Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
297

مرد و زن کے تعلقات عامہ۔

خواتین پر ایسے تو بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور جتنا کچھ بھی لکھا جا چکا ہے وہ تا حال اس صنف کے اوصاف کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ عورتوں میں اس قدر اوصاف موجود ہوتے ہیں جو کسی بھی مرد کو گھمانے کے لئے کافی سمجھے جاتے ہیں۔ ہر مرد کے لئے عورت یا تو اچھی ہوتی ہے یا پھر بہت اچھی مگر بری کبھی نہیں ہوتی (بشرطیکہ وہ بیوی نہ ہو) کیونکہ وہ مرد نہیں ہوتی۔ عورتوں کی کئی اقسام ہوتی ہیں۔ اچھی، کافی اچھی، بہت اچھی اور سب سے اچھی۔ بری صرف وہ عورت ہوتی ہے جو مرد کو گھانس نہ ڈالے۔ یہ درجات بھی مرد کی طرف سے عطا کئے جاتے ہیں اور گھانس کے وزن کے ساتھ ساتھ درجہ بڑھتا جاتا ہے۔

کہا یہ جاتا ہے کہ عورت ہی عورت کی دشمن ہوتی ہے کیونکہ مرد کے لئے تو ہمیشہ وہ دوست ہوتی ہے۔ یہ بات سچ نہیں لگتی کیونکہ عورت کو جب بھی لگتا ہے مرد ہی برا لگتا ہے اور دشمن بھی۔ عورتوں کا دل تو چاہتا ہے کہ دنیا میں صرف عورتیں ہی عورتیں ہوں تاکہ انہیں تاڑنے والا، چھیڑنے والا، تنگ کرنے والا کوئی نہ ہو۔ لیکن پھر او منا، اور او منے کا ابا جیسے جملے سننے کے لئے دنیا میں کون ہوگا؟ یہ سوال سوچ کربے چاری عورتیں اس حسرت نا تمام کا گلا گھونٹ کر صبر کے گھونٹ پی کے رہ جاتی ہیں۔

عورت سب سے پہلے عورت ہوتی ہے بعد میں کچھ اور۔ اس لئے مردوں سے اس کی نہیں بنتی۔ مگر شاباش ہے مردوں کے اس آہنی حوصلے پر کہ ان کی جب بھی بنتی ہے عورتوں سے ہی بنتی ہے بیوی سے بھی بن جاتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ اپنی نہ ہو۔ عورتیں جو سب سے بڑا الزام مردوں پہ لگاتی ہیں وہ یہ ہے کہ مرد دوغلے ہوتے ہیں۔ محبت کسی سے کرتے ہیں شادی کسے سے اور رابطہ کسی سے۔ ان کے اس الزام کی مناسبت سے تو مرد دو غلے نہیں تین غلے ہوئے مگر چونکہ ابھی یہ لفظ اردو میں مستعمل نہیں ہوا اس لئے دوغلے سے ہی کام چلانا پڑے گا۔ یہ الزام مردوں کی طرف سے بھی عورتوں پر لگایا جاتا ہے کہ عورتیں دوغلی ہوتی ہیں۔ ایک تو بن ٹھن کے گھومتی ہیں پھر یہ بھی چاہتی ہیں کہ کوئی ان کی طرف نظر اٹھا کے بھی نہ دیکھے۔ اب یا تو عورتیں سجنا سنورنا چھوڑدیں یا پھر ایسے مقامات پر جانے سے پرہیز کریں جہاں مرد کی موجودگی کا ایک فیصد بھی امکان ہو۔ کیونکہ ایک مرد کی موجودگی بھی ان کو دیکھنے کے امکان میں دو صفر کا اضافہ کرسکتی ہے۔

کہا یہ جاتا ہے کہ وجود زن سے ہے کائنات میں رنگ۔ تو کیا وجود مرد سے ہے کائنات میں زنگ؟ یہ بھی ایک سوال ہے جس کا جواب ابھی تک کسی نے تلاش نہیں کیا کیونکہ سوال ہی ابھی اٹھایا گیا ہے تو جواب تلاش کرنے میں وقت درکار ہوگا۔ ویسے بھی اس کائنات کے تمام سوالات کے جوابات مردوں نے تلاش کئے ہیں لیکن اس سوال کے جواب کے لئے مردوں کے پاس وقت کہاں کیونکہ عورتوں سے وقت ملے تو کچھ اپنے بارے میں بھی سوچیں۔

مردوں پر ایک الزام اور بھی ہے کہ مرد ایک وقت میں کئی عورتوں کو دل میں جگہ دیتے ہیں۔ اس کا جواب مردوں کی طرف سے یہ دیا جات ہے کہ مرد عمر میں، قد میں، درجہ میں بڑا ہوتا ہے اس لئے اس کا دل بھی بہت بڑا ہوتا ہے جس میں ایک ساتھ کئی عورتیں رہائش پذیر ہوسکتی ہیں۔ یہ مردوں کے بڑے پن کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

بہرحال الزامات ایک طرف، وجوہات ایک طرف۔ مردوں اور عورتوں کی یہ لڑائی ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی یہ لڑائی سمجھنے کے لئے ملک میں جاری سول، ملٹری تعلقات پر نظر رکھی جائے تو یہ لڑائی بھی سمجھ میں آسکتی ہے اور اس کی وجوہات بھی۔ آپ کی طرح میں بھی اب خبروں سے با خبر رہنے کی پوری کوشش کروں گا۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

تعارف: سید علی اکبر عابدی، حیدرآباد پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں اور سندھ بورڈ آف ریونیو میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ 

اپنا تبصرہ بھیجیں