گزشتہ دنوں سویڈن میں پاکستانی سفارت خانے کے تعاون سے سویڈش دارالحکومت سٹاک ہوم میں سورس پاکستان نامی صنعتی نمائش کا اہتمام کیا گیا۔ اس نمائش میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے پچاس کے لگ بھگ مینوفیکچررز، امپورٹرز، اور ایکسپورٹرز کو مدھو کیا گیا تھا۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ نمائش سیکنڈینیویا کے دل سٹاک ہوم میں پاکستانی مصنوعات کی اب تک سب سے بڑی نمائش تھی۔
اس نمائش میں سٹال لگانے کیلئے پاکستان میں لاہور، کراچی اور اسلام آباد سے بڑے ایکسپورٹ گروپس کی بجائے فیصل آباد، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ جیسے چھوٹے شہروں سے گمنام قسم کے چھوٹے ایکسپورٹر چنے گئے تھے، جنکا پہلے ایکسپورٹ کا کوئی قابل ذکر تجربہ نہیں تھا۔ ایکسپورٹرز کو چنتے وقت سویڈن میں موجود مارکیٹ کا خیال نہیں رکھا گیا تھا اور جلدی میں ایسے لوگوں کو سلیکٹ کیا گیا تھا جن میں سے اکثر کو ایکسپورٹ کی الف ب بھی نہیں آتی تھی۔
راقم نے جب ایک آموں اور چاول کے سٹال پر موجود دو حضرات سے بات چیت میں پوچھا کہ اگر یہاں سے آموں کا آڈر دیا جائے تو کس ریٹ پر آپ سٹاک ہوم میں ڈیلیوری دیں گے اور اس پر کسٹم ڈیوٹی کتنی لگے گی تو دونوں حضرات ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور فرمایا کہ ابھی ہمیں ان چیزوں کا پتا نہیں ہے۔ قارئین یہاں سے حساب لگا لیں کہ ایسے لوگ سلیکٹ کئے گئے تھے جنہیں اپنی ہی پروڈکٹ کے ریٹس کا خود نہیں پتا تھا اور وہ اپنا سٹال سویڈن لیکر آگئے تھے مگر پاکستان سے سویڈن اپنا سٹاک کیسے پہنچائیں گے اور کس ریٹ پر دیں گے اسکا ابھی فیصلہ نہیں کرسکے تھے۔
ایسا ہی حال پلاسٹک کے پائپس والے سٹال کا تھا جو ایسے پلاسٹک کے پائپس اپنے سٹال میں لیکر آئے تھے جنکو استعمال کرنے کا سویڈن میں ٹرینڈ نہیں تھا۔ چھت پر پنکھے لگانے والے سٹال کو دیکھ کر حیرت کا جھٹکا لگا کیونکہ پورے سویڈن میں گھروں کی چھتوں پر پنکھا لگانے والا کنڈا ہی نہیں ہے اور یہاں گھروں کی چھتیں بہت نیچی ہوتی ہیں، اور یہاں ٹھیک طرح گرمی آتی ہی نہیں کہ چھت والے پنکھے استعمال کئے جا سکیں۔ ایک صاحب نے ریڈی میڈ کالے بالوں کی وگس کا سٹال لگایا ہوا تھا۔ ان صاحب کو اتنا پتا نہیں تھا کہ سویڈن میں وگ لگانے کا ٹرینڈ انتہائی کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے اور لوگ پہلے تو ٹینڈ کروانا فیشن سمجھتے ہیں اور اگر کوئی غلطی سے وگ کا سوچے بھی گا تو وہ بھورے یا سفید بالوں والی وگ لگائے گا کالی نہیں اور ویسے بھی آجکل ہیئر ٹرانسپلانٹ کا زمانہ ہے وگ لگانے کا دور گزر چکا ہے اور سویڈن ٹیکنالوجی میں پاکستان سے کئی گنا آگے ہے۔
اس نمائش کی روح رواں پاکستانی سفارت خانے میں نوجوان کمرشل کونسلر محترمہ صائمہ صبا تھیں۔ سٹاک ہوم میں پاکستانی مصنوعات کی اتنی بڑی نمائش کروانے میں محترمہ یقیناً تعریف کے قابل ہیں اور وہ لگاتار دو دن اس نمائش میں خود موجود بھی رہیں اور نمائش کیلئے کئے گئے اقدامات کا جائزہ لیتی رہیں۔ راقم کی طرف سے کچھ سوالات کا جواب دیتے ہوئے محترمہ نے فرمایا کہ وہ گزشتہ دو مہینوں سے دن رات اس پروجیکٹ پر کام کررہی ہیں اور انکی انتھک کوششوں سے یہ سویڈن کی تاریخ میں پہلی دفعہ ممکن ہوا ہے کہ ایسی نمائش اتنے بڑے پیمانے پر لگائی گئی ہے۔
سٹاک ہوم کے مشہور علاقے ناکہ میں ایک خوبصورت ہال میں ٹوٹل 83 سٹالز کی بکنگ کی گئی تھی اور اس مقصد کیلئے صائمہ صبا نے اپنے اکاونٹ سے 2,22,000 سویڈش کراون کی ادائیگی کی تھی جبکہ سٹالز والوں میں سے %35 لوگوں نے اپنے واجبات ادا نہیں کئے ہیں۔ کئی سٹال والے سٹاک ہوم ائرپورٹ سے ہی یورپ آنے کی خوشی میں غائب ہو گئے تھے اور پچاس کے لگ بھگ جو لوگ نمائش میں آئے تھے ان میں سے صرف دس کمپنیز کے پاس انٹرنیشنل سرٹیفیکیشن تھی اور انکی پروڈکٹس انٹرنیشنل معیار کے مطابق تھیں۔ باقی کی 73 کمپنیز کو پاکستان سے چیک کئے بغیر نمائش کیلئے بھیجنا ایک الگ سوال ہے۔
صائمہ صبا نے بہت سی تجاویز پاکستانی گورنمنٹ کو بھجوائیں مگر وہاں بیٹھے ذہین فطین لوگوں نے ان تجاویز پر غور کرنا مناسب نہ سمجھا۔ پاکستان ایمبیسی سٹاک ہوم کو اس بڑی نمائش کیلئے نہ ہی کوئی سپورٹنگ فنڈ پاکستانی گورنمنٹ سے ملا اور نہ ہی ایمبیسی نے سٹال ہولڈرز سے کوئی ایکسٹرا رقم وصول کی، سوائے اس کے کہ چار ہزار یورو فی سٹال پانچ دن، رات سٹاک ہوم کے بہترین ہوٹل میں رہائش، تین وقت کھانا اور ٹرانسپوٹیشن کی مد میں سٹال ہولڈرز سے وصول کیا گیا۔ سٹالز لگانے کیلئے ہال کے واجبات کی پیشگی ادائیگی صائمہ صبا کی طرف سے کی گئی، جو ابھی تک انہیں وصول نہیں ہوئی ہے۔
نمائش کے پہلے دن شام کو راقم اپنے ایک عزیز دوست کے ہمراہ جب اس نمائش میں پہنچا تو درجنوں پاکستانی مصنوعات کے سٹالز دیکھ کر خوشی ہوئی مگر یہ خوشی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی جب بغور دیکھنے پر پتا چلا کہ سٹالز یقیناً اچھی جگہ پر اچھی ترتیب سے لگائے گئے ہیں مگر انکو وزٹ کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ صرف سٹال لگانے والے افسردہ چہروں کیساتھ بیٹھے تھے اور اس انتظار میں تھے کہ کب کوئی سویڈش گورا یا گوری آئے اور انکی مصنوعات سے متاثر ہو کر انہیں کوئی بڑا آڈر دے تاکہ پاکستان سے یہاں آنے کا کم از کم خرچہ ہی پورا ہو جائے، مگر وہاں سویڈش گورے تو دور کی بات پاکستانی حضرات بھی شاذو ناظر ہی نظر آ رہے تھے۔
جب نمائش میں موجود اس ویرانی کے بارے میں صائمہ صبا کا موعقف معلوم کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ کچھ سویڈش کاروباری شخصیات کو انہوں نے نمائش کا وزٹ کروایا ہے اور بہت سی سویڈش کمپنیز کے ای میل اور فون نمبرز سٹال ہولڈرز کو دیئے گئے ہیں مگر سٹال ہولڈرز ٹھیک طریقے سے ذہنی طور پر تیاری کر کے نہیں آئے تھے اور ان میں سے زیادہ تر کے پاس انٹرنیشنل سٹینڈرز کے سرٹیفیکیشنز بھی نہیں تھے اسلئے وہ ان کمپنیز کو مطمئین نہیں کرسکے۔
صائمہ صبا نے پچھلے دو مہینے سے دن رات کام کر کے اس نمائش کو کامیاب بنانے کے خواب کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے مگر وہ افسردہ ہیں کہ انہیں لوگوں کی طرف سے تعریف کے چند بول تو درکنار ہال کی بکنگ کیلئے انکی طرف سے خرچ کی گئی رقم بھی واپس نہیں ملی ہے کیونکہ تمام سٹال ہولڈرز نے اپنے واجبات ادا نہیں کئے ہیں، جبکہ سٹال ہولڈرز کو پاکستان سے بتایا گیا تھا کہ سٹاک ہوم میں سمندر کے کنارے بہترین ہال میں سٹال لگائے جائیں گے اور وہاں کثیر تعداد میں گورے، گوریاں اپنے دیدہ زیب جلوؤں کیساتھ آئیں گے اور پاکستانی مصنوعات کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ پاکستانیوں کیلئے یقیناً یہ ایک اچھا موقعہ تھا اگر وہ خواب پورے ہو جاتے جو انہیں دکھائے گئے تھے۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}
نمائش کے تیسرے دن پاکستان سے تشریف لائے معزز پاکستانی کاروباری حضرات اور سٹاک ہوم میں مقیم اہم پاکستانی شخصیات کیلئے ایک ڈنر کا اہتمام کیا گیا تھا جسے پاکستانی سفارت خانے نے معذرت کیساتھ اسلئے منسوخ کر دیا کیونکہ %80 کے لگ بھگ پاکستان سے آئے نمائش کے شرکاء یورپ کے مختلف شہروں میں غائب ہو چکے تھے۔ اس نمائش کو کامیاب بنانے میں راقم کی طرف سے کچھ تجاویز پیش کی جاتیں ہیں جنہیں مدنظر رکھتے ہوئے مستقبل میں ایسی رسوائی سے بچا جاسکتا ہے۔
نمائش کا انعقاد ویک ڈیز کی بجائے ویک اینڈ یعنی ہفتہ اور اتوار کو کیا جاتا تو زیادہ لوگ آنے کی توقع تھی کیونکہ ویک ڈیز میں لوگ اپنے اپنے دفاتر میں مصروف ہوتے ہیں۔
نمائش سے کم ازکم ایک مہینہ پہلے سٹاک ہوم کے مصروف مقامات جیسے ڈروٹننگ گاٹن اور سینٹرل سٹیشن میں رضاکار پاکستانیوں کی مدد سے نمائش میں موجود مشہور مصنوعات کی ایڈورٹائزنگ کی جاتی اور بسوں، ٹرینوں اور آئرپورٹس پر نمائش کے پوسٹر لگائے جاتے۔ اس نمائش کیساتھ پاکستان سے مشہور گلوکار اور فنکار بلوائے جاتے تاکہ پاکستانی کلچر اور سلیبریٹیز کے ذریعے سویڈش کاروباری شخصیات کو اٹریکٹ کیا جاتا۔ پہلے سے لوگوں کا ذہن بنانے کی تگ ودو کی جاتی کہ وہ کیوں پاکستانی مصنوعات خریدیں۔ عید والے دن نمائش رکھنا پاکستانیوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ ظلم تھا اور جن لوگوں نے ایسی تاریخ منتخب کی انکی عقل پر حیرت ہوتی ہے۔
آخر میں راقم پاکستانی گورنمنٹ اور سویڈن میں سفارت خانہ سے امید کرتا ہے کہ اس تنقید اور تجاویز کو منفی طور پر نہ لیا جائے اور اس سے سبق سیکھا جائے۔ راقم پاکستان سے محبت کرنے والا اور اسکی ترقی چاہنے والا ایک عام پاکستانی ہے جسکا دل پاکستان کیساتھ دھڑکتا ہے اور پاکستانی رسوائی اور جگ ہنسائی اسکی اپنی رسوائی ہے۔ اس واقعہ پر سچ لکھنے کا ایک مشکل فیصلہ کیا گیا ہے، کیونکہ جھوٹ لکھنا مزید رسوائی کا سبب بن سکتا تھا۔ بقول شاعر:
اس نمائش کی منصوبہ بندی اور سنجیدگی کو دیکھ کر ایک عام فہم انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ پاکستان بے شمار قدرتی اور انسانی وسائل کے ہوتے ہوئے ابھی تک کیوں ترقی نہیں کر سکا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ نااہل اور مفاد پرست حکمران ہم پر مسلط ہیں جو اپنے ذاتی مفاد کو ملکی مفاد پر ترجیع دیتے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہوتا رہا تو پاکستان اگلے ہزار سال تک بھی ایسے ہی رہے گا اور ملک میں ترقی کی بجائے دن بدن تنزلی آتی جائے گی۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
p.p3 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}