اپنے حقوق کا دفاع خود کرنا سیکھیں لشکر کا انتظار اکثر آپکی جیت کو ہار میں بدل دیتا ہے، آئیے ہم اپنے ملک کی صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہیں۔ اور اپنے خطے کے دوسرے ممالک سے موازنہ کر کے فرق کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت نے ایک ساتھ برطانوی تسلط سے آزادی حاصل کی، قطع نظر سرحدی تقسیم میں ہیرا پھیری اور بے انصافی کے دونوں ممالک نے ایک ساتھ ترقی کے سفر میں اڑان بھری بھارت نے شروع ہی سے جو چند ایک بڑے فیصلے لئے ان کی بدولت ان کی ترقی کی منزل کے راستے قدرے آسان ہو گئے۔
ان فیصلوں میں سب سے بڑا فیصلہ جاگیرداری نظام پر کاری ضرب لگا کر اپنے ملک کی زراعت کو ترقی کی راہ پر گامزن کر دیا۔ شروع میں پاکستان تمام زرعی اجناس، پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار میں بھارت سے بہت آگے تھا اور آج کپاس اور آم کی پیداوار کے سوا ہر چیز میں پیچھے رہ گیا ہے، حالانکہ پاکستان کے حصے میں پنجاب کی بہترین زمین آئی تھی، سندھ میں بہت بڑی زمین کے علاوہ خیبر پختونخوا کے کئی اضلاع بھی بہترین پیدوار دینے والی زمین رکھتے تھے۔
پاکستان کے پاس بہترین نہری نظام بھی موجود ہے، لیکن ہمارے حکمرانوں نے نہ تو زمینوں کی درست تقسیم کر کے جاگیرداری نظام توڑا اور نہ ہی اپنے آبی وسائل پر کبھی توجہ دی۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی کوئی اعلیٰ پائے کے زرعی ترقیاتی سینٹر بنائے گئے نہ جدید کاشت کاری کا علم و ہنر سیکھا گیا۔
بھارت نے روز اول سے ہی اپنے ملک میں جمہوریت کی مضبوطی کی داغ بیل رکھ دی،جبکہ پاکستان میں جمہوریت کوپنپنے کا موقع ملا نہ متفقہ آئین تشکیل دیا جا سکا۔ اسی طرح زندگی کے کسی بھی شعبے میں نمایاں ترقی نہ ہو سکی۔ آج بھی اگر ہم غور کریں تو صرف نظام اور سوچ کی کمی ہے ورنہ 22کروڑ کی آبادی والا ایٹمی ملک جو دنیا کی طاقتور فوج بھی رکھتا ہو کیونکر اس قدر بدحالی کا شکار ہو سکتا ہے؟ ہم نے اپنے قومی اثاثوں کی حفاظت نہیں کی ہے
ہمارے رویئے ایسے بن چکے ہیں کہ صرف اپنی ذات کا سوچتے ہیں اپنے گھروں پر کروڑوں روپیہ لگا دیتے ہیں باہر گلی میں سو روپیہ خرچ کرتے ہیں نہ پانی کی نکاسی کے لئے دو ہزار کا پائپ ڈال سکتے ہیں۔
سڑکوں پر ٹریفک کی حالت کو دیکھ لیں ہر بندہ یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ یہ سڑک صرف میری ہے لہذا میں جہاں چاہوں گاڑی چلاوں یا پارکنگ کروں۔ کسی پبلک بیت الخلاء کی حالت دیکھیں تو ایسے لگتا ہے کہ یہ جانوروں کے استعمال میں ہے۔ ٹریفک کی صورتِ حال اور صفائی دو ایسی چیزیں ہیں، جنہیں دیکھ کر اس ملک کے لوگوں کا پتا چلتا ہے کہ یہاں کیسے لوگ رہتے ہیں۔ جب تک لوگ اپنی ذاتی املاک کے ساتھ اپنے قومی ورثے اور مشترکہ اثاثوں کی حفاظت نہیں کریں گے۔ جب تک ہر بندہ اپنا قومی فریضہ ادا نہیں کرے گا، جب تک ہم ایک دوسرے کا احترام نہیں کریں گے، سول سوسائٹی باہمی صلاح مشورے سے اپنے مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لے گی اس وقت تک ترقی کے راستے مسدود رہیں گے۔ اور ہم دنیا سے مزید پیچھے رہ جائیں گے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ عوام میں شعور اُجاگر کرنے کے لئے مختلف ذرائع استعمال کرے بالخصوص تعلیمی اداروں کے نصاب میں مناسب تبدیلیاں لائی جائیں تاکہ عوام اپنے ذاتی مفاد کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کے مفاد کو بھی مد نظر رکھیں۔
ندیم عباس بھٹی
مسقط سلطنت آف عمان