250

عراق: پرتشدد مظاہروں کے بعد انٹرنیٹ سروس معطل

عراق میں بے روزگاری کی بلند شرح، حکومت کی جانب سے سہولتوں کی عدم فراہمی اور بدعنوانی کے خلاف مظاہروں کا حالیہ سلسلہ بصرہ سے شروع ہوا تھا جو کئی شہروں تک پھیل گیا ہے۔ عراق کی قومی سلامتی کونسل نے احتجاج کی حالیہ لہر سے نمٹنے کے لیے متاثرہ شہروں میں اضافی سکیورٹی دستوں کی تعیناتی اور وہاں انٹرنیٹ سروس بند کرنے کا حکم دیا ہے۔

عراق میں بے روزگاری کی بلند شرح، حکومت کی جانب سے سہولتوں کی عدم فراہمی اور بدعنوانی کے خلاف مظاہروں کا حالیہ سلسلہ بصرہ سے شروع ہوا تھا جو بغداد، نجف، عمارہ اور نصیریہ سمیت کئی شہروں تک پھیل گیا ہے. مظاہرین کی جانب سے سرکاری املاک پر حملے اور پرتشدد کارروائیوں کے بعد ہفتے کو وزیرِ اعظم حیدرالعبادی نے سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا تھا جس میں ملک میں امن و امان کی صورتِ حال کا جائزہ لیا گیا۔

اجلاس کے بعد جاری ہونے والے ایک بیان میں وزیرِ اعظم العبادی نے کہا ہے کہ شرپسند پرامن مظاہروں کی آڑ میں سرکاری اور نجی املاک پر حملے کر رہے ہیں جن کےخلاف سرکاری فورسز تمام ضروری اقدامات کریں گی۔

ہفتے کو عمارہ میں ہونے والے مظاہروں کے دوران دو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ حکام کے مطابق مظاہرین نے سڑکیں بند کرکے ٹائروں کا آگ لگائی جب کہ بعض مشتعل افراد نے اندھا دھند فائرنگ بھی کی۔

اس سے قبل میسان نامی شہر میں سرکاری عمارتوں کو نذرِ آتش کرنے کی کوشش کرنے والے مظاہرین پر سکیورٹی اہلکاروں کی فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہوگیا تھا۔

نجف میں سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کے باعث شہر میں سکیورٹی فورسز کے اضافی دستے تعینات کردیے گئے ہیں۔

بغداد، نجف اور بصرہ میں انٹرنیٹ سروس بھی معطل کردی گئی ہے تاکہ مظاہروں اور ان کے نتیجے میں جنم لینے والی افواہوں کو روکا جاسکے۔

مظاہروں کا سلسلہ رواں ہفتے بصرہ سے شروع ہوا تھا جو عراق میں سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا علاقہ ہے۔

بصرہ کو عراقی کی پارلیمان نے اپریل 2017ء میں ملک کا معاشی مرکز قرار دیا تھا۔ لیکن کئی آئل ریفائنریوں کی موجودگی کے باوجود علاقے میں بہت غربت ہے اور شہر میں بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔

شدید گرم موسم میں پانی اور بجلی کی عدم فراہمی اور غربت سے تنگ آئے شہریوں نے رواں ہفتے علاقے میں روسی کمپنی کے زیرِ انتظام ایک آئل فیلڈ کاگھیراؤ کرلیا تھا جس کے بعد ان کا پولیس سے تصادم ہوا تھا۔

بصرہ میں ہونے والے اس مظاہرے اور تصادم کی اطلاع ذرائع ابلاغ پر آنے کے بعد دیگر کئی شہروں میں بھی مظاہرے شروع ہوگئے تھےجو تاحال جاری ہیں۔

عراق کے ایک بااثر شیعہ رہنما آیت اللہ علی سیستانی نے بھی جمعے کو ٹی وی پر براہِ راست نشر کیے جانے والے اپنے ایک خطبے میں مظاہرین کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔

اپنے خطبے میں آیت اللہ سیستانی نے کہا تھا کہ عراق کو سب سے زیادہ کما کر دینے والے علاقے کے رہائشیوں کو سہولتوں سے محروم رکھنا ان کے ساتھ زیادتی ہے۔

مظاہروں میں شدت آنے کے بعد برسلز میں نیٹو سربراہی اجلاس میں شریک عراق کے وزیرِ اعظم العبادی اپنا دورہ مکمل کرکے سیدھے بصرہ پہنچے تھے جہاں انہوں نے بصرہ آئل کمپنی کی انتظامیہ سےکہا تھا کہ وہ مقامی لوگوں کو زیادہ ملازمتیں دے۔

العبادی اس وقت عبوری وزیرِ اعظم کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ عراق میں رواں سال مئی میں ہونے والے انتخابات پر اعتراضات اور دھاندلی کے الزامات کے باعث تاحال نئی حکومت تشکیل نہیں دی جاسکی ہے اور انتخابی حکام تمام ووٹوں کی دوبارہ گنتی میں مصروف ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں