337

بادشاہ بادشاہ کا یار ہوتا ہے۔

سویڈن کی خاتون وزیر خارجہ مار گوٹ والسٹورم نے 2015 کے شروع میں سعودی عرب میں خواتین پر بے جاء پابندیوں، انہیں ڈرائیونگ کی اجازت نہ دینے اور ہر کام میں مرد کی اجازت طلب کرنے کی مذمت کر دی جس سے سعودی عرب کے بادشاہ سلامت ناراض ہوگئے۔

اسی دوران والسٹروم نے مصر میں جاری عرب لیگ کے اجلاس سے خطاب کرنا تھا مگر سعودی عرب نے اپنی طاقت استعمال کرتے ہوئے اس خطاب پر پابندی لگوا دی اور احتجاج کے طور پر سویڈن سے اپنا سفیر واپس بلوا لیا۔ نتیجتاً سویڈن کو بھی اپنا سفیر واپس بلوانا پڑا۔ بات یہاں تک رہتی تو شاید کچھ برداشت ہو جاتا مگر صورتحال اس وقت زیادہ خراب ہوئی جب سعودی عرب کے بگل بچے یو اے ای نے بھی اپنا سفیر واپس بلوا لیا۔

سویڈن نے سعودی عرب کیساتھ سالانہ پانچ عرب ڈالر اسلحہ خریدنے کی ڈیل کینسل کر دی۔ سعودی عرب نے نہ صرف ہر قسم کے تعلقات سویڈن سے ختم کیے بلکہ سویڈش کاروباری ویزوں پر بھی پابندی لگا دی جس سے اُن سینکڑوں سویڈش شہریوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی جو سعودی عرب میں ملین بلین ڈالرز کے کاروبار کررہے تھے۔

اتفاق سے راقم خود بھی انہی دنوں کاروباری وزٹ ویزے پر سعودی عرب میں موجود تھا۔ مگرمچھوں کی اس لڑائی میں کچھ دیر کیلئے دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا مگر پھر یہ سوچ کر دل کو تسلی دے دی کہ مجھ جیسے شخص کو جو نہ تین میں ہے نہ تیرہ میں ایسے واقعات سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔

دونوں طرف معاملات کافی حد تک بگڑ گئے تھے اور سویڈن کی سیاسی حکومت کسی صورت بھی اپنی کہی ہوئی بات پر معذرت کرنے کو تیار نہیں تھی۔ ایسی صورت میں گورے دماغوں میں اپنے ڈمی بادشاہ کو استعمال کرنے کا خیال آیا۔

سویڈن میں حکومت سیاسی ہے لیکن بادشاہ اپنے پورے خاندان کے ساتھ موجود ہے اور اسکا کام اتنا ہی ہے جتنا پاکستان میں صدر کا ہوتا ہے۔ سویڈش بادشاہ نے فوراً اپنے پیغام سمیت ایک مختصر وفد سعودی عرب کے بادشاہ سلامت کے پاس بھیجا، جس میں سویڈش بادشاہ نے لکھا کہ

“بادشاہ سلامت جاندی کرو، ایہہ سیاسی حکومت دے بیاناں نوں اینا سیریس نہ لیا کرو۔ اسی دوویں بادشاہ آں تے اسی صلح کر لینے آں۔ مٹی پاؤ لڑائی چگڑے تے”

بادشاہ ڈپلومیسی کام کر گئی اور دونوں طرف سفیر حضرات واپس اپنی اپنی جگہوں پر آگئے ویزے بحال ہوگئے اسلحے کی ڈیل دوبارہ کارآمد ہوگئی اور ہم جیسوں نے بھی سکون کا سانس لیکر سویڈن واپسی کی راہ لے لی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں