Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
249

ولایت ایک خواب یا حقیقت۔

جس ولایت کا مُجھے علم ہے اُسکا حُصول تو عین مُمکن بھی ہے اور اُسکا دروازہ ہر خاص و عام کے لیے کھُلا ہے۔
اگر کوئی ولایت چاہتا ہے تو ولی بننے کا طریقہ سمجھ لے۔ یہ بہت آسان ہے لیکن اس کے لئے نماز دوبارہ سیکھنی ہو گی۔ پھر ویسی چالیس نمازیں پڑھنی ہوں گی۔

نماز ہی سے کوئی بھی مرد عورت، امیر غریب، کالا، گورا، چھوٹا اور بڑا کسی بھی حلال پیشے سے منسلک فرد ولی بن سکتا ہے، لیکن معراج کے سفر والی چالیس نمازیں تو پڑھنی ہی ہوں گی۔

کوئی بھی سفر شروع کرنے کا ارادہ کرتے ہی آپ خود کو سواری میں موجود نہیں پاتے, بلکہ اپنا سامان لے کر سواری تک جاتے ہیں .

بالکل ایسے ہی اس عظیم معراج کو شروع کرنے سے پہلے کی بھی ایک تیاری ہے جس کے بغیر معراج ممکن نہیں اور وہ نماز کی نیت ہے۔

بدقسمتی سے نماز کی اصل نیت کروڑوں میں سے چند لوگ ہی جانتے ہوں گے، ہمیں جو نیت سکھائی جاتی ہے وہ نہ سنت میں کہیں ملتی ہے نہ قرآن میں۔

نماز کی اصل نیت سورہ الانعام کی اناسیویں آیت ہے جو کچھ ایسے ہے۔

اِنِّىْ وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِيْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۔

ترجمہ: مکمل یکسو ہو کر میں نے اپنی توجہ کو اس ذات پر مرکوز کر لیا ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہونگا۔

ولی کی نماز یعنی معراج کی تیاری یہ نیت ہے،

وہ زبان سے یہ الفاظ ادا کرے یا نہ کرے نماز سے پہلے خود کو زیرِ لب یہ بتاتا ہے کہ میں ساری دنیا سے کٹ کر اس ذات کے حضور ہوں جو سب آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے

جیسے ہی وہ یہ الفاظ دہراتا ہے اس کے ذہن میں آسمانوں کا نقشہ دوڑ جاتا ہے۔

ہم تو ایک ہی آسمان کی وسعت سے بھی واقف نہیں جس میں ابھی تک کی معلومات کے مطابق بیس لاکھ ارب سے زیادہ کہکشائیں ہیں۔

یعنی بیس لاکھ ارب سے زیادہ سورج اور ہر سورج کے گرد گھومتے ستارے، سیارے۔

بیس لاکھ ارب کہکشاؤں میں ہماری کہکشاں ریت کے ایک ذرے جتنی ہے

اور ہماری کہکشاں میں ہماری زمین کی حیثیت ایک ذرے جیسی ہے

اور اس زمین کی اربوں مخلوقات میں سے ایک میں بھی ہوں جو زمین میں ایک ذرے سے بھی کم حیثیت ہوں اور اس سے ملنے جا رہا ہوں جس نے یہ سب پیدا کیا ہے۔

جیسے ہی ولی کے ذہن میں نیت کے دوران یہ نقشہ آتا ہے اسکی ساری انا غرور اور خودی بھک سے اُڑ جاتی ہے،

پھر جیسے ہی وہ نیت یعنی اوپر دی گئی آیت کا اگلا حصہ دہراتا ہے اسکے دل سے اتنے عظیم پیدا کرنے والے کے سامنے حاضری کے تصور سے ہر قسم کا شرک نکل جاتا ہے۔

ظاہر ہے ایسا کیا ہو سکتا ہے جو اتنی عظیم کائنات کے پیدا کرنے والے سے بڑا ہو

اسکے ہاں موجودگی کا احساس اس کے دل سے ہر غیر خدا کا خوف اور ماضی کے ہر غم کو نکال دیتا ہے۔

