بہت کم مُفکّرِ قُرآن ایسے نظر آئیں گے جو اپنے پیچھے کوئی فِرقہ چھوڑ کر نہیں گئے.
حالیہ صدیوں میں شاہ ولیُ اللہ اور مودُودی صاحب نے یہ عظیم مثال قائم کی.
مودُودی صاحب کی انفرادیت تو یہ بھی ہے کہ قُرآن کی تعلیم کسی باقائدہ ادارے یا اُستاد سے حاصل نہیں کی اور عام فہم تفہیمُ القُرآن لکھ کر نہ صرف عام آدمی کے لیے قُرآن کا فہم آسان کیا بلکہ پہلی بار قُرآن کو اسلامی کلیسا کے ہاتھ سے چھین کر اُن دُنیاوی تعلیم یافتہ افراد کے ہاتھ میں دے دیا جن سے اُنکا دُور دُور تک کا تعلُق بھی نہیں تھا.
میں ذاتی طور پر چار بڑے سکالز سے مُتاثّر ہُوں جن میں مصری سکالر ڈاکٹر طارق رمضان، انڈین سکالر سیّد عبدُاللہ طارق، ہاورڈ سکالر لیلیٰ بختیار اور کینیڈین سکالر اِدریسہ پنڈت شامل ہیں ان سب کا دُور دُور تک مودُودی صاحب سے کوئی تعلُق نہیں لیکن ان سب میں ایک قدرِ مُشترک یہ ہے کہ یہ سب قُرآن کی طرف مودُودی صاحب کی کوئی نہ کوئی تصنیف پڑھ کر آئے.
ان سب کی الگ الگ فکر ہے لیلیٰ بختیار نے قُرآن کا موجُودہ ٹرمینالوجیز کا استعمال کر کے تاریخ کا پہلا بامُحاورہ انگلش ترجُمہ دی سب لائم قُرآن لکھا جس پر جامعةُ الاظہر نے اپنی مُہر لگائی یہ ترجُمہ چونکہ بامُحاورہ ہے اس لیے نو مُسلم گوروں اور مُحقِقین کے لیے آسانی پیدا کرتا ہے.
ڈاکٹر طارق رمضان یہُودی بیک گراوٴنڈ رکھتے ہیں لیکن اسلام نے ان کے گھر کا راستہ مودُدودی صاحب کی تصانیف کے ذریعے دیکھا. ڈاکٹر صاحب آکسفورڈ میں پڑھاتے تھے اب امیرکہ آگئے ہیں. امریکہ ان پر پابندی لگانا چاہتا تھا لیکن انکے امریکی سٹوڈنٹس نے تحریک چلا کر انکا ویزا بحال کروایا. انھوں نے سیرت مُحمدؐ پر ایک کتاب ” اِن دا فُٹ سٹیپس آف پرافِٹ لکھی جو سیرت پر لکھی گئی لاکھوں کتابوں کی امام کہی جاسکتی ہے.
اِدریسہ پنڈت کا بیک گراوٴنڈ ہندو ہے اسلام نے ان کا در بھی مولانا مودُودی کی فکر کے ذریعے دیکھا ان کی خاصیّت انٹر فیتھ ڈائلاگ ہےہاورڈ اور دیگر امریکن یُونیورسٹیز میں پڑھانے کے بعد یہ کینیڈا آگئیں اور اب یہاں ایک یُونیورسٹی میں ادیان عالم کے ڈیپارٹمنٹ کی ہیڈ ہیں اور اتنی مُوٴثر ہیں کہ انکا کیے ہُوئے کام کی جھلک کینیڈین حکُومتی پالیسی میں نظر آتی ہے.
سید عبدُاللہ طارق تیس سال تک انڈین دہریوں کے سربراہ رہے. جب مُسلمان ہُوئے تو ایسے مُسلمان بنے کہ ڈاکٹر اسرار جیسے عالم نے بھی اُنہیں اُمّت پر اللہ کی رحمت قرار دیا. یہ بھی مودودی صاحب سے قطعی مُختلف ہونے کے باوجُود مودُودی فکر کا ہی پودا ہیں.
میری اُوپر بیان کیے گئے چاروں افراد سے کمیونیکیشن جاری رہتی ہےاور مجھےان لوگوں سے بات کرکے ہمیشہ یقین ہو جاتا ہے کہ اسلام جلد ہی دُنیا کو نئی لیڈرشپ دے گا.
میں مولانا مودُودی کے فلسفے سے زیادہ مُتفق نہیں ہوں لیکن میرے دل سے مودودی کے لیے دُعا نکلتی ہے کہ اُن کے تحقیقی کام میں اتنی ڈائورسٹی اور وضاحت تھی کہ دُنیا بھر میں اُس کام نے خُود مودودی صاحب سے بالکل مُختلف ایسے لوگ پیدا کیے جو اسلام کی الگ الگ جہتوں سے دُنیا کو مُتعارف کروا رہے ہیں اورمودُودی صاحب کے نام پر کوئی فرقہ بھی نہیں بناتے.
کُچھ سال پہلے مُجھے اُزبکستان، تُرکمانستان اور قازقستان کی چھے یُونیورسٹیز کا وزٹ کرنا پڑا. وہاں میری حیرت کی دوبڑی وجُوہات تھیں ایک یہ کہ ان تینوں مُلکوں کے یُونیورسڑیز کے نوجوان حقیقی اسلام سے مُتعلق بہت پُرجوش تھے اور دوسری حیرت اس بات پر ہُوئی کہ ان ملکوں کی یُونیورسٹیز کے بیشتر اساتذہ مودُودی کے تحقیقی کام پر بِلڈ کرتے ہیں.
میرے خیال سےمودودی صاحب کا کمال بس اتنا ہے کہ اُنہوں نے قُرآن کی ایسی غیرفرقہ ورانہ تشریح کی تھی جس سے تعلیم یافتہ افراد کا مُتاثر ہونا ضروری تھا اور چُونکہ اپنے ابتدائی طالب علموں کو باندھنے کی کوشش کی بجائے صرف فُوڈ فار تھاٹ دیا لہٰذا اُنکے طالب علموں نے اُنکے کام کو الگ الگ سمتوں میں جاری رکھا.
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}