آج صبح یورپ میں سو کر اٹھنے والوں نے روٹین کے برعکس ایک گھنٹہ زیادہ سویا ہے، کیونکہ رات دو بجے تمام یورپین ممالک کی گھڑیوں پر دوبارہ ایک بج گیا تھا، یعنی ایک گھنٹہ وقت پیچھے ہوگیا تھا۔ اب یورپ اور پاکستان کے اوقات میں چار گھنٹے کا فرق ہوگیا ہے، گرمیوں میں یہی فرق تین گھنٹے کا ہوتا ہے، برطانیہ چونکہ یورپ سے ایک گھنٹہ پیچھے ہے اس لئے برطانیہ اور پاکستان کے اوقات کا فرق اب پانچ گھنٹے ہوگیا ہے، گرمیوں میں یہی فرق چار گھنٹے ہوتا ہے۔ وقت کی یہ تبدیلی دن کی روشنی کو زیادہ سے زیادہ کارآمد بنانے کیلئے کی جاتی ہے۔
یورپ میں جرمنی پہلا ملک تھا جب 1916 میں اس نے اپنے شہریوں کیلئے دن کی روشنی کو زیادہ سے زیادہ کارآمد بنانے کیلئے مارچ کے آخری اتوار کو ایک گھنٹہ وقت آگے کیا تھا، جسے اکتوبر کے آخری اتوار کو واپس پہلے والی جگہ پر آنا تھا، جلد ہی وقت کی تبدیلی کا یہ قانون یورپ کے زیادہ تر ممالک اور امریکہ سمیت باقی دنیا میں بھی پھیل گیا، جہاں زیادہ تر یورپین ممالک نے اسے اپنے قانون کا حصہ بنایا وہیں پہلی جنگ عظیم کے دوران امریکہ میں بھی یہ قانون کا حصہ بن گیا، لیکن کچھ امریکی ریاستوں میں شہریوں نے اس قانون کو زیادہ پسند نہیں کیا، اور یہی وجہ تھی کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ریاست ہوائی اور ایریزونا کے زیادہ تر حصے میں یہ قانون ختم کردیا گیا تھا۔
روس نے اپنے شہریوں کی کام کے دوران بہتر کارکردگی بنانے کیلئے 2011 میں اس قانون کو ختم کر کے گرمیوں کے وقت کو پرماننٹ بنا دیا تھا، لیکن 2014 میں شہریوں کی بیشمار شکایات وصول ہونے کے بعد ملک میں مکمل طور پر سردیوں کا وقت لاگو کر دیا گیا تھا۔
یورپین یونین میں برطانیہ کے انخلاء کے بعد کل ستائس ممبر ممالک ہیں، برطانیہ نے اعلان کیا ہے کہ یورپین یونین سے نکلنے کے عمل یعنی بریگزیٹ کے بعد بھی موسمیائی وقت کی تبدیلی کا قانون ایسے ہی لاگو رہے گا، جبکہ یورپین پارلیمنٹ میں اکثریت کے ساتھ وقت کی تبدیلی کے قانون کو ختم کرنے کا بل پاس ہوگیا ہے، اور دو سال بعد یعنی 2021 سے اس قانون کو ختم کر دیا جائے گا اور ممبر ممالک کو اختیار حاصل ہوگا کہ وہ اپنی مرضی سے جس مرضی وقت کا انتخاب کر لیں۔ سیکنڈی نیوین ممالک یورپ کے شمال میں واقع ہونے کی وجہ سے یہاں کے شہری وقت کی تبدیلی کے حق میں ہیں، جرمنی فرانس جیسے ممالک چونکہ یورپ کے سنٹر میں واقع ہیں اس لئے یہاں کے شہری وقت کی تبدیلی کے حق میں نہیں ہیں، اور وقت کی تبدیلی کیلئے لوگوں کی رائے جاننے کیلئے جتنے بھی سروے کئے گئے ہیں، ان میں سے زیادہ تر جرمنی میں کئیے گئے ہیں، لیکن ان ممالک میں آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے یورپین پارلیمنٹ میں انکی نشستیں بھی زیادہ ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ سیکنڈی نیوین ممالک کی مخالفت کے باوجود وقت کی تبدیلی رد کرنے کا قانون یورپین پارلیمنٹ میں پاس ہوگیا ہے، لیکن ابھی یہ قانون نافذ نہیں ہوا، اسکے لئے ممبر ممالک میں بحث ہونا باقی ہے، اسی لئے دو سال کا وقت دیا گیا ہے، جو ممبر ممالک اس تبدیلی کے خلاف ہونگے وہاں یہ قانون لاگو رہے گا اور جو ممبر ممالک اسے ختم کرنے کے حق میں ہونگے وہاں یہ قانون ختم کر کے شہریوں کی سہولت کیلئے ایک فکسڈ وقت مقرر کر دیا جائے گا۔
#طارق_محمود