Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
360

⁨کنویں کے مینڈک

جون کا مہینہ تھا ۔ سخت گرمی تھی اور تالاب میں پانی خشک ہونا شروع ہوگیا تھا ۔ تالاب کے مینڈک پریشان تھے ایک تو سخت گرمی کی وجہ سے پانی ختم ہونے کی حد تک پہنچ چکا تھا اور دوسری پریشانی یہ تھی کہ کوے اور بگلے مینڈکوں کا شکار کر کے خوب عیاشی کر رہے تھے ۔ لگتا تھا کہ کوے اور بگلے آپس میں مقابلہ کر رہے ہیں کہ کون کتنے میڈک کھائے گا اسی لیے وہ ایک مینڈک کو پکڑتے اور تھوڑا سا کھا کر پھنک دیتے اور ایک نیا پکڑ لیتے۔ ایک کچھوا جو دور ایک پتھر کے ساے میں بیٹھ کر یہ فضول خرچی دیکھ رہا تھا ۔ اور بے چارے مینڈکوں کے ساتھ ظلم دیکھ کر کووں اور بگلوں سے بات کی مگر وہ کہاں سنتے تھے۔ کووں کو اپنے کالے رنگ پر غرور تھا اور اپنی ہوشیاری اور اڑنے کی مہارت ہر فخر تھا ۔ سب کووں نے مل کر کچھوے کوخوب ڈانٹا اور اسکو تالاب بدر کرنے کی دھمکی بھی دے دی۔خبردار اگر کووں کے معاملے دخل اندازی کی ۔ تم رینگ رینگ کر چلنے والے اور ہم ہواوں کے کالے بادشاہ ہیں۔ ہم کو سکھاوگے۔ کچھوا بیچارا خاموش ہوکر رہ گیا۔

بگلے کہاں سنتے تھے انکو اپنے سفید رنگ اور خوبصورتی اور نفاسط پر ناز تھا ۔جب کچھوا بات کرنے کے لیے نزدیک جاتا تو بگلا بات سنے بغیر ہی ہوا میں تیرتا ہوا دوسری جگہ جا کر بیٹھ جاتا ۔ کچھوے کی یہ حیصیت کہ ہم بگلوں سے بات کرے ۔

ان تمام مینڈکوں میں ایک بوڑھا اور تجربے کار مینڈک تھا جس نے یہ موسم کے اتار چڑھاو دیکھے ہوئے تھے۔ اور یہ بھی معلوم تھا کہ کووں اور بگلوں سے کس طرح بچنا تھا۔ وہ اپنی زندگی میں کئی بار مرتے مرتے بچا تھا ۔ اس لیے وہ ہمیشہ جب تالاب میں پانی کم ہوجاتا تو چھپکر رہتا تھا۔

جون سے جولائی شروع ہوگیا اور تالاب میں پانی ختم۔ ہوچکا تھا بہت سے میڈک پرندوں کی خوراک بن چکے تھے اور بوڑھے مینڈک کو اب اپنی جان بچانے کی فکر تھی وہ سوچتا کہ کب تک چھپے گا ۔بار بار آسمان کی طرف دیکھتا کہ شائد بارش کا امکان ہو۔ اگر تالاب میں دوبارہ پانی بھر جاے تو زندگی بچ سکتی تھی مگر ایسا نہیں لگ رہا تھا۔

اب جب کوئی تدبیر کام نہ آئ تو بوڑھے مینڈک نے خشک تالاب کو خیرباد کہنے کا سوچا ۔ مگر دن میں اگر وہ اپنی پناہ گاہ چھوڑتا تو زندگی سے جاتا اور یہ اسکو معلوم تھا ۔ اس لیے مینڈک نے سوچا کہ اگر رات کے اندھیرے میں نئے تالاب کی تلاش میں نکلوں تو بگلوں اور کووں سے بچ جائے گا۔ اب بوڑھے مینڈک نے رات کے اندھیرے میں اپنےسفر کی تیاری کرلی اور بےتابی سے سورج غروب ہونے کا انتظار کرنے لگا۔

سورج غروب ہوچکا تھا پرندے اپنے گونسلوں میں پہنچ چکے تھے ہر طرف سے حشرات کی آوازیں آرہی تھیں ۔مینڈک نے باہر نکل کر ادھر ادھر دیکھا اور ایک آہ بھری۔ اب وہ اپنا ٹھکانہ چھوڑ کر جا رہا تھا یہاں پر وہ پیدا ہوا یہاں پر اس کا بچپن گزرا ۔ یہاں پر وہ برسات کے موسم خوب کھیلتا اور دن رات گیت گاتا اور دوسرے مینڈکوں کے گیت سنتا تھا کئی قسم اور نسل کے مینڈک تالاب میں رہتے تھے ہر مینڈک اپنی مرضی کی زندگی گزارتا ۔سب مینڈک مل کر رہتے کسی کو دوسرے مینڈکوں پر کوئ اعتراض نہ تھا کہ کون اچھا ہے اورکون برا ہے ایک گیت گانا شروع ہوتا تو دوسرا اور تیسرا اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے مینڈک ایک سماں باندھ دیتے۔

کتنا مشکل ہوتا ہے اپنا گھر چھوڑنا۔ کتنا مشکل ہوتا ہے اپنے بچپن کی جگہ چھوڑنا یہ سوچ ہی رہا تھا کہ آنکھوں سے ایک آنسو گرا اور خشک پیاسی زمین میں جزب ہوگیا۔

آب مینڈک ایک سمت کی طرف چل پڑا زندگی میں کبھی پہلے اس نے اس طرح کا سفر نہیں کیا تھا ۔ضرورت ہی نہیں پڑی تھی بغیر وجہ سے کون چھوڑتا ہے اپنا گھراور وطن ۔ ۔سخت اندھیرا تھا کچھ نظر نہیں آرہا تھا پھر مینڈک آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ راستے میں کئی رکاوٹیں آتی ۔ کئی بار گڑھے میں گر گیا ۔ بڑی مشکل سے رکاوٹیں عبور کرتا جارہا تھا اور آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ کافی دیر چلتا رہا کوئ پانی کا نام و نشان نہ تھا اندھیرے میں دوسرے جانوروں کا بھی خطرہ تھا ۔کیا میں نے محفوظ جگہ چھوڑ کر صحیح فیصلہ کیا ہے کئی بار اس کے ذہن میں سوال اٹھے کئی بار سوچا کہ واپس لوٹ جاے مگر قدم خودبخود آگے بڑھتے جا رہے تھے۔

بہت دیر سے چل رہا تھا بھوک پیاس اور تھکاوٹ اب اپنا اثر دکھانا شروع ہوگئی تھی ۔ کئی بار رک کر ادھر اُدھر دیکھتا کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی اور کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ انجانی منزل کی طرف قدم بڑھ رہے تھے کہ اچانک کچھ آوازیں سنائی دیں یہ جانی پہچانی آوازیں تھیں ۔ یہ تو مینڈکوں کی آوازیں تھیں۔ جس سمت سے آوازیں آرہی تھیں مینڈک اس سمت چلنا شروع ہوگیا ۔

آوازیں قریب تر ہو رہی تھیں مینڈک جلدی جلدی چلنا شروع ہوگیا اب آوازیں قریب تھیں مگر گہرائی سے آوازیں آرہی تھیں ۔ یہ ایک کنواں تھا جو انسانوں نے پانی کے لیے کھودا تھا کافی گہرا تھا۔

احتیاط سے آگے بڑھ کر دیکھا تو گہرائی سے پانی کی چمک اور خوشبو آرہی تھی دوسرے مینڈکوں کی آوازیں ادھر سے آرہی تھیں۔ بوڑھا مینڈک بھوک اور پیاس سے تقریبً نڈھال ہو چکا تھا ۔ اسکا تھوڑا سا اور آگے بڑھنا تھا کہ پھسل کر کنویں میں جا گرا ۔ چند لمحوں میں وہ بلندی سے گہرائ کی طرف جا رہا تھا ۔ ان چند لمحوں میں ڈر کے ساتھ بہت سے خیالات ذہن میں آے۔ شائد یہ اب موت کا وقت قریب آگیا ہے۔ وہ موت جس بچنے کے لیے اپنا خشک تالاب چھوڑا تھا۔

اب مینڈک کنویں کی گہرائ میں پانی میں پہنچ چکا تھا۔ ہر طرف اندھیرا تھا دوسرے مینڈک جوکہ کنویں میں موجود تھے خاموش ہو گئے تھے

اندھیرے کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آرہا تھا ۔ وہ تیر کر ایک طرف بڑھا کنویں کی دیوار کے ساتھ ٹکرایا اس طرح کئی بار ادھر ادھر تیرتا رہا آخر کر تھک کر دیوار کا سہارا لے کر رک گیا ۔ کافی دیر ایک جگہ بیٹھا رہا اور طرح طرح کے خیالات ذہن میں جارہے

