رہے گی۔ ادارے انہوں نے روند کے رکھ دیئے۔
دیر آید درست آید۔
نواز شریف…..نااہل شریف۔
کاش نظام ایسا ہو کہ چور پکڑنے میں پینتیس سال نہ لگیں۔ کیسا خاندان تھا جو پاکستان کےتقریباً پینتیس سال کھا گیا۔
یہ انجام نہیں آغاز ہے۔
جس کا آغاز میں نے دیکھا تھا
اس کا انجام دیکھنا ہے مجھے
نہ صادق ہے نہ امین
جھوٹا ہے اور خائن بھی
گارڈ فادر گیا لیکن گینگ یعنی بچے بلونگڑے ابھی باقی ہیں اور صرف سیاست میں نہیں، ہر شعبہ حیات میں ان کے جرثومے باقی ہیں۔ ’’استعفیٰ نہیں دوں گا‘‘ والی بڑھک پر کہا تھا میاں نواز ’’سو جوتے سو پیاز‘‘ کس طرف رواں دواں ہیں لیکن ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے…..ابھی تو مال مسروقہ کی واپسی کا بندوبست شروع ہونا ہے۔ نوازشریف ضیاء الحق کی ’’باقیات‘‘ تھا لیکن نواز شریف کی ’’باقیات‘‘ ابھی باقی ہیں لیکن یہ ’’سیاپا گروپ‘‘ اور ’’چنڈال چوکڑی‘‘ کب تک؟
میری ذاتی جنگ تو 24,23سال پر محیط ہے۔ دل کرتا ہے کہ چند کئی سالوں پرانے کالم ری پروڈیوس کروں لیکن جشن منانے سے زیادہ یہ شکر منانے کا وقت ہے۔ بے شک وہی ہے جو عزت دیتا ہے اور ذلت بھی۔
عوام کومبارک ہو۔
عدلیہ کو سلام۔
اور عمران خان کو…..
( شکریہ حسن نثار ڈاٹ پی کے)
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: justify; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}