255

ترقی یافتہ قوموں کی مثال!

برلن کو یورپ کا سب سے سرسبز و شاداب شہر کہا جاتا ہے۔اور کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے۔اگر ہوائی جہاز میں بیٹھ کر فضا سے برلن کے نظارے کئے جائیں تو سوائے ہریالی کے یہاں کچھ نظر نہیں آتا ۔

یہاں درختوں کی حفاظت کے لیے ہر ایک درخت پر خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا نمبر لگے ہوتے ہیں۔اگر کسی درخت کو کوئی مسئلہ ہو جائے تو حتی الامکان کوشش کی جاتی ہے اسے حل کرنے کی ۔لیکن اسے کاٹنا ہی آخری حل ہو تب اسکو کاٹ کر اسکی جگہ نیا درخت لگا دیا جاتا ہے۔

کہیں کوئی بھی نئی بلڈنگ بنے تو سڑک کے اطراف میں ہرے بھرے درخت فورا ہی لگا دئیے جاتے ہیں۔اور اگر وہاں کوئی درخت پہلے سے موجود ہو تو اسے کاٹنے کی ہر گز اجازت نہیں بلکہ اس کے گرد حصار لگا کر مطلوبہ تعمیر کی جاتی ہے۔

یہاں شاید ہی کوئی ایسی گلی ہو جس میں خوبصورت ہرے بھرے درخت قطار در قطار نہ لگے ہوں۔یہ ایک دوسرے سے گلے ملتے ہاتھ ملاتے درخت نہ صرف یہاں کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ یہاں کی آب و ہوا اور فضا کو بھی صاف ستھرا معطر رکھتے ہیں۔

درختوں کی ہریالی کو دیکھ کر دل و دماغ ترو تازہ ہو جاتا ہے۔اور صبح صبح اٹھ کرخاص کر گرمی کے موسم میں جب درجہ حرارت 25 سے 30 پر پہنچا ہو اور ساتھ سورج بھی اپنی آب و تاب سے چمک رہا ہو انسان میں کام کرنے کے لئے ایک عجیب سی توانائی بھر جاتی ہے۔ (یہاں دفاتر , اسکولوں اور گھروں میں پنکھے کا رواج نہیں ۔)

ان کی قدرو قیمت اتنی ہے کہ ان کو بلا وجہ کاٹنا نہ صرف جرم کے زمرے میں آتا ہے بلکہ اگر کہیں کسی حادثہ میں درختوں کو نقصان پہنچا ہو تو ذمہ دار کو جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔

ہماری گارڈن کالونی کوئی سو سال پرانی ہےاور ہزاروں کی تعداد میں اس میں پرائیویٹ گارڈن ہیں۔اس کالونی میں دو ہی پرانے اور اونچے آخروٹ کے درخت ہیں جن میں سے ایک خوش قسمتی سے ہمارے پاس ہے۔لیکن ہمیں اس کو اپنی مرضی سے کاٹنے کی ہرگز اجازت نہیں ۔

جو اقوام درختوں کی اہمیت اور قدرو قمیت کو جانتی ہیں, سمجھتی ہیں اور اس بات کا احساس رکھتی ہیں کہ ان کی زندگی میں ماحولیاتی آلودگی کو روکنے یا قابو پانے کا واحد ذریعہ ان درختوں کی حفاظت اور افزائش ہے۔

p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں