عطا اللہ شاہ بخاری انگریز کو ہند سے نکال دینے کی تحریک میں ھند کے مختلف مقامات پر شیعہ سنیوں وہابیوں اور ہندوؤں کے مشترکہ جلسوں سے تقاریر کر رہے تھے . اتحاد کی فضا کو پراگندہ کرنے کیلیے کچھ بد طینت لوگ متنازعہ سوالات کر دیتے جنکو شاہ جی اپنی کمال حاضر دماغی سے ان پر ہی لوٹا دیتے تھے . ایک دن جلسے کے دوران کھڑے ہو کر ایسا ہی ایک سوال ایک پینٹ کوٹ میں ملبوس جنٹلمین نے بھی کیا . اس نے پوچھا ، شاہ جی یہ بتائیں کیا مردے سنتے ہیں . شاہ جی نے برجستہ جواب دیا اے بابو ، زندوں کے قبرستان میں اٹھارہ برس ہو گئے ، زندہ تو میری سنتے نہیں مردوں سے خود جا پوچھو .
یہی کچھ حال فیسبک کا ہے . یہاں بھی شاہ جی کی طرح اکثر پنج ہزارئیے اپنے پانچ ہزار پیاروں کی خاموشی پر نالاں و شکوہ کناں نظر آتے ہیں۔ انکا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ لسٹ میں جو ایڈ ہیں وہ تو اپنے ہونے کا احساس دلاتے نہیں جبکہ دوسرے ریکوئسٹ کا دروازہ کھٹکا رہے ہیں۔ گویا زندہ تو سنتے نہیں اور مردے سننے کو کھٹکائیں دروازہ۔
جس یوزر کی فیسبک لسٹ پر پانچ ہزار لوگ ایڈ تو ہوں مگر پوسٹوں پر کسی بھی قسم کا ردعمل نہ دیں تو گویا لسٹ آئی ڈیز کا گورستان ہے کہ رد عمل ہو یا نہ ہو بس پوسٹ کرتے جائیے . تنقید و تحسین کے کمنٹس اور لائک ہوں نہیں اور نئی ریکوئسٹ تھمنے کا نام نہ لیں تو صاحب وال لائکس و کمنٹس کرنے کی گزارش کرتے نظر آتے ہیں تاکہ چھانٹی کرتے وقت معلوم ہو کونسی آئی ڈی آئیڈل ہے اور کونسی ایکٹیو ہے . اور یہ بھی کہ انفرینڈ ہونے والے دوست بعد میں شکوہ نہ کریں . آئیڈل وہ ہوتی ہیں جن کے یوزرز ایک بار ریکوئسٹ بھیجنے کیبعد کہیں سو جاتے ہیں اور کسی بھی قسم کا رسپانس نہیں دیتے . ایکٹو یوزر کیلیے مسئلہ یہ ہوتا ہیکہ پانچ ہزار فرینڈز کیبعد نہ اسے مزید ریکوئسٹ آ سکتی ہیں اور نہ ہی وہ کسی کو ایڈ کر سکتا ہے . اس مقصد کے حصول کیلیے جھاڑو پھیرنے کا عمل کیا جاتا ہے . پانچ یزارئیے تھوڑے تھوڑے عرصے بعد یہ عملِ صفائی کرتے رہتے ہیں . اس عمل کے دوران آئیڈل آئی ڈیز کو انفرینڈ کر کے نئے مگر ایکٹو یوزرز کیلیے جگہ بنائی جاتی ہے . اس تجربے کیبعد پنج ہزارئیے محتاط ہو جاتے ہیں اور ہر ریکوئسٹ کو ایکسیپٹ کرنے کی بجائی پروفائل کو بغور جائزہ لے کر ہی ایکسیپٹ کرتے ہیں . بوجہ انبار اکثر و بیشتر اس میں ٹائم لگ جاتا ہے .
انبار میں زیادہ تر نئی آئی ڈیز یا وہ پرانی رہ جاتی ہیں جنکی وال پر پوسٹس یا کوئی تفصیل نہیں ہوتی . دوسری طرف غیر ملکی حسیناؤں کی آئی ڈیز سے ریکوئسٹ کی بھر مار ہے . جیسے ٹڈی دل ناریوں نے حملہ کر دیا ہو . ان سب میں ایک بات مشترک ہے کہ نئے اکاؤنٹ ہیں اور انکی وال پر دو چار تصویروں کے علاوہ کوئی پوسٹ نہیں ہوتی جسے دیکھ کر اور باہمی دلچسپی کے مشاغل کا جائزہ لیکر انکی ریکوئسٹ ایکسیپٹ کی جائے . باہمی دلچسپی کے امور کی عدم موجودگی میں اس لیے ایکسیپٹ کر لیا جائے کہ گوری ناریاں ہیں ، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا . گو انکی وال پر دیکھا جاسکتا ہے کہ ہمارے چند احباب کی لسٹ میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو چکی ہیں .
سینکڑوں نئی غیر ملکی آئی ڈی والی یہ نازک اندام حسینائیں پاکستانیوں پر ہی آخر اتنی مہربان و فریفتہ کیوں ؟ آنے والے انتخابات میں انکا کوئی کردار ہے یا کوئی اور مقصد ؟ یہ ہیکرز بھی ہو سکتے ہیں یا اس سے بڑھ کر پورن مافیاز یا دیگر جرائم سے وابسطہ لوگ بھی ہو سکتے ہیں .
میرا اکاؤنٹ پنج ہزارئیہ تو دور یک ہزار بھی نہیں . ایکسیپٹ کرنے کا میرا طریقہ کار مختلف ہے . جھاڑو سے بچنے کیلیے اس قسم کی آئی ڈیز کو ایکسیپٹ کرتا ہی نہیں . کیونکہ صفائی کرنے کی نسبت میں گند نہ ڈالنے کو ترجیح دیتا ہوں . گھوسٹ آئی ڈیز کے اس گند ( غیر ملکی حسیناؤں) کو گھر میں داخل نہیں کرتا تو میرے دروازے پر ہی پڑا رہتا ہے . ڈیلیٹ کرتا ہوں تو واپس ریکوئسٹ آ جاتی ہے . یقینا سب کیساتھ ہی ایسا ہوتا ہے . نجانے ان گھوسٹ آئی ڈی والوں کے عزائم کیا ہیں . ایک دوست کیمطابق ان سب کو بلاک کر دینا اچھا آپشن ہے .
اچھا لکھنے والوں کو میں خود ریکوئسٹ بھیجتا ہوں تاکہ تقابل ادیان ، سیاسیات اور حالات حاضرہ پر تجزیوں پر مبنی انکی تحاریر سے مستفید ہو سکوں . رہیں اپنی تحاریر تو یہ تو مبتدی کی شروعاتی کاوشیں ہیں اور فیسبک پوسٹس کو اپنی ہی ڈائری کے صفحات کے طور پر استعمال کرتا ہوں . چند عزیز دوست حوصلہ افزائی کرتے ہیں تو تحاریر کو ایک سمت دینے میں راہنمائی ہو جاتی ہے .
میں فیسبک کا طفل مکتب ہوں، مقدمہ نہیں تھا یہ مرا… کچھ سو سے میں خوش، لائکس کمنٹس مقصد نہیں مرا… دوسروں کی کہانی لے بیٹھا، کچھ تو مگر خیال انکا کرو زرا…
اتنی محنت سے لکھتے ہیں یہ نابغے ، انہیں اپنے ہونے کا اشارہ تو دو زرا…
276