واشنگٹن — پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) اور بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کے درمیان مقدمے کی تین روزہ سماعت آج دبئی میں قائم بین الاقوامی کرکٹ بورڈ کے صدر دفتر میں شروع ہو گئی ہے۔
یہ مقدمہ پاکستان نے 2014 میں بھارتی کرکٹ بورڈ کے ساتھ طے ہونے والے سمجھوتے کی بھارت کی طرف سے خلاف ورزی کے بعد آئی سی سی کی عدالت میں دائر کیا تھا۔
اس سمجھوتے کی رو سے بھارت اور پاکستان کو 2015 سے 2023 کے درمیان آٹھ برسوں میں چھ دو طرفہ سیریز کھیلنا تھیں۔ تاہم بھارتی بورڈ نے یہ کہتے ہوئے پاکستان کے ساتھ کوئی بھی دو طرفہ سیریز کھیلنے سے انکار کر دیا تھا کہ اسے بھارتی حکومت کی جانب سے اجازت نہیں ملی ہے۔
پاکستان نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے اب تک نہ کھیلی جانے والی سیریز سے سات کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا ہے اور اُس نے بھارت سے یہ ہرجانہ ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان اور بھارت نے 2007 میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے دورہ بھارت کے بعد سے کوئی مکمل دو طرفہ سیریز نہیں کھیلی ہے۔ تاہم پاکستان نے 2012 کے اختتام پر بھارت میں محدود اوورز کی ایک امختصر سیریز بھی کھیلی تھی لیکن یہ مکمل سیریز نہیں تھی۔
سنہ 2014 میں کرکٹ کے بین الاقوامی ادارے آئی سی سی کی تشکیل نو کی جا رہی تھی جس میں کرکٹ کھیلنے والے تین بڑے ملکوں یعنی بھارت، آسٹریلیا اور انگلستان کو کرکٹ کے معاملات میں ترجیحی حیثیت حاصل ہو گئی تھی۔ پاکستان نے بھارت کی حمایت کے بدلے بھارت سے چھ دو طرفہ سیریز کھیلنے کے لئے تحریری سمجھوتہ طے کیا تھا۔ ان چھ سیریز میں چار کی میزبانی پاکستان کو کرنا تھی جس میں کل 24 میچ کھیلے جانے تھے۔ ان چھ سیریز میں طے شدہ پروگرام کے مطابق 14 ٹیسٹ، 30 ایک روزہ میچ اور 12 ٹی ٹوئنٹی میچ شامل تھے۔
تاہم بعد میں دونوں ملکوں کے سیاسی تعلقات انتہائی کشیدہ ہوتے چلے گئے اور یوں بھارتی بورڈ نے یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی کہ پاکستان سے کرکٹ میچ کھیلنے کے لئے اسے بھارتی حکومت سے اجازت کی ضرورت ہے اور حکومت نے اسے یہ اجازت نہیں دی ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ اس سے اتفاق نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ بھارتی کرکٹ بورڈ نے اپنی حکومت کو قائل کرنے کے لئے سنجیدہ کوشش نہیں کی ہے۔ پی سی بی کا کہنا ہے کہ اگر بھارت آئی سی سی کے تحت ہونے والے ٹورنمنٹس میں پاکستان کے ساتھ کھیل سکتا ہے تو پھر دو طرفہ سیریز کھیلنے سے منکر کیوں ہے۔
آئی سی سی نے شروع میں دونوں ملکوں کے حوالے سے آزاد اور معتدل پالیسی اختیار کی۔ تاہم گزشتہ برس آئی سی سی کے بھارت نژاد چیئرمین ششانک منوہر نے لندن میں ہونے والے آئی سی سی کے اجلاس میں پاکستان کرکٹ بورڈ کو مشورہ دیا کہ وہ بھارتی کرکٹ بورڈ کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہ کرے کیونکہ ایسا کرنے سے اُس کے بھارتی کرکٹ بوردڈ کے ساتھ تعلقات ہمیشہ کے لئے خراب ہو جائیں گے۔
کرکٹ کے مبصرین کہتے ہیں کہ اس مشورے کے ذریعے ششانگ منوہر نے دراصل بھارتی کرکٹ بورڈ کی پالیسی کی حمایت کی کہ اسے پاکستان کے ساتھ دو طرفہ سیریز کھیلنے کے لئے اپنی حکومت کی اجازت درکار ہو گی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے حکام نے اجلاس سے واک آؤٹ کرتے ہوئے کہا کہ آئی سی سی کے چیئرمین در اصل بھارتی کرکٹ بورڈ کی وکالت کر رہے ہیں اور وہ غیر جانبدار نہیں رہے۔ یوں پاکستان کرکٹ بورڈ کے پاس آئی سی سی کے تنازعات کے حل کے ٹریبیونل میں جانے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔
پی سی بی کہتا ہے کہ اگر بھارتی کرکٹ بورڈ کو پاکستان کے ساتھ سیریز کھیلنے کے لئے حکومت کی اجازت درکار تھی تو اُس نے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیوں کئے۔
پی سی بی کا مؤقف ہے کہ بھارت کی طرف سے 2014 اور 2015 میں کھیلی جانے والی دو مجوزہ سیریز کھیلنے سے انکار کے باعث کم سے کم سات کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ یوں پاکستان کرکٹ بورڈنے گزشتہ برس نومبر میں آئی سی سی کی تنازعات کے حل کی کمیٹی کے روبرو مقدمہ دائر کر دیا۔ تین رکنی اس ٹریبیونل کی سماعت آج دبئی میں شروع ہو گئی ہے جو تین دن تک جاری رہے گی۔
سماعت کے اختتام پر یہ تین رکنی کمیٹی اپنا فیصلہ بدھ کے روز سنا دے گی جس کے خلاف کوئی اپیل نہیں کی جا سکے گی اور دونوں فریقین کو اسے قبول کرنا ہو گا۔
آئی سی سی کے اس تین رکنی پینل کے چیئرمین مائیکل بیلوف ہیں جو اس سے قبل آئی سی سی کے اُس ٹریبیونل کا حصہ رہ چکے ہیں جس نے سپاٹ فکسنگ سکینڈل میں پاکستان کے سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر کو سزائیں سنائی تھیں۔ مائیکل بیلوف کے علاوہ دیگر دو ارکان میں جان پولسن اور اینابیل بینٹ شامل ہیں۔