341

نیٹو کیا ہے، کب بنا اور اس اتحاد کےمستقبل کا مقصد کیا ہے؟

نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) کی تشکیل سنہ 1949 میں سرد جنگ کے ابتدائی مراحل میں اپنے رکن ممالک کے مشترکہ دفاع کے لیے بطور سیاسی اور فوجی اتحاد کے طور پر کی گئی تھی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ماضی میں نیٹو اتحاد کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں, امریکہ کے زیر قیادت اس اتحاد کے 29 ممبران کا اجلاس منگل اور بدھ کو لندن میں ہوا ہے، اور اگرچہ اس کے حامی اس کو تاریخ کا سب سے کامیاب فوجی اتحاد قرار دیتے ہیں، لیکن اس کے مستقبل پر سوالات ہو رہے ہیں۔
ستر برس بعد بھی بنیادی طور پر مختلف ترجیحات کے ساتھ بدلی ہوئی دنیا میں کیا اب بھی اس اتحاد کی ضرورت ہے؟ حالیہ عرصے میں نیٹو کے رکن ممالک کے مابین ہم آہنگی کم کم ہی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس تنظیم یا دیگر رکن ممالک پر امریکہ، فرانس اور ترکی کی جانب سے تنقید کی گئی ہے, اور نیٹو نے افغان طالبان کی مذاکرات کی پیشکش مسترد کر دی ہے. نیٹو اتحاد کی بنیاد سنہ 1949 میں سرد جنگ کے اوائل میں رکھی گئی تھی۔ نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) اتحاد امریکہ اور کینیڈا کے علاوہ دس یورپی ممالک کی جانب سے دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں بنایا گیا تھا۔ اس اتحاد کا بنیادی مقصد اس وقت کے سوویت یونین سے نمٹنا تھا۔
جنگ کے ایک فاتح کے طور پر ابھرنے کے بعد، سوویت فوج کی ایک بڑی تعداد مشرقی یورپ میں موجود رہی تھی اور ماسکو نے مشرقی جرمنی سمیت کئی ممالک پر کافی اثر و رسوخ قائم کر لیا تھا۔ جرمنی کے دارالحکومت برلن پر دوسری جنگ عظیم کی فاتح افواج نے قبضہ کر لیا تھا اور سنہ 1948 کے وسط میں سوویت رہنما جوزف سٹالن نے مغربی برلن کی ناکہ بندی شروع کر دی تھی، جو اس وقت مشترکہ طور پر امریکی، برطانوی اور فرانسیسی کنٹرول میں تھا۔
شہر میں محاذ آرائی سے کامیابی سے گریز کیا گیا لیکن اس بحران نے سوویت طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد کی تشکیل میں تیزی پیدا کر دی تھی۔ اور سنہ 1949 میں امریکہ اور 11 دیگر ممالک (برطانیہ، فرانس، اٹلی، کینیڈا، ناروے، بیلجیئم، ڈنمارک، نیدرلینڈز، پرتگال، آئس لینڈ اور لکسمبرگ) نے ایک سیاسی اور فوجی اتحاد تشکیل دیا۔
سنہ 1952 میں اس تنظیم میں یونان اور ترکی کو شامل کیا گیا جبکہ سنہ 1955 میں مغربی جرمنی بھی اس اتحاد میں شامل ہوا۔ سنہ 1999 کے بعد سے اس نے سابقہ مشرقی بلاک کے ممالک کا بھی خیر مقدم کیا اور اس کے ارکان کی مجموعی تعداد 29 ہو گئی۔ مونٹینیگرو جون 2017 میں اس کا حصہ بننے والا آخری ملک تھا۔ نیٹو کے قیام کا بنیادی مقصد اس وقت کے سویت یونین کو دور رکھنا تھا
نیٹو کے قیام کا بنیادی مقصد ’شمالی اٹلانٹک کے علاقے میں استحکام اور بہبود‘ کو فروغ دے کر اپنے رکن ممالک کی ’آزادی ، مشترکہ ورثے اور تہذیب کی حفاظت‘ کرنا ہے۔
نیٹو معاہدہ یہ ثابت کرتا ہے کہ نیٹو کے ایک رکن ملک کے خلاف مسلح حملہ ان سب کے خلاف حملہ سمجھا جائے گا، اور یہ کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔ عملی طور پر اتحاد اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ’یورپی رکن ممالک کی سلامتی شمالی امریکہ کے رکن ممالک کی سلامتی سے جدا نہیں ہے۔‘ اس تنظیم نے سوویت یونین اور کمیونزم کو اس سلامتی کے لیے سب سے بڑے خطرے کے طور پر دیکھا تھا۔
لیکن اس کی تخلیق کے بعد سے نیٹو کی سرحدیں ماسکو کے 1000 کلومیٹر قریب ہو گئی ہیں، اور اب یہ تنظیم مشرقی یورپ میں 1989 کی انقلابات اور سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سابق سوویت یونین میں شامل ممالک کو اپنا رکن گنتی ہے۔ نیٹو کمانڈ کے تحت آج بھی افغانستان میں تقریباً 17،000 فوجی افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت، رہنمائی اور مدد کے مشن کے طور پر موجود ہیں سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کے ٹوٹنے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ مغرب نے ماسکو کی فکر کرنا چھوڑ دی ہے۔
سنہ 2003 میں نیٹو کے ایک اعلیٰ عہدیدار، جیمی شیا نے اپنی مشہور تقریر میں کہا تھا کہ ’کسی کو اس بات پر یقین نہیں تھا کہ کمیونزم کے اچانک ختم ہونے سے دنیا ایک جنت بن جائے گی، ایک ایسے سنہری دور کی تشکیل جس میں اتحادی مسلح افواج کے بغیر زندہ رہ سکیں گے، یا دفاع کے بغیر زندگی بسر کر سکیں گے۔‘
یہ بھی حقیقت ہے کہ روس عسکری طور پر طاقتور رہا اور یوگوسلاویا کے خاتمے سے 1990 کی دہائی میں ہی جنگ یورپ میں واپس آ گئی۔ اس کے بعد کے تنازعات میں دیکھا گیا کہ نیٹو نے اپنا کردار ایک مداخلت پسند تنظیم میں بدل لیا: فوجی کارروائیوں میں بوسنیا اور کوسوو میں سربیا کی افواج کے خلاف فضائی مہم کے علاوہ بحری ناکہ بندی اور امن فوج بھی شامل تھیں۔
2001ء میں نیٹو نے پہلی بار یورپ کے باہر اپنی کاروائیاں کیں: اس نے 11 ستمبر کے حملوں کے بعد افغانستان بھیجے گئے اقوام متحدہ کی جانب سے منظور شدہ اتحادی فوج کی سٹریٹجک کمانڈ سنبھالی۔ نیٹو کمانڈ میں آج بھی افغانستان میں تقریباً 17،000 فوجی افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت، رہنمائی اور مدد کے مشن پر موجود ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپٹ سنہ 2016 میں جب وہ ابھی صدارتی امیدوار تھے، انھوں نے نیٹو کو ’فرسودہ‘ قرار دیا اور کہا تھا کہ اگر وہ تنظیم ’ٹوٹ جائے‘ تو انھیں ’کوئی مسئلہ‘ نہیں ہو گا۔
ٹرمپ نے یہ اشارہ بھی دیا تھا کہ امریکہ اتحادی ممبروں پر حملے کی صورت میں ان کا دفاع کرنے کے عزم کی پابندی کرنے یہاں تک کہ تنظیم کو بھی چھوڑ سکتا ہے۔ انھوں نے یہ شکایت بھی کی کہ واشنگٹن نیٹو کے دیگر رکن ممالک کے مقابلے میں دفاع پر زیادہ رقم خرچ کر رہا ہے۔ انھوں نے ستمبر 2018 میں ٹویٹ کیا تھا کہ ’امریکہ کسی دوسرے ملک کے مقابلے میں نیٹو پر بہت زیادہ خرچ کر رہا ہے۔ یہ مناسب نہیں ہے اور نہ ہی یہ قابل قبول ہے۔‘
اور شاید ان کا نکتہ اعتراض درست ہے کیونکہ امریکہ نیٹو کے تمام رکن ممالک (2018 کے اعداد و شمار کے مطابق) کے دفاع پر کل اخراجات کا تقریباً 70 فیصد ادا کرتا ہے اور اگرچہ 2014 میں تمام نیٹو ممبران نے سنہ 2024 تک اپنے دفاعی اخراجات کو جی ڈی پی کے 2 فیصد تک بڑھانے پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔ تاہم ابھی تک چند رکن ممالک ہی ایسا کر سکے ہیں۔ترکی نے، جو 1951 کے بعد سے نیٹو کا رکن بنا ہے اکتوبر میں شمالی شام میں مداخلت کے فیصلے اور کرد فورسز کے خلاف کارروائی کے بعد سے اتحاد میں پھوٹ ڈال دی ہے۔ یوروپی یونین نے جوابی کارروائی کے طور پر ترکی کو ہتھیاروں کی فروخت معطل کر دی، اور ایسا کرنے والوں میں 28 ممالک میں سے 22 نیٹو کے ممبر ہیں۔
اس فہرست میں فرانس، سپین اور برطانیہ شامل تھے، جو ترکی کو ہتھیاروں کی سپلائی میں سرفہرست ہیں۔ لیکن ماسکو کے ساتھ انقرہ کے بڑھتے ہوئے فوجی تعلقات پہلے ہی کشیدگی پیدا کر رہے تھے۔ ترک صدر رجب طیب اردگان کی حکومت نے واشنگٹن کے اعتراضات کے باوجود روس سے دفاعی میزائل نظام S-400 حاصل کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے۔ امریکہ 2013 سے ترکی کو اپنا پیٹریاٹ ہوائی دفاعی نظام فروخت کرنے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن ترک صدر اردگان کی جانب سے ٹیکنالوجی کی منتقلی کے مطالبے کے بعد مذاکرات ٹھپ ہوگئے۔
اس کا مقصد ترکی کی جانب سے اپنا نظام خود تیار کرنا تھا جسے اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما کی انتظامیہ نے مسترد کر دیا تھا۔ چنانچہ انقرہ نے ماسکو کا رخ کیا اور ترک حکومت ایس 400 کی خریداری کے ساتھ آگے بڑھ گئی۔ اس کے بعد امریکہ نے ترکی کو اس مشترکہ پروگرام سے الگ کر دیا جس کے تحت جدید ترین ایف 35 جنگی طیارے تیار کیے جا رہے تھے۔ کیونکہ واشنگٹن نے خدشہ ظاہر کیا کہ ایس 400 معاہدہ ماسکو کو ایف 35 کے بارے میں حساس تکنیکی تفصیلات تک رسائی فراہم کرسکتا ہے۔ معاملات کو مزید پیچیدہ یہ بات کرتی ہے کہ ترکی کے خطے میں نیٹو کے اڈے ہیں اور شام کے قریب ملک کے جنوب میں واقع انکرلک ایئر بیس ایک اہم امریکی تنصیب بھی موجود ہے۔
ترکی ان پانچ یورپی نیٹو رکن ممالک میں سے ایک ہے جن کی سرزمین پر امریکی ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ فرانسیسی صدر میکرون نے نیٹو کو ’دماغی طور پر مردہ‘ قرار دیا تھا, فرانسیسی صدر ایمنیوئل میکخواں نے اکانمسٹ میگزین کو بتایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ نیٹو ’دماغی طور پر مردہ‘ ہے اور انھوں نے امریکہ کی نیٹو سے متعلق ذمہ داریوں میں سنجیدگی پر یہ کہتے ہوئے سوال کیا کہ واشنگٹن نے نیٹو کو اطلاع دیے بغیر شام سے فوجیوں کے انخلا کا فیصلہ کر لیا۔
انھوں نے یہ بھی اشارہ دیا کہ وہ اس بات کا یقین نہیں کر سکتے کہ حملے کی صورت میں نیٹو کے ارکان ایک دوسرے کے دفاع کے لیے آئیں گے۔ میکخواں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’میں یہ بحث کروں گا کہ ہمیں امریکہ کی (نیٹو سے) وابستگی کی روشنی میں نیٹو کے حقائق کا جائزہ لینا چاہیے۔‘
’فوجی حکمت عملی اور صلاحیت کے لحاظ سے یورپ کو خود مختار ہونا چاہیے۔‘ میکخواں کے انٹرویو نے ہلچل مچا دی اور ان کی قریبی اتحادی جرمن چانسلر انگیلا مرکل کے ساتھ ماحول تھوڑا عجیب ہو گیا تھا۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق انھوں نے فرانسیسی رہنما کو بتایا کہ ’بار بار مجھے، آپ کے توڑے ہوئے کپوں کو جوڑنا پڑتا ہے تاکہ ہم بیٹھ جائیں اور ایک ساتھ چائے کا کپ پی سکیں۔ برطانیہ نے ابھی یورپی یونین سے علیحدگی کی شرائط کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
ایک تلخ بریگزٹ نیٹو اتحاد میں اختلاف رائے پیدا کر سکتا ہے جس میں فی الحال یورپی یونین کے 28 ممالک میں سے 22 ممالک موجود ہیں۔ فی الحال نیٹو ممالک میں صرف امریکہ ہے جو دفاع پر برطانیہ سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔ اس سوال کے جواب کا انحصار اس بات پر ہے کہ خطے میں روس کہاں کھڑا ہے۔ نیٹو کے سابق ڈپٹی سیکرٹری جنرل، الیگزینڈر ورشبو نے رواں سال کے اوائل میں این پی آر ریڈیو کو بتایا تھا کہ ’جب تک ہم ایک جارحانہ روس کا سامنا کر رہے ہیں ہمیں اجتماعی دفاع اور عدم استحکام کے اپنے بنیادی مشن کے لیے نیٹو کی ضرورت ہو گی۔‘ ’تو مجھے لگتا ہے کہ (نیٹو میں) اس میں کم سے کم کئی دہائیاں ہیں اور شاید مزید 70 برس ہوں۔‘
یہ بات بھی اہم ہے کہ ٹرمپ کی تنقید کے باوجود امریکی کانگریس نے گذشتہ جنوری میں ملک کو نیٹو سے نکلنے سے روکنے کے لیے قانون سازی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ ڈیموکریٹ اور ریپبلیکن دونوں پارٹیوں نے اس کی زبردست حمایت کی تھی اور اس کے حق میں 357 ووٹ تھے اور اس کے مخالف صرف 22 ووٹ ڈالے گئے تھے۔ نیٹو کی 70 ویں سالگرہ کے موقع پر ہونے والے اجلاس پر گرم جوشی شاید اتحاد میں شامل افراد کی امیدوں سے کم ہو لیکن امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ یہ تنظیم کی آخری سالگرہ نہیں ہو گی۔
ندیم عباس بھٹی
مسقط سلطنت آف عمان

اپنا تبصرہ بھیجیں