دونوں فلسطینی طالب علموں کے جانے کے بعد مسجد اقصیٰ کے صحن میں موجود ایک صاحب نے ہمیں بتایا کہ اصل مسجد اقصیٰ چھوٹی تھی اور اب نئی عمارت کے نیچے زیرِزمین موجود ہے۔ مسجد اقصٰی کی عمارت کے بڑے درمیانی دروانے سے تھوڑے بائیں جانب ایک سیڑھی نیچے اُتر رہی تھی، جس کے سامنے الااقصٰی القدیم ، المکتبہ الختنیہ لکھا تھا۔ ختنہ کا مطلب عربی میں نہ جانے کیا ہے، لیکن ہمارے نزدیک اُردو میں ختنے کرنے سکھانے کا سکول ہی بن رہا تھا، جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ مسجد اقصٰی کے صحن اور گردونوا میں مرد اور عورتیں سب مل کر مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی طرح اکٹھے گھوم رہے تھے، لیکن عورتوں کے نماز ادا کرنے کی جگہ ہر مسجد میں علیحدہ ہی تھی۔
صحن میں ہر مذہب کے سیاح بھی نظر آرہے تھے لیکن نماز کے وقت اُن کو ہٹا دیا جاتا تھا۔ جب ہم سیڑھیاں اُتر کر اقصٰی القدیم کے دروازے پہ پہنچے تو وہاں بھی خواتین اندر باہر آجا رہی تھیں۔ہم جوتے اُتار رہے تھے کہ حمزہ بھائی کی طرف ایک فلسطینی حسینہ نے مسکرا کر دیکھا تو وہ رُک کر اُس سے باتیں کرنے لگے۔ پتہ نہیں وہاں لڑکیوں کو حمزہ بھائی میں کیا نظر آتا تھا کہ آسانی سے اُن سے ہنس ہنس کر باتیں شروع کردیتی تھیں۔ یہ راز بعد میں کُھلا کہ اکثر فلسطینی لڑکے لڑکیاں پڑھے لکھے ہیں اور باآسانی انگلش میں گفتگو کر لیتے ہیں اورلڑکیاں حجاب اور پردے کے باوجود بلا خوف وخطرنہایت تمیز اور خوش مزاجی سے بات کر لیتی ہیں۔ چونکہ اسرائیلی حکومت نے عورتوں کیلئے بالکل یورپی طرز پہ قوانین بنا دئیے ہیں اسلئیے اگر کوئی اُن کے ساتھ بدتمیزی کرے تو سخت سزا ملتی ہے۔
مسجد اقصٰی القدیم کے دروازے پہ ملنے والی لڑکی کا نام حباء تھا، اُسکی عمر چالیس کے قریب تھی اور وہ غزہ کی رہنے والی تھی اور انگلش بہت اچھی بول رہی تھی۔ غزہ کا نام سُن کر ہم رُک گئے کیونکہ غزہ کی پٹی میں حماس کی فلسطینی حکومت ہے، جسے دنیا نہیں مانتی اور اسرائیل نے تین طرف سے اور مصر نے چوتھی طرف سے غزہ کا محاصرہ کیا ہوا ہے، نہ کوئی اسکے اندر جاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی باہر نکل سکتا ہے، یہ اکتالیس کلومیٹر لمبی اور چھ سے بارہ کلومیٹر چوڑی پٹی ہے، جس میں دو ملین فلسطینی رہتے ہیں، جو بائیکاٹ کی وجہ سے بہت زیادہ مصائب کا شکار ہیں۔ غزہ کی پٹی اس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا گنجان ترین علاقہ ہے، جہاں ایک مربع کلومیٹر میں چھ ہزار انسان رہتے ہیں، عملی طور پر اس تنگ سی پٹی میں دو ملین انسانوں کا اکھٹے رہنا بہت مشکل ہے، اور اگر موجودہ رفتار سے انکی آبادی یوں ہی بڑھتی گئی تو سال دو سال تک وہاں رہنا ناممکن ہوجائے گا۔ یہاں کے فلسطینی ہر وقت جہاد کیلئے تیار رہتے ہیں، انکے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہے، لہذا انکا کام لڑنا اور بچے پیدا کرنا ہے۔ یہ لوگ سمندر سے مچھلی پکڑ کر کھاتے ہیں اور زندہ ہیں، ان میں اکثریت سنی مسلمانوں کی ہے۔ بائیکاٹ کی وجہ سے یہاں خوراک اور ادویات کی ہمیشہ قلت ہی رہتی ہے، شدید ترین بیمار عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو اسرائیل اپنے شہروں میں علاج معالجے کی سہولت دیتا ہے، لیکن اٹھارہ سال سے لیکر پچپن سال تک کے مردوں کا اسرائیل میں داخلہ منع ہے۔
حباء نے بتایا کہ اسکی بیٹی بہت بیمار ہے اس لئے اُسکو یروشلم میں آکر علاج کروانے کی اجازت ملی ہے ورنہ غزہ سے آنا اور جانا تقریباً ناممکن ہے۔ وہ بے چاری تین مہینے سے یہاں ایک ہسپتال میں بیٹی کے ساتھ رہ رہی ہے۔یہ سُن کر میں نے حمزہ بھائی کو کہا کہ اسکی کوئی مالی مدد کر دیں۔ حمزہ بھائی نے کچھ پیسے نکال کر اُسکو دئیے تو اُس نے ہچکچاتے ہوئے بہت اصرار پر لے لئے ۔اُسکی آنکھوں میں تشکر اور منہ پہ شکریہ دیکھ کر دِل کو بہت سکون مِلا۔اِس کے ساتھ ہی ہم جوتے اُتار کر مسجد کے اندر داخل ہوئے۔ یہ ایک ایسی مسجد تھی جیسے ایک لمبی سی گلی ہو۔ جب اندر گئے تو اِسکے ساتھ بھی ایک اُتنی لمبی سی گلی تھی اور آگے جاکر تین چار سیڑھیاں مزید اُتر کر تین پُرانے ستون تھے اُن کے بارے میں یہ بتایا گیا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے جنات نے بنائے تھے ۔ ساتھ ہی ایک محراب تھی ۔ جو متنازعہ ہے کہ یہاں پیارے نبی محمدؐ نے معراج پہ جاتے ہوئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو نماز پڑھائی تھی یا ڈوم آف راک کے باہربھی ایک محراب موجود ہے۔ ڈوم آف راک کی محراب زیادہ سچ لگتا ہے کیونکہ لاکھ سے زیادہ پیغمبروں کا چھوٹی سی اقصٰی القدیم میں سمانا مشکل ہے ۔ ہم نے اُس محراب کے آگے نوافل ادا کیئے اور باہر آگئے ۔
صحن میں ہم کو ایک پاکستانی بھائی مل گئے جو لندن سے بمعہ اہل واعیال آئے تھے اور جوان اور باریش تھے ۔ اُنہوں نے بتایا کہ وہ یہاں آتے رہتے ہیں ۔ اِس بار فیملی کے ساتھ آئے ہیں ۔ اُن کے بتانے پہ ہم نے مسجد ماروانی کارُخ کیا یہ بھی ایک بہت بڑی زیرِ صحن مسجد تھی ۔اب تک ہم تین مساجد اقصٰی کے احاطہ میں زیرِصحن دیکھ چکے تھے ۔نیچے اُترتے ہی ایک چودہ پندرہ سال کا ایک لڑکا جو انگلش بول رہا تھا خود ہی ہمارے ساتھ ہو لیا اور ہم کو مسجد کے مختلف حصے دکھاکر اُن کی ہسٹری بتانے لگا ۔