اب اندھیرے کی جگہ روشنی نے لینا شروع کردی تھی مگر پھر بھی اس طرح روشنی نہ تھی جو ہونی چاہئے تھی مگر مینڈک کی آنکھیں اس ہلکی روشنی کی عادی ہوچکی تھیں ۔ اب سب کچھ صاف نظر آرہا تھا ۔ کنویں میں بوڑھا مینڈک اکیلا نہ تھا یہاں پر اور بھی مینڈک تھے جو کہ کنویں کی دیوار کے سوراخوں میں بیٹھے ہوئے تھے ۔دیوار میں کئی سوراخ تھے اور ہر سوراخ میں مینڈکوں کا ایک ایک گروپ بیٹھ کر بوڑھے مینڈک کو گھور رہا تھا۔ کوئ مینڈک قریب نہیں آرہا تھا سب کے سب خاموش تماشائی کی طرح نئے مینڈک کو دیکھ رہے تھے۔ آخر کار بوڑھے مینڈک نے ہمت کرکے ایک گروپ کے پاس گیا اور اپنا تعارف کرایا اور اپنا ماجرا سامنے رکھا کہ کس طرح وہ یہاں پہنچا ہے ۔

کنویں کے سارے مینڈک بڑے تجسس سے بوڑھے مینڈک کا قصہ سن رہے تھے۔ بوڑھا مینڈک بات کرتے ہوئے کبھی ایک گروپ کے پاس جاتا تو کبھی تیر کر دوسرے کے گروپ کے پاس جاتا۔ سب مینڈک خاموشی سے سارا واقع سن رہے تھے اور انکی خاموشی کوئی عام سی خاموشی نہ تھی ۔ بوڑھے مینڈک کو کچھ عجیبب سا لگ رہا تھا ۔ واقعہ سننے کے بعد پھر خاموشی ہوگئی۔

اچانک ایک گروپ سے ایک بھاری آواز والے مینڈک نے بوڑھے مینڈک سے پوچھا تم کونسے گروپ سے تعلق رکھتے ہو۔ کیا مطلب، کیا مینڈکوں کے بھی گروپ ہوتے ہیں ؟ بوڑھے مینڈک نے تعجب سے پوچھا ۔

ہاں یہاں پر ہمارے کافی گروہ ہیں۔ اور صرف وہی سچا ہے جو ہمارے گروپ کے ساتھ ہے۔ صرف وہی اصلی مینڈک ہے۔ باقی سب دائرہ مینڈک سے خارج ہیں۔ اور انکو جینے کا کوئ حق نہیں۔ بوڑھے مینڈک تو جیسا کہ گونگا ہوگیا ہو ۔ یہ بات اسکے سمجھ سے باہر تھی کہ یہ کیا کہہ رہا ہے ۔ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک اور گروہ میں سے آواز آئی یہ جھوٹا ہے باقی سارے جھوٹے ہیں صرف ہمارا گروہ سچا ہے۔ ہمارے پاس ثبوت ہیں جو ہم میں سے نہیں وہ مینڈک برادری سے باہر ہے اور اسکو مار دینا چاہیے۔ اب ہر طرف سے منہ پھاڑ پھاڑ کر آوازیں آرہی تھیں تم جھوٹے ہو، وہ جھوٹے ہیں۔ تم دائرہ مینڈک سے خارج ہو ۔ کچھ جزباتی مینڈک تو اپنے اپنے سوراخ سے گود کر باہر آگئے اور خوب ایکدوسرے کو مارا ۔طوفان بدتمیزی تھا کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ جب سب چیخ چیخ کر تھک گئے تو خاموشی ہوگئی ۔ بوڑھا مینڈک ایک طرف چھوٹی جگہ تلاش کر کے بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ کہا پہنچ گیا ہے ۔یہ ایک دوسرے سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں ۔ سب کے سب تو مینڈک ہی تو ہیں۔ بحرحال سب کچھ سمجھ سے باہر تھا۔ رہ رہ کر اسکو اپنا تالاب یاد آرہا تھا جہاں پر سب مل جل کر رہتے تھے۔

دن گزر رہے تھے ہر گروہ اس کوشش میں تھا کہ بوڑھا مینڈک انکے گروہ میں مل جاے اور دوسرے گروہوں سے نفرت کرے۔ مگر بوڑھا مینڈک کسی اور دنیاں سے تھا ۔ کنویں کے منڈکوں کی دنیاں اور تھی۔ جہاں نفرت، تشدد ، تعصب روزمرہ کی زندگی کا حصہ تھا۔ آئے دن مختلف گروپوں میں نفرت آمیز تصادم ہوتا رہتا تھا۔

بوڑھے مینڈک کو رہ رہ کر اپنا تالاب اور دوسرے تالاب کے رہاشی یاد آتے جو پیار و محبت سے رہتے۔ جہاں نفرت کا نام ونشان نہ تھا ۔اکثر کنویں کے درمیان جا کر اوپر کنویں کے کنارے کی طرف دیکھتا۔ کنویں کی دنیاں کتنی چھوٹی تھی ۔آسمان کتنا چھوٹا لگتا تھا ۔ کنویں کے مینڈکوں کی سوچ بھی کنویں کی طرح چھوٹی تھی۔ اس نفرت بھری دنیاں میں رہنے سے تو بہتر تھا کہ وہ کووں اور بگلوں کے منہ کا نوالہ بن جاتا۔

کوئی گروہ بوڑھے مینڈک کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ بوڑھا مینڈک اکیلا ایک کنارے میں بیٹھ کر کنویں کے مینڈکوں کی نفرت بھری باتیں سنتا اور انکو سمجھانےکی کوشش کرتا مگر یہ سب گروہ نفرت میں اتنے آگے جا چکے تھے کہ ایکدوسرے کو دیکھ نہیں سکتے تھے۔

اب بوڑھا مینڈک نفرت کی دنیاں سے بیزار ہوچکا تھا ۔ روزانہ کنویں کے درمیان آجاتا اور اوپر آسمان کی طرف دیکھتا رہتا جوکہ بہت چھوٹا نظر آتا ۔ کیا میں اس نفرت کی دنیاں سے نکل سکوں گا۔ کیا میں اپنے تالاب کے کھلے پانی میں نہا سکوں گا؟ کنویں سےباہر نکلنا اسکے بس کی بات نہ تھی بوڑھا مینڈک مایوس ہوچکا تھا۔

کنویں کی گہرائ میں ایک چھوٹے سے سوراخ میں مایوس بیٹھ کر اپنے خیالوں میں گم تھا کہ کچھ جانی پہچانی آوازیں کنویں کی گہرائ تک پہنچیں۔ یہ آوازیں اوپر سے کنویں کے باہر سے آرہی تھیں ۔ یہ مینڈک کی آوازیں نہ تھیں بلکہ انسانوں کی آوازیں تھیں۔ جو کہ کنارے پر بیٹھ کر نیچے دیکھ رہے تھے۔

بوڑھا مینڈک خوشی سے اچھل کراپنے سوراخ سے باہر نکل کر کنویں کے درمیان میں آگیا اوپر کنارے کی طرف دیکھ کر خوش ہو رہا تھا۔ اسکو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھاکہ اوپر کنارے پر بیٹھے انسان رسی بندھے برتن کے ساتھ پانی نکال رہے تھے۔ بار بار ایک برتن نیچے آتا اور پانی سے بھرا واپس اوپر کینچھ لیا جاتا۔

اب بوڑھے مینڈک کے پاس موقع تھا کہ اس نفرت کی دنیاں سے باہر نکل کر دوبارہ اپنے تالاب پہنچ جائے۔ اب پھر رسی سے بندھا برتن کنویں کے پانی میں گرا بوڑھا مینڈک تیار تھا جونہی برتن میں پانی بھرناشروع ہوا مینڈک پانی کے ساتھ برتن میں پہنچ گیا ۔ اب بوڑھا مینڈک نفرت کی دنیاں سے باہر آرہا تھا ۔ اندھیرے سے روشنی میں جارہا تھا۔ جوں جوں اوپر جارہا تھا دل کی دھڑکن تیز ہو رہی تھی۔

بوڑھا مینڈک اب کنویں سے باہر تھا۔ نفرت کی دنیاں سے باہر تھا تعصب اور تنگ نظری سے دور تھا۔ بوڑھے مینڈک نے خود سے وعدہ کیا کہ وہ اپنے تالاب میں پہنچ کر رنگ و نسل، سوچ سے بالاتر ہوکر تما مینڈکوں کی خدمت کرے گا۔ اور اپنے تالاب کو کبھی کنویں کے مینڈکوں کی طرح نہیں ہونے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں