یونیورسٹی لائف میں کلاس میں سب سے معصوم بچے ہم ہی ہوتے تھے۔ اس لئے لڑکیوں کے بیچ کافی بےضرر سمجھے جاتے تھے. ایک لڑکی تھی شاید تنزیلہ نام تھا۔
مجھے بہت اچھی لگتی تھی۔ حسب معمول وہ بھی مجھے بچہ سمجھنے پر بضد تھی۔ اور میری ہر مردانہ حرکت کو وہ بچکانہ تصور کرتی تھی۔
وہ میرے دوست راحیل کو پسند کرتی تھی. خیر ہم پھر بھی خوش کہ چلو کم از کم اس بہانے اسکی قربت تو میسر ھے، کے مصداق بڑے چاؤ کیساتھ ان دونوں کے بیچ گھومتے تھے.
ایک دفعہ دونوں نے ہمت پکڑ لی اور ڈیٹ مارنے کا فیصلہ کیا اور میں بھی جانے پر بضد ہو تاکہ چس تو آئے۔
انکے ساتھ اس زمانے میں مشہور آرمی اسٹیڈیم پارک چلا گیا۔ دونوں راز ونیاز میں مصروف اور میں تنزیلہ کا پرس لیکر انکے پیچھے پیچھے۔
اچانک پولیس والوں نے ان دونوں کو رک لیا. کہ نکاح نامہ دیکھاؤ راحیل تو گرم مزاج فوراً انکے گلے پڑ گیا مگر تنزیلہ اور میری حالت خراب….
بالاخر تنزیلہ نے تسلیم کرلیا کہ وہ دونوں فقط دوست ہیں اور ڈیٹ پر آئے ہیں۔
سو روپے پر معاملہ فٹ ہوگیا۔ ایک پولیس والا میرے پاس آیا پوچھا اپ کون ہیں؟ میں نے جھٹ سے جواب دیا کہ میں لڑکی کا بھائی ہوں۔۔۔۔۔۔۔
پولیس والے نے اتنا کہا کہ بڑے غیرت مند قسم کے بھائی ہو جو بہن کو اکیلی تک نہیں چھوڑتا اور ڈیٹ پر بھی ساتھ آئے ہو بے غیرت انسان۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دن اور اج کا دن کسی کو بہن کہتے ہوئے منہ میں چھالے پڑ جاتے ہیں قسم سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