نیت کے ساتھ ہی نمازی ایک خاص ذہنی حالت میں آجاتا ہے اور پھر اپنی کیفیت کا اظہار دل سے نکلے ہوئے اللہ اکبر سے کرتا ہے اور نماز شروع کرتا ہے۔

اسے الحمد شریف کے ایک ایک لفظ کی سمجھ ہے،

وہ اللہ کے شکر سے شروع کرتا ہے اور پھر قرآن کی تلاوت کرتا یا سنتا ہے۔

نماز کے اختتام تک سنا یا بولا گیا ہر لفظ اُسے ہر لفظ کے معنی اور تشریح سمیت اگر سمجھ آتا ہو تو وہ الفاظ نمازی کے لاشعور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

چونکہ نیت کے دوران ہی وہ ایک طرح کے ٹرانس کی کیفیت میں آجاتا ہے لہذا نماز کے دوران سنی گئی یا پڑھی گئی تمام آیات و تسبیحات اس کے لاشعور پر ویسے ہی اثر کرتی ہیں جیسے کسی ماہر ِ نفسیات کی ہدایات کسی مریض پر اس وقت اثر کرتی ہیں جب ماہرِ نفسیات نے اسے ہیپنا ٹائز کیا ہو۔

ولی تو جو آیات و تسبیحات نماز کے دوران پڑھتا یا سنتا ہےان کا مطلب جانتا ہے

لیکن ایک عام نمازی جسے نہ تو سورہ فاتحہ کا مطلب اپنی زبان میں سمجھ آتا ہو نہ اتحیات کا اور نہ دیگر تسبیحات کا،

وہ اگر ٹرانس کی کیفیت میں آبھی جائے تب بھی اس کے لاشعور میں اللہ کے قوانین کا علم راسخ نہ ہوگا۔

یعنی اس نے نماز کا جسم تو حاصل کیا لیکن روح سے محروم رہا

اور روح کے بغیر جسم لاش کے علاوہ کیا ہے۔۔

جسے اللہ کے قانون کا علم ہو اُسکا ایمان ہوگا کہ قُرآن کے بقول اللہ اُتنا ہی دیتا ہے جسکی کوشش کی جائے

اور اُسکا قُرآن کےاس قول پر بھی ایمان ہوگا کہ اللہ کسی کی حالت نہیں بدلتا جب تک کوئی خود اپنی حالت بدلنے کی بھرپور کوشش نہ کرے۔

یعنی نمازی کی روح پر اُترے اللہ کے قوانین اُسے پریکٹیکل اورمحنتی انسان بنا دیں۔

اُسے چونکہ اللہ کی اپنے ساتھ موجودگی کا احساس بھی ہو گا لہٰذا وہ ناکامی کے خوف کے بغیر صبر سے محنت جاری رکھے گا۔

تبھی نمازی ناکام انسان نہیں ہوتا۔

جس نے نماز قائم کر لی اُسنے اللہ کی صفّات کا ایک معمولی سا عکس اپنی فطرت میں مُنعکس کر لیا۔

ایسی فطرت کے حامل کو ناکامی کیسے مل سکتی ہے۔

نبیﷺ کی زندگی کا ہر لمحہ نماز کا قیام تھا تبھی آپﷺ صرف تیئیس سال میں اللہ کا نظام پُورے خطۂ عرب میں قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔

حالت نماز کا تسلسُل نہ ٹوٹنے دینا ہی وہ بندگی ہے جس کے لیے انسان پیدا ہوا۔

بندگی ہی ولایت ہے

لیکن ہر ایک بندگی نہیں کرتا۔

اکثریت خوف اور غم کا بوجھ پسند کرتی ہے۔

(یہ چند پیر گراف میری کتاب کے نماز کے باب سے ترجُمہ کیے گئے ہیں۔ رضوان خالد چوھدری

۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے۔۔۔۔۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں