پولیس گردی اور ظلم و جبر سے کوئی محفوظ نہیں رہا۔ بالخصوص وہ طبقہ جس نے ہمیشہ پولیس کو اپنا زر خرید غلام سمجھا۔ لوگوں پر جھوٹے مقدمات بنوائے اور پھرمیڈیا پر آ کر کہا کہ پولیس میں سپاہی سے لے کر اوپر تک سب بدمعاش ہیں۔ عدالت اخبار، ٹی وی اور عام آدمی جس سے بات کریں وہ سپاہی کی بدمعاشی کی بات کرتا ہے۔ ایک دن اس طرح کا ایک بدمعاش دیکھنے کا مجھے بھی اتفاق ہوا۔
میرے ہمسائے میں ایک صاحب رہتے ہیں کالی وردی پہننے سے پہلے اچھے خاصے خوش شکل اور نارمل انسان تھے۔ شب و روز کا حساب تھا، سب سے ملتے جلتے تھے آنے جانے کی خبرہوتی تھی، شادی بیاہ، مرگ اور خوشی غمی میں بھرپور شرکت سے اپنے ہونے کا ثبوت دیتے تھے۔ مگر جب سے کالی وردی پہنی ہے رنگت بھی وردی جیسی ہو گئی ہے۔ ماتھے کے شکنوں، چہرے کی جھریوں میں اضافہ، شہابی گالوں کی جگہ زردی، آنکھوں کی چمک کی جگہ ویرانی، سرکے بالوں میں مسلسل ٹوپی پہننے سے ہریالی ختم اور بنجر ہوگئے ہیں۔ جسم پھرتیلا کی بجائے بے ڈول ہو چکا ہے، صبح شام کا کوئی حساب نہیں، نہ رحمت کے جنازے پر شامل تھا اور نہ شبیر کے، نہ امجد کی شاد ی پر نظر آیