320

کیا مرد کی مردانگی اسی میں ہے۔

افسوس کہ ہم اس معاشرے کا حصہ ہے جہاں ہر کام میں ہاں کو مرد کی مردانگی سے تشبیہ دی جاتی ہے، وہ معاشرہ جہاں مرد کی ہر بات پر ہاں اور لڑکی کو صبر کی نصیحت کی جاتی ہے۔ جس شے پر مرد ہاتھ رکھ دے وہ فقط اسی کی تصور کی جاتی ہے۔ اس معاشرے میں اگر کسی کو سب سے زیادہ اپنی مرضی سے جینے کا حق ہے تو وہ اس معاشرے میں پلنے والا مرد ہے۔ جس کو زمانے کے رسم و رواج ہی نہیں خود اس کے گھر کی عورتیں اس کی ضد، جھوٹی انا اور ہٹ دھرمی پر اس کا ساتھ دیتی ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ زندگی میں متعدد بار وہ خود بھی کئی موقعوں پر مردوں کے مقابلے میں ذلت ، حقارت اور کمتری کا نشانہ بنی ہیں۔

کہیں اگر اسی مرد کی کسی بات پر انکار کردیا جائے تو گویا مرد کی مردانگی کو چیلنج لگتا ہے، خصوصاٍ اگر یہ انکار کوئی صف نازک شادی کی بات پر کردے تو بھئی سمجھے گویا قیامت آگئی۔ مرد کی مردانگی پر سوال اٹھ گیا، شک پڑ گیا، یقین ہوگیا کہ یہ تو مرد ہی نہیں کہ ایک کمزور سے لڑکی نے اسے ناں کردی۔ کوہاٹ میں پیش آنے والے ایک سال میں دو اندوہناک واقعہ نے معاشرے کی اس بد نما چہرے کو مزید بے نقاب کردیا ہے، جہاں لڑکی کا لڑکے کو انکار جھوٹی اور ہوس سے بھری انا پر کاری ضرب تصور کیا جاتا ہے۔ گزشتہ سال کوہاٹ ہی کے علاقے میں دن دیہاڑے گھر کے پاس ہونہار طلبہ اور با ہمت حنا شاہنواز کا قتل ہو یا کم سن میڈیکل تھرڈایئرکی طلبہ اسماٗ، ایبٹ آباد کی گاڑی میں زندہ جلائی جانے والی بے قصور امبرین ہو یا سندھ میں جلائی جانے والی انیلہ اس سب کا مشترکا جرم یہ تھا کہ وہ اپنی مرضی سے جینا چاہتی تھیں، وہ اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتی تھی اور زبردستی کے اصرار پر انہوں نے ایک مرد کو نہ کی تھی۔

ان سب حوا کی بیٹیوں نے اپنا وہ حق استعمال کرنا ضروری سمجھا جو اس مذہب اور معاشرے نے انہیں دیا تھا، تاہم اس معاشرے میں پلتے مرد کی مردانگی کو یہ انکار کسی طور برداشت نہ ہوا اور اس نے اس کے آگے اٹھا ہوا سر ہمیشہ کیلئے جھکا دیا۔ ایسے گھناؤنے جرم کے مرتکب افراد کیلئےپاکستان پینل کوڈ336 (بی)،324 اور337 (ایل) کے تحت مقدمہ درج کرنا ہی کافی نہیں ہوتا، اس مجرموں اور ان کے اہل خانہ کو بھی دن رات اس اذیت اور دوزخ سے گزارنا چاہیئے جیسے متاثرہ لڑکی یا اس کے اہل خانہ جھیلتے ہیں۔

یوں تو خواتین پر جنسی تشدداوردیگرجرائم میں تمام صوبے ایک دوسرے پر بازی لیتے رہتے ہیں تاہم پی ٹی آئی کی ناک تلے چلے والی صوبائی مشینری آج خواتین کو ان کے حقوق یا ان کے جائز مطالبے پر ان کا ساتھ دینے سے قاصر رہی ہے۔ وہ جماعت جس کے منشور میں خواتین کی برابری، خواتین کی ترقی اور تبدیلی کا نعرہ چاکلیٹ کی طرح چاٹ چاٹ کر لگایا جاتا ہے، اس صوبے میں حوا کی بیٹی اور اس کی عزت کی اہمیت کا انداز اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تین سالہ کم سن کلی کو ایک بھڑیہ بھبھوڑ کر کھتیوں میں پھینک کر چلاجاتا ہے، مگر اس حکمراں زبان سے ایک لفظ مذمت یا افسوس کا ادا نہیں ہوتا۔

جی ہاں یہ وہی صوبہ ہے جہاں ایک حوا کی بیٹی کو برہنہ کرکے شہر کی سڑکوں پر دوڑایا جاتا ہےمگر کوئی مائی کا لعل وڈیروں اور جاگیرداروں کےخوف سےآگے نہیں بڑھتا،جی ہاں یہ اسی جماعت کا صوبہ ہے جہاں حنا شاہنواز اور اسماٗ کے قاتلوں کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کرسکتا ہے، جہاں کے حکمراں بیٹیوں، لڑکیوں، خواتین کے خلاف ہونے والے حملوں پر لب کشائی کو سراسر غلط اور گناہ سمجھتی ہے۔ خیبرپختونخوامیں خواتین کے تحفظ کی فکر اور قانون سازی کیلئے سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے 2016 میں خواتین کے تحفظ کے حوالے سے ایک بل ڈرافٹ کرکے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوایا تھا جس نے پنجاب کے ویمن پروٹیکشن بل کی طرح اسے بھی مسترد کردیا۔ مگر آفریں کہ صوبے کی حکومت تاحال اس پرغور ہی کررہی ہے۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ کے مشیر برائے انفارمیشن مشتاق غنی نے اس حوالےسے کہا تھا کہ حکومت اس بل کو ری ڈرافٹ کرکے اسے اسلامی قوانین کے مطابق بنارہی ہے، تاحال یہ بل دوبارہ پارلیمنٹ میں پیش نہیں ہوسکا ہے۔ اس سلامی نظریاتی کونسل کے بھی کیا کہنے ہیں جس کی تان صرف خواتین سے شروع ہو کر خواتین پر ہی ختم ہوتی ہے، ایسی شریعی کونسل جس میں فقط ایک خاتون ہی رکن اور باقی مرد ہیں اور وہ خاتون بھی ایسی جو ہر بات پر مردوں کی ہمنوا ہوں، ایسی کونسل اور باڈی سے آپ کب توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ عورت کو اس کا جائز حق دلوا سکے، شاید یہاں بھی اسلام کو اپنی مرضی کی تشریح کے ساتھ پیش کردیا جائے۔

واضح رہے کہ دو ہزار تیرہ میں قائم ہونے والی تحریک انصاف کی حکومت نے جتنی بھی قانون سازی کی ان میں سے یہ واحد بل ہے جسے اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیجا گیا تھا۔ اس سے قبل تحریک انصاف نے پنجاب میں پیش کیے جانے والے ویمن پروٹیکشن بل کی بھی مخالفت کی تھی۔ صرف یہ ہی نہیں، پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابرنے 2014 میں غیرت کے نام پر قتل اور جنسی زیادتی کی روک تھام کے لیے ایک بل پیش کیا تھا جس پر مسلم لیگ ن کی حکومت نے اتفاق کیا تاہم مذہبی حلقوں کی جانب سے کیے جانےوالے اعتراضات کے سبب تین سال تک یہ معاملہ التوا کا شکاررہا یہاں تک کہ اکتوبر 2016 میں اسے اتفاقِ رائے سے منظور کیا گیا۔ واضح رہے کہ بل پیش کیے جانے سے منظور کیے جانے تک کے درمیانی عرصے سے کم و بیش 2300 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کردیا گیا،اعدادوشمار کے مطابق بل پیش ہونے کے بعد اس نوعیت کے واقعات ریکارڈ ہونے میں حیرت انگیز طورپر اضافہ دیکھنے میں آیا۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم عورت فاؤنڈیشن نےاپنی سالانہ رپورٹ میں اس بات کاانکشاف کیا کہ دیہی اور دور دراز علاقوں میں خواتین پر تشدد اور قتل کی شرح بڑے شہری علاقوں کی نسبت بہت کم ہے۔


حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ عورت کے خلاف اس جرم میں بھی سب سے آگے ہے۔ عورت فاؤنڈیشن کے مطابق نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی وارداتوں میں صوبوں کے لحاظ سے پنجاب پہلے نمبر پر ہے جہاں پورے ملک کے دیگرصوبوں کے برابر اس جرم کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ پنجاب کے صنعتی شہرفیصل آباد میں پورے ملک میں سب سے زیادہ نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کیے جاتے ہیں، جب کہ سندھ اور بلوچستان کا حال بھی اس سے مختلف نہیں۔

یقین کریں کہ ایک آزاد، خود مختار اور مستحکم ماں ہی ایک آزاد، خود مختار اور مستحکم معاشرے کی تعمیر کرسکتی ہے اور آج عورتوں سے ان کے حقوق چھیننے کا مطلب ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں سے جینے کا حق چھین رہے ہیں۔اس لمحے وقت کی ضرورت ہے کہ مردوں میں پروان چڑھانے والی اس سوچ کو تبدیل کیا جائے، عورت اور لڑکی کو مذہب اور قانون کی جانب سے دیئے گئے حق کا احترام کیا جائے اور اس تسلیم کیا جائے نہ کہ لڑکی کی مرضی اور اس کی آزادی کو اس کیلئے گالی بنا دیا جائے اور ایک آزاد اور اپنی مرضی سے جینے والی لڑکی کے چال چلن کو غلط نظر سے نہ دیکھا جائے، جتنا اس معاشرے میں اپنی مرضی سے جینے کا حق ایک مرد کو حاصل ہے، اتنا ہی ایک عورت کو ہے، خدارا کسی کے انکار کو اپنی جھوٹی انا کا مسئلہ اور اس کی جان کو تسکین کا ذریعہ نہ بنائے۔ دوسروں کی رائے اور مرضی کا احترام کریں اور کسی کے کردار کے بارے میں بات کرنے سے پہلے خود اپنے آپ کو ٓآئینے میں بھی ضرور دیکھ لیں کہ آپ خود کتنے پانی میں ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں