ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر لوگوں نے احتیاط سے کام نہ لیا تو جنسی تعلقات کے ذریعے منتقل ہونے والی ایک غیر معروف بیماری ایک بڑا مرض بن سکتی ہے۔
’سُپر بگ‘ یا متعدی مرض ایک ایسا انفیکشن ہوتا ہے جس پر اینٹی بائیوٹِکس کا اثر یا تو ہوتا ہی نہیں یا پھر بالکل کم ہوتا ہے۔
مائیکو پلازما جینیٹیلیم (ایم جی) نامی اس بیماری کی عموماً کوئی بھی علامات نہیں ہوتیں تاہم یہ ’پیلوِک‘ یا نافچہ کی سوزش کی وجہ بن سکتی ہے جو کہ کچھ خواتین کو بانجھ کر دیتی ہے۔
اگر ایم جی کا درست علاج نہ کیا جائے تو پھر اینٹی بائیوٹِکس بھی اس پر اثر نہیں کرتیں۔
برطانیہ کی ایسوسی ایشن برائے جنسی صحت اور ایچ آئی وی نے اس بارے میں نئی تجاویز متعارف کروائی ہیں۔ ان تجاویز کے ابتدائی مسودے میں بتایا گیا ہے کہ ایم جی کو کیسے پہنچانا جائے اور اس کا علاج کیسے کیا جائے۔
مائیکو پلازما جینیٹیلیم (ایم جی) ہے کیا؟
مائیکو پلازما جینیٹیلیم (ایم جی) ایک ایسا بیکٹیریا ہے جو کہ مردوں میں پیشاب کی نالی کی سوزش کی وجہ بنتا ہے جس سے مریض کو پیشاب کرتے وقت درد محسوس ہوتا ہے۔
خواتین میں یہ تولیدی اعضا (رحمِ مادر اور فلوپیئن ٹیوبز یا بیض نالی) کی سوزش کی وجہ بن سکتی ہے جس میں درد، ممکنہ طور پر بخار، اور خون نکل سکتا ہے۔
یہ بیماری آپ کو مریض کے ساتھ غیر محفوظ انداز میں جنسی تعلقات قائم کرنے کی صورت میں ہو سکتی ہے۔ کونڈمز اس بیماری کو روک سکتے ہیں۔
ایم جی پہلی مرتبہ برطانیہ میں 1980 کی دہائی میں منظر عام پر آئی تھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے عام آبادی کا ایک سے دو فیصد حصہ متاثر ہوتا ہے۔
ایم جی کی علامتیں نہ ہونے کی وجہ سے اس کو نظر انداز کرنے کا امکان بہت زیادہ ہو سکتا ہے یا پھر اسے اکثر ایک دوسری جنسی بیماری کلیمیڈیا سمجھ لیا جاتا ہے۔
انگیلنڈ میں ایم جی کے لیے ٹیسٹ حال ہی میں تیار کیے گئے ہیں تاہم یہ سہولت زیادہ تر کلینکس میں موجود نہیں۔ ڈاکٹرز تشخیص کے لیے نمونے پبلک ہیلتھ انگلینڈ کی لیبارٹری میں بھجوا سکتے ہیں۔
ابھی تک تو ایم جی کا علاج اینٹی بائیوٹِکس کے ذریعے کیا جا رہا ہے تاہم یہ مرض ان ادویات کے خلاف مدافعت پیدا کر چکا ہے۔مائیکرو لائڈز نامی اینٹی بائیوٹِکس کی ایک قسم کے ذریعے اس مرض کے خاتمے کے شرح عالمی سطح پر کم ہوتی جا رہی ہے۔ برطانیہ میں مائیکرو لائڈز سے اس مرض سے بچاؤ کی شرح چالیس فیصد بتائی گئی ہے۔
ابھی تک اینٹی بائیوٹِکس کی ایک اور قسم ازیتھرمائیسین اس مرض کے خلاف کارآمد ہے۔
’قابو سے باہر‘
اس بیماری کے بارے میں حکومتی تجاویز کے ایک مصنف پیڈی ہورنر کا کہنا ہے کہ ’یہ نئی تجاویز اس لیے تیار کی گئی ہیں کیونکہ ہم نے جو پچھلے پندرہ سال میں کیا ہے اب وہ جاری نہیں رہ سکتا کیونکہ یہ ایک صحت عامہ کی ایمرجنسی بننے والی بیماری ہے۔‘
’ہماری تجاویز یہ کہتی ہیں کہ جن مریضوں میں علامات نظر آنے لگتی ہیں ان میں ایک درست ایم جی ٹیسٹ کے ذریعے تشخیص کی جائے اور پھر ٹھیک طرح اس کے علاج کو یقینی بنایا جائے۔
’اس بات کو یقینی بنانے کے لیے خواتین کے پاس تشخیص کرنے اور مائیکروبیئل ٹیسٹ کی سہولت اور وسائل قوری طور پر درکار ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ہم حکومت کو کہہ رہے ہیں کہ صحت عامہ کی اس ہنگامی صورتحال سے بچنے کے لیے فوری طور پر رقم مختص کی جائے کیونکہ یہ پہلے ہی قابو سے باہر ہو رہی ہے۔