240

نا اہل ؟

لاہور کی بزمِ ماتم میں وہی قصابوں کی بارات جیسا شور ہے کہ میاں نواز شریف کو تاحیات نا اہل کر دیا گیا ہے ۔ سوال مگر یہ ہے کہ وہ اہل ہی کب تھے؟ جو طرزِ حکومت انہوں نے متعارف کرایا وہ تو شعورِ انسانی کی توہین تھا ۔ محمد شاہ رنگیلا زندہ ہو جائے تو سر پیٹ لے کہ حکمرانی کے نام پر ایسا حیرت کدہ بھی آباد کیا جا سکتا ہے۔ یہ تو نسیم حجازی کا ’’ سفید جزیرہ‘‘ تھا دیکھتی آنکھوں سے ہم نے جس کا مشاہدہ کیا۔ 
کوئی رہنماجب اقتدار میں آتاہے تو جیسا تیسا بھی ہو اس کے پاس ایک فلسفہ حیات ہوتا ہے ۔ اس کے زیر اثر وہ منصوبہ سازی کرتاہے۔ تعلیم سے لے کر معیشت تک اور داخلی ڈھانچے سے لے کر امور خارجہ تک اس کے پاس ایک فکر ہوتی ہے جو معاملات کی صورت گری کرتی ہے۔ میاں صاحب تین دفعہ اقتدار میں رہے ، پنجاب تو ایک طویل عرصے سے ان کے بھائی کے پاس ہے، دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے ان کا فلسفہ حیات کیا تھا ؟ تعلیم ، صحت ، معیشت، داخلی اور خارجی امور میں وہ کون سی فکر تھی جس کی روشنی میں انہوں نے حکومت کی؟ آپ ہی بتائیے کیا ایک کریانہ سٹور قسم کے سیاسی رجحان پر کسی فکر یا فلسفے کی تہمت دھری جا سکتی ہے؟ 
میاں صاحب کی قیادت میں ان کی جماعت نے اس سارے عرصے میں کیا کیا؟ کسی ایک شعبے میں بتا دیجیے انہوں نے کوئی ڈھنگ کا کام کیا ہو۔ مکمل فکری افلاس کے سوا ان کے دامن میں کیا ہے؟ ہر ادارہ برباد کر دیا ، سماج کی جڑوں میں کرپشن انڈیل دی، ذاتی وفاداروں کے لشکر پال لیے، ہر ادارے کو ذاتی وفاداروں سے بھر دیا، سطحی شعبدہ بازی اور الیکشن جیتنے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے کا بے دریغ استعمال ۔ ان کی جملہ بصیرت کا خلاصہ یہ ہے کہ کیسے الیکشن جیتنا ہے اور جیت کراس میں سے اپنے لیے مالی امکانات کا طلسم کدہ کیسے برآمد کرنا ہے اور پھر اگلے الیکشن میں کیسے جیتنا ہے ۔ اس مشق میں پورے معاشرے کو برباد کر کے رکھ دیا گیا ۔ 
تعلیم اور صحت کا ڈھانچہ برباد ہو چکا ۔ ہمارے کل 24 ملین بچے سکول نہیں جاتے اور ایک ملین میں دس لاکھ ہوتے ہیں ۔ صرف 30 فیصد بچے ایسے ہیں جو پہلی جماعت میں داخلہ لیتے ہیں اور دسویں تک پڑھتے رہتے ہیں ، 70 فیصد طلباء ایسے ہیں جو پہلی کلاس سے دسویں تک کے درمیان سکول چھوڑ جاتے ہیں ۔لیکن ان کے پاس کوئی تعلیمی پالیسی نہیں ۔ ان کی ترک تازی صرف یہ ہے کہ دانش سکول بنا دیے گئے ہیں۔ پرانے سکولوں کا نظام بہتر کرنے میں شہرت نہیں ملتی اور ان کے طرز حکومت کو صرف شہرت چاہیے ۔ سستے تنور بنا دیے تو کبھی دانش سکول بنا دیے۔ پائیدار کام ایک نہیں کرنا ۔ نیم خواندہ معاشرے میں کارروائی ڈالنا اصل مقصد ہے۔ چنانچہ گیارہ ارب کے یہ اشتہارات جاری کر دیتے ہیں ۔ پبلک ٹوائلٹس تک کے باہر ان کی تصاویر والے بینر آویزاں ہیں۔ 
شیر خوار بچوں کی شرح اموات میں ہمارا پہلا نمبر ہے۔ افغانستان اور ایتھوپیا کی حالت بھی ہم سے بہتر ہے۔ جاپان میں ہر ایک ہزار ایک سو گیارہ بچوں میں سے ایک بچے کو موت کا خطرہ ہوتا ہے جب کہ ہمارے ہاں ہر 22 میں سے ایک بچہ مر رہا ہے۔ صرف نمونیا سے ہر سال 92 ہزار بچے مر جاتے ہیں۔کلثوم نواز صاحبہ تو اللہ کا شکر ہے بیرون ملک سے بہترین علاج کروا لیتی ہیں لیکن ہر سال ہمارے ہاں 14ہزار خواتین دوران زچگی مر جاتی ہیں ۔ یعنی ہر آدھے گھنٹے میں ایک موت ۔ ملک میں ایک ہزار دو سو ستر لوگوں کے لیے ایک ڈاکٹر ہے۔ تین دفعہ صاحب وزیر اعظم رہے ، تعلیم اور صحت میں کیا پالیسی دی؟ 
فارن پالیسی کا یہ حال ہے کہ ایک طویل عرصہ ملک کسی وزیر خارجہ کے بغیر چلتا رہا اور جب بنایا تو خواجہ ااصف کو۔ امریکہ میں سفیر لگایا تو ایک کاروباری دوست کو۔ خود صاحب کے اپنے ویژن اور مطالعے کا یہ عالم تھا کہ چٹیں جیب سے نکال کر پڑھ کر آپ امریکی صدر سے گفتگو فرماتے تھے۔ 
بصیرت کی انتہا یہ تھی کہ بین الاقوامی میڈیا تو رہا ایک طرف، ملکی میڈیا سے بھی کبھی ڈھنگ سے ہمکلام نہ ہو سکے۔ جب بھی بات کی، صرف شرافت کی صحافت سے کی۔ 
ہمارے ہاں چونکہ یہ رسم نہیں رہی کہ اقتدار کے خاتمے پر کوئی سوال و جواب ہو کہ آپ کیا وعدے کر کے آئے تھے اور کیا کر کے جا رہے ہیں اس لیے یہاں نیم خواندہ سماج میں واردات ڈالنا بہت آسان ہے ورنہ ان سے پوچھا تو جانا چاہیے کہ آپ نے 2013 کے انتخابی منشور میں قرض کا بوجھ کم کرنے کا وعدہ کیا تھا تو آپ نے 35 ارب ڈالر کے نئے قرضے کیوں لے لیے؟ ایک طرف یہ ایمنسٹی سکیم لا رہے ہیں کہ معاشی حالت خراب ہے دوسری طرف صنعتکاروں کو 140 ارب کی سبسڈی دی گئی ہے اور 340 ارب کے قرضے معاف کر دیے گئے ہیں۔ 
میٹرو کا عذاب اس سے الگ ہے ۔ اس بس کے لیے اسلام آباد شہر کا ماسٹر پلان بدل دیا گیا اور پی سی ون اس طرح پاس کرایا گیا کہ عجلت سے بلائی گئی میٹنگ میں نہ وزارت خزانہ کا کوئی نمائندہ تھا نہ پلاننگ کمیشن اور کیبینٹ ڈویژن کا۔ ملک معاشی چیلنجز سے دوچار ہے اور انہوں نے 54 ارب روپے میٹرو میں لگا دیے ۔ نہ صرف یہ بلکہ ہر بس فی پھیرہ سات ہزار نقصان میں جا رہی ہے ۔ 2 بلین سالانہ سبسڈی دینا پڑ رہی ہے ۔ ایک طرف معاشی ویژن یہ ہے کہ ہم پی آئی اے وغیرہ کو مزید سبسڈی نہیں دے سکتے دوسری طرف میٹرو کو 2 بلین سالانہ کی سبسڈی ۔ جب کہ پی آئی اے پوری قوم کو سروس دے رہی ہے اور میٹرو دو شہروں کی محدود ترین آبادی کو۔ 
اس سے تو واران بہتر تھی۔ جب وہ آئی تو ہم جیسوں نے مرحوم جنرل حمید گل جیسے نجیب آدمی سے شکوے کیے حالانکہ مالی طور پر یا انتظامی طور پر ان کا واران سے ہر گز کوئی تعلق نہ تھا ۔ ایک روپے کا فائدہ انہوں نے اس سے نہیں اٹھایا تھا مگر سوالات ان سے بہت ہوئے کیونکہ یہ ان کی بیٹی اور ہماری بہن عظمی گل کی سروس تھی ۔ جنرل حمید گل پرانے زمانوں کی شرافت کا نشانی تھے ، وہ ان شکووں پر بد مزہ نہ ہوئے۔ اب سوچ رہا ہوں اگر مقصد عوام کو بہتر سروس ہی دینا تھی تو کیا واران کے ساتھ حکومت کوئی معاملہ نہیں کر سکتی تھی؟ میٹرو کی طرح واران نے کوئی الگ سے ٹریک نہیں لیا تھا جس پر 54 ارب کی لاگت آتی۔ میٹرو کی طرح واران کروڑ وں کی ماہانہ سبسڈی بھی نہیں لیتی تھی ۔ میٹرو اسی لاکھ روزانہ کی سبسڈی سے اسی ہزار مسافروں کو ہر روز سہولت دیتی ہے جب کہ واران ایک روپے کی سبسڈی لیے بغیر ستاسی ہزار مسافروں کو روز لے جاتی اور لے آتی تھی ۔ میٹرو سے کہیں زیادہ اس کی افادیت تھی۔ میٹرو نہ ہائی کورٹ کے پاس سے گزرتی ہے نہ ڈسٹرکٹ کورٹس کے پاس سے، نہ اس کے راستے میں آبپارہ آتا ہے نہ میلوڈی ، نہ یہ جناح سپر جاتی ہے نہ آبپارہ ، جبکہ واران تو عوامی جگہوں سے گزرتی تھی اور اس کی افادیت زیادہ تھی۔ میٹرو کا یہ سفید ہاتھی معلوم نہیں کب تک پالنا پڑے گا؟ ظلم یہ ہے کہ اسے یہ اپنی معاشی کامیابی قرار دیتے ہیں۔ 
ایک طویل دور حکومت ۔۔۔۔ لیکن کیا ڈھنگ کا کوئی ایک منصوبہ ؟ کوئی ویژن ؟ کوئی حکمت عملی ؟ نا اہلی اور کسے
کہتے ہیں؟

p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں