صوبہ سندھ کے شہر عمر کوٹ میں مسیح خاکروب کو گزشتہ چار ماہ سے بند گٹر لائن میں اتارا گیا جہاں وہ زہریلی گیس میں سانس لینے کی وجہ سے بے ہوش ہو کر گر گیا۔ گندگی اور کیچڑ میں لت پت اس بے ہوش خاکروب کو جب عمرکوٹ ہسپتال لایا گیا تو ڈیوٹی پر موجود مسلمان ڈاکٹر نے یہ کہہ کر علاج کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ روزے سے ہے اور اسکے کپڑے خراب ہو جائیں گے لحاظہ پہلے اس خاکروب کو نہلایا جائے پھر علاج شروع ہوگا۔
کچھ دیر وقفے کے بعد باری باری دو اور ڈاکٹر آئے اور کم وبیش یہی الفاظ کہہ کر چلے گئے۔ کافی دیر گزر جانے کے بعد جب چوتھا ڈاکٹر آیا تو چیک کرنے پر پتہ چلا کہ خاکروب کی موت واقع ہو چکی ہے۔ مزید ظلم یہ کیا گیا کہ جو آکسیجن سلنڈر مریض کو لگایا گیا وہ بھی خالی تھا۔ علاقے میں موجود مسیح برادری نے لاش اور خالی سلنڈر سمیت سڑک بلاک کر کے کئی گھنٹے احتجاج کیا مگر اسمبلی ممبران تو دور کی بات محلے کا کونسلر بھی انہیں دلاسا دینے یا انصاف کی یقین دھانی کروانے نہ آیا۔ اور بے چارے عیسائی لاش لیکر گھروں کو روانہ ہوگئے۔
تینوں ڈاکٹروں پر قتل خطا کا مقدمہ درج ہو گیا ہے مگر پاکستانی انصاف کے نظام کو دیکھتے ہوئے صاف لگ رہا ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوگا اور آخر میں غریب عیسائیوں نے پریشر میں آ کر خود ہی معاف کرکے صلح کرلینی ہے۔ یہ واقعہ انسانیت کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے۔ یہ توہین انسانیت کے ساتھ ساتھ توہین اسلام بھی ہے۔ کیونکہ اسلام میں انسان کی جان بچانے کی بات کی گئی ہے اور یہ نہیں کہا گیا کہ غیر مسلم پلید ہوتا ہے اسے ہاتھ نہ لگاؤ اور اسے مرنے دو۔ پاکستان میں زیادہ تر مسلمانوں میں انسانوں کے پلید اور پاک ہونے کی سوچ پائی جاتی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جس نے کلمہ پڑھ لیا وہ عظیم انسان ہوگیا مگر اسکا یہ مطلب نہیں کہ جس نے کلمہ نہیں پڑھا وہ اتنا پلید ہے کہ ہم اس سے ہاتھ نہیں ملا سکتے، ہاتھ پلید ہو جائے گا اور اگر وہ مر رہا ہو تو بھی ہم اپنے کپڑے بچائیں کہ کہیں کپڑے پلید نہ ہو جائیں ہم نے نماز پڑھنی ہے اور ہمارا روزہ خراب ہو جائے گا۔
پاکستان میں تقریباً تین ملین عیسائی رہتے ہیں جو کل آبادی کا دو فیصد بنتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں عیسائیوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے، عیسائی تعلیم میں بہت پیچھے ہیں اور اسلئے انہیں قابل ذکر نوکریاں نہیں دی جاتیں اور زیادہ تر عیسائی خاکروب اور چپراسی جیسی نوکریاں ہی کرتے ہیں۔ حیرت اس وقت ہوتی ہے جب %97 فیصد مسلمانوں کی ٹوائلٹس کا گند صاف کرتے ہوئے کوئی عیسائی موت کے منہ میں پہنچ جائے اور مسلمان ڈاکٹر یہ کہہ کر علاج کرنے سے انکار کردے کہ میرے کپڑے پلید ہو جائیں گے۔
پاکستان میں اکثر لوگ گھروں میں عیسائی عورتیں صفائی کے لئے رکھتے ہیں اور انکے کھانے کیلئے گھر کے کسی کونے میں پرانی پلیٹ، چمچ اور گلاس رکھ دیتے ہیں اور وہ صرف انہی برتنوں میں کھا سکتے ہیں اور انہیں سختی سے منع کیا جاتا ہے کہ دوسرے برتنوں کو ہاتھ نہ لگائیں ورنہ وہ ناپاک ہو جائیں گے۔ ایک دفعہ ایک چھوٹے شہر میں سڑک بن رہی تھی اور دوپہر کو بھوک لگنے پر ایک عیسائی مزدور نے ہوٹل سے کھانا کھا لیا۔ جب ہوٹل والوں کو پتہ چلا کہ وہ عیسائی ہے تو وہاں موجود امام مسجد نے اس عیسائی سے جون کے مہینے میں گرم سڑک پر ناک سے لکیریں نکلوائیں تاکہ آئندہ اسکی مسلمان ہوٹل سے کھانا کھانے کی جرات نہ ہو۔
اسلام میں ایسی کسی چیز کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ ہمارے نبی پاک صلی اللہ وسلم غیرمسلموں کو اپنے ساتھ دسترخوان پر بٹھا کر اکٹھے کھانا کھاتے تھے اور الگ برتنوں کا کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا تھا۔ اس زمانے میں مہمان خانے تو نہیں ہوتے تھے اسلئے ہر آنے والے مہمان کو مسجد میں ٹھہرایا جاتا تھا اور بعض اوقات کچھ لوگ شرارت میں وہاں پیشاب تک کر دیتے تھے جسکو نبی صلی اللہ وسلم اپنے ہاتھ سے صاف فرماتے تھے۔ ایک دفعہ ایک یہودی آپ صلی اللہ وسلم کے پاس مہمان آیا اور اسنے صبح نقاہت کی وجہ سے یا جان بوجھ کر بستر پر پیشاب کر دیا۔ اسے اپنے کئیے پر شرمندگی ہوئی اور وہ جلدی جلدی وہاں سے بھاگ گیا تاکہ نبی صلی اللہ وسلم کو اس بات کا اسکی موجودگی میں پتہ نہ چلے۔ جب وہ کچھ دور گیا تو اسے یاد آیا کہ وہ اپنی تلوار تو وہاں ہی بھول آیا ہے۔ واپس تلوار لینے گیا تو دیکھا کہ نبی صلی اللہ وسلم اپنے ایک صحابی کی مدد سے بستر خود دھو رہے ہیں۔ وہ یہودی نبی صلی اللہ وسلم کے اخلاق سے اتنا متاثر ہوا کہ اسنے اسلام قبول کر لیا۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِىٓ ءَادَمَ…(سورۂ الاسراء آیت 70)
” ہم نے اولادِ آدم کو (کسی مذہبی امتیازکے بغیر) عزت وتکریم دی ہے۔ ”
ہمیں اپنی اجتماعی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے معاشرتی رویوں میں اخلاقیات اور انسانی اقدار کی شدید کمی ہے۔ ہمارے ماہرین تعلیم کو چاہئے کہ سکول، اور کالج کے نصاب میں اخلاقیات اور انسانیت سے محبت کے مضامین ڈالے۔ انسانیت سے محبت ذات پات، فرقہ، مذہب اور معاشی درجوں سے بالا تر ہونی چاہئیے۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور اللہ کی طرف سے مذہب انسان کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے اور جب کائنات کا خالق مذہب سے بالا تر ہو کر اپنی نعمتیں سب انسانوں کو دیتا ہے ایسے ہی ہمیں بھی مذہب سے بالا تر ہو کر سب انسانوں سے محبت کرنی چاہئیے۔