یہ ایک کافی بڑی مسجد ہے جوزیرِزمین بھول بھلیوں کی طرح آگے سے آگے پھیلی ہوئی ہے ۔ وہاں حضرت مریم ؑ کے اعتکاف کی جگی بھی موجود ہے ۔اس مسجد کے ستون زمانہءِ تعمیر کے ہی موجود ہیں ۔ ہم نے کچھ تصاویر لیں ، نوافل ادا کئے اور باہر آگئے ۔ وہ لڑکا بھی کچھ پیسوں کا متمنی تھا لیکن ہمارے پاس کوئی چھوٹا کرنسی نوٹ نہ تھا ۔ اس لئے اُس سے معذرت کر لی تو بے چارے کا منہ اُتر گیا ۔ ہم نے سوچا کل آئے تو کچھ دے دیں گے لیکن ہم اُس سے دوبارہ نہ مل سکے ۔
اِس کے بعد ہم لندن والے بھائی سے معلومات لے رہے تھے کہ عصر کی اذان ہو گئی ۔ جب ہم عصر کی نماز ادا کر کے باہر آئے تو کچھ عرب بیک آواز ایک بڑا رومال بچھا کر اُونچی آواز میں چندے کی اپیل کر رہے تھے ۔ ہمارے استفار پہ بتایا کہ یہ چندا غزہ کیلئے اکٹھا کیا جا رہا ہے ۔ ہم نے کچھ پیسے نذرانہ کئے ۔ حمزہ بھائی پیسے دے کر مڑے تو اُن کی نظریں پھر ایک پاس کھڑی حسینہ سے دوچار ہو گئیں تو وہ مسکرا کر آگے بڑھی۔ حمزہ بھائی نے پوچھا کہ تم کو انگریزی آتی ہے ۔ وہ بولی نہیں لیکن ایک دم بے تاب ہو کر ایک اور لڑکی کی طرف بھاگی اور بولی اِسکو آتی ہے۔ یہ وہی حباء تھی جو ہمیں اقصٰی القدیم کے دروازے پر مل چکی تھی۔ حباء بڑی پُرتپاک ہو کر ہماری طرف آئی اور ہمیں مسجد کے برآمدے سے باہر لے آئی۔ اپنا موبائیل پکڑا کر بولی کہ وہ ہمارے ساتھ ایک تصویر بنوانا چاہتی ہے۔ ہم پاکستان سے ہیں۔ ہم دونوں نے اُن دونوں کے ساتھ تصویریں بنوائیں اسکے بعد حباء نے خود ہی پہلے حمزہ بھائی کو پھر مجھے اپنا وٹس اَپ نمبر دے دیا۔ حمزہ بھائی نے اُسکو پتہ نہیں کیا کیا پوچھ لیا ۔جس کی اُس نے حامی بھر لی اور دوبارہ ملنے کا کہہ کر چلی گئی۔ دوسری لڑکی کا نام بعثینہ تھا۔ وہ پینتیس سال کی تھی اور غزہ سے تھی۔ وہ دونوں اتوار کے روز واپس غزہ جارہی تھیں۔ رات کو حمزہ بھائی سے اور مجھ سے موبائیل پہ ٹیکسٹ کرتی رہی اور ہفتہ کو ملنے کا اور ساتھ کھانا کھانے کا کہا۔ شائد اُسکو مزید مالی مدد کی ضرورت تھی۔ لیکن افسوس ہم دوسرے دِن سارا وقت ٹیکسی لے کرفلسطین کے دوسرے علاقوں میں گھومتے رہے لیکن اُس کو مل کرمزید کچھ نہ دے سکے۔ غزہ جانے کے بعد بھی وہ حمزہ بھائی کو ٹیکسٹ کرتی رہی۔اُس نے بتایا کی اُسکے سات بچے ہیں۔ایک لڑکا چھ لڑکیاں۔سب سے بڑی لڑکی اُنیس سال کی ہو گئی ہے اور اُسکو اُسکی شادی ، باقی بچوں کے کھانے پینے اور تعلیم کی بھی فِکر ہے۔ اِس کے بعد رابطہ نہ ہوسکا۔
وہاں سے چلے تو لندن والے بھائی اُن کا نام جواد تھا شائد، کے ساتھ ہو لئے ۔ ہمارا اگلی منزل یہودیوں کی مشہورِ زمانہ دیوارِ گریہ تھی۔ اِس دیوار کو یہودیوں کا مکہ کہا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ دیوار ہے تو مسجد اقصٰی کی ہی مغربی دیوار جس کےساتھ اندر ہی مسجدِ براق اور مراکو دروازہ ہے جو دیوار کی طرف ہی کھلتا ہے لیکن یہ بند ہے۔ اِس لیئے مسجد اقصٰی کے مغرب کیطرف کے دوسرے تین دروازے باہر جانے کیلئے ہیں ۔ہمیں باب القطانین سے نکل کر بائیں گھوم کر دیوارِ گریہ کی طرف جانا تھا۔ ہم باب القطانین سے باہر نکلے تو وہاں ایک قدیم یروشلم کا بازار تھا جو سوونئیر کی دوکانوں سے بھرا پڑا تھا۔ وہاں پر بہت سے یہودی اپنے روایتی مذہبی لباس اور ٹوپیوں میں دیوار کی طرف جوق در جوق جا رہے تھے۔ہم گزرتے ہوئے بائیں مڑ کر تنگ تنگ گلیوں سے ہوتے ہوئے ایک کنٹرول روم میں پہنچے۔ وہاں سکیورٹی دروازہ اور اسرائیلی پولیس کے مسلح اہلکار موجود تھے۔ وہاں سے نکل کر بائیں مڑے تو سامنے سیڑھیوں سے اُتر کر ایک بہت بڑی اُونچی دیوار تھی جس کے سامنے ہزاروں یہودی کالے کوٹ اور ڈرم نما ٹوپیوں کے ساتھ پورے جوش و خروش سے ہل ہل کر عبادت میں مصروف تھے۔ یہ بھی ایک زبردست منظر تھا، جیسے مسلمانوں کے نزدیک مکہ کی اہمیت ہے، ویسے ہی یہودی دیوار گریہ کو اہمیت دیتے ہیں۔ انسان کس طرح اپنے اپنے عقیدوں میں ڈوبا ہو اہے اور اُسکو اُسی سے سکون ملتا ہے جو اُسے اپنے وراثتی ماحول سے ملتا ہے، لیکن یہ بات انتہا پسندوں کی سمجھ سے باہر ہے، کیونکہ ہر انتہا پسند اپنے اپنے عقیدے کو پھیلانے کے درپے ہے۔
ہم سیڑھیوں سے اُتر کر آگے بڑھے تو لندن والے بھائی بولے کہ میں کئی بار یروشلم آ چکا ہوں لیکن اِس طرف آتے ہوئے ہچکچاتا تھا کہ کہیں یہودی منع نہ کریں یا بُرا سلوک نہ کریں۔ اب آپ کےساتھ پہلی بار آیا ہوں تو علم ہوا کہ یہاں تو بہت سکون کا ماحول ہے ۔ سب عبادت کرنے والے یہودیوں کے درمیان دوسرے مذاہب کے لوگ اور بے شمار سیاح بھی گھوم رہے ہیں۔ حالانکہ اُنہوں نے سیاحوں کیلئے ایک چبوترہ دیوار سے کافی پہلے بنایا ہوا ہے۔ یہودی خواتین کیلئے دائیں طرف درمیان میں عارضی بندوبست کر کے علیحدہ حصہ بنایا گیا تھا۔ بائیں جانب جہاں سے دیوار کے قریب جاتے ہیں وہاں یہودیوں کی وضو کی ایک جگہ تھی جہاں دو دستیوں والے سٹین لیس سٹیل کے برتن رکھے تھے۔ ہر یہودی وہاں آکر ایک خاص طریقے سے ہاتھ دھو رہا تھا۔ ساتھ ہی ایک میز پہ سفید کپڑے کی یہودی طرز کی چھوٹی چھوٹی بہت سی ٹوپیاں موجود تھیں ۔ جو کوئی دوسرے مذہب کا دیوار کے پاس جانا چاہے اُسکو بالحاظِ احترام یہ ٹوپی پہننے کی درخواست کی گئی تھی لیکن زبردستی کوئی نہ تھی۔ ہم نے بھی ازراہ ِ ادب وہ ٹوپیاں سر پر رکھ لیں۔
( جاری ہے )