351

فلسفہ قربانی۔

p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

نبی پاک صلی اللہ وسلم نے فرمایا، بقرعید کے دن لوگوں کا کوئی عمل اللہ کریم کو قربانی سے زیادہ محبوب نہیں اور بے شک خون (قربانی) کا زمین پر گرنے سے پہلے ہی بارگاہ الہی میں قبول ہو جاتا ہے ہر مسلمان کیلئے یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہےکہ قربانی ہر صاحب استطاعت مسلمان پر واجب اور لازمی ہے اس عقیدے کے بغیر دائرہ اسلام میں رہنا ناممکن ہے۔

حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ صحابہ نے پوچھا یارسول اللہ! یہ قربانی کیا ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا ھذہ سنۃ ابیکم ابراہیمؑ یہ تمہارے باپ ابراہیمؑ کی سنت ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے وفدینٰہ بذبح عظیم اور ہم نے بڑا ذبیحہ اسکے بدلے میں دیا اور ساتھ ہی فرمایا وترکنا علیہ فی الآخرین اور ہم نے پیچھے آنے والوں کیلئے اسے چھوڑ دیا بطور سنت ابراہیمیؑ کے کہ وہ تاقیامت اس قربانی کی یاد میں قربانی کرتے رہینگے۔

حدیث کا مفہوم ہے کہ امت محمدیہ کو جانور ذبح کرنے کا وہی ثواب ملے گا جو ابراہیمؑ کو بیٹا ذبح کرنے کے بدلے میں ملا تھا کیونکہ حدیث کے مطابق اللہ کا فرمان ہے کہ “انا عندظن عبدی بی” میں اپنے بندے کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں پس اس سلسلے میں ہمارا پختہ گمان ہے کہ ہمیں وہی اجر ملے گا، جسکا ہم گمان کرتے ہیں۔

یہ بات یاد رکھیئے کہ قربانی شعائراللہ میں سے ہے شعائر سے مراد وہ امور ہیں جن سے اسلام کی شان و شوکت ظاہر ہوتی ہے فرمایا ومن یعظم شعائر اللہ فانها من تقوی القلوب (الحج 32) جو آدمی اللہ کے شعائر کی تعظیم کرتا ہے وہ دراصل دل سے اللہ سے ڈرنے والا ہوتا ہے اور آیت نمبر 36 میں فرمایا والبدن جعلنها لکم من شعائراللہ لکم فیها خیر اور قربانی کے اونٹ اور گائے تمہارے لئے ہم نے اللہ کے دین کی یادگار بنائے ہیں۔ ان جانوروں میں تمہارے لئے اور بهی فائدے ہیں۔

اب یہاں تعظیم سے ایک مراد یہ بهی ہوگی کہ قربانی کا جانور بهت اچها اور عمدہ ہو جیسا کہ حدیث میں بهی ہے کہ سمنوا ضحایاکم قربانی کا جانور فربہ کیا کرو یعنی جانور خرید کر اس کی خوب دیکه بهائ کی جائے اپنے ہاتھوں سے اسے کھلا یا پلایا جائے تاکہ جب اسے ذبح کیا جائے تو اس سے مانوسیت کی وجہ سے دل پرچوٹ لگے اور اس منظر سے مشابہت ہوجائے کہ جب ابراہیم اپنا لخت جگر اللہ کی رضا کیلئے قربان کرنے لگے تهے ، اسلام بھی اپنے ماننے والوں میں وہی جزبہ دیکهنا چاہتا ہے کہ اللہ کیلئے اپنی پسندیدہ اور محبوب چیز ایک مسلمان قربان کرنے کیلئے تیار رہے اور پیچھے نہ ہٹے۔ بحرحال قربانی بہت پسندیدہ عمل ہے۔

جیسا کہ آقا کریمؐ نے فرمایا من وجد سعت لان یضح فلم یضح فلایحضرمصلانا جو قربانی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو اور پھر بھی نہ کرے تو اسے چاہئے کہ ہماری عیدگاہ کی طرف نہ آئے چونکہ قربانی کا جانور خریدنے کیلئے رقم خرچ کرنا پڑتی ہے اس لیے یہ مالی عبادت ہوئی مگر یہ عجب مالی عبادت ہے کہ باقی انفاق مالیہ جب تک ملک سے جدا نہ کرو اس وقت تک ادا نہیں ہوتے اور ثواب نہیں ملتا لیکن قربانی کے گوشت کی ایک بوٹی بھی کسی کو نہ دو ساری خود کھا لو تب بھی کچھ فرق نہیں پڑتا اور قربانی کا ثواب مل کے رہتا ہے وجہ یہی ہے کہ یہ عمل یعنی جانور ذبح کرنا اللہ کو بہت زیادہ پسند ہے کہ اسکے خلیل علیہ السلام کی سنت ہے اور اللہ کا وعدہ ہے وترکنا علیہ فی الآخرین ہم نے پیچھے آنے والوں پر اس بطور آپکی سنت کے لازم قرار دیا ہے ……

پس قربانی کرتے ہوئے دکهلاوا مقصود نہ ہو بلکہ اخلاص اور تقوی کی بنیاد پر کی جائے کیونکہ ارشاد خداوندی ہے لن یال اللہ لحومها ولا دمائها ولکن ینالہ التقوی منکم. …اللہ کو اس قربانی کے جانور کا گوشت اور خون نہیں چاہیئے بلکہ اللہ کو تو اس عبادت کے پیچهے موجود تمہارا تقوی مطلوب ہے کہ تم اللہ کی محبت میں یہ سب کچه کر رہے ہو ،اللہ کریم ہم سب کو دل کے تقوی کے ساته اس عظیم عمل کو کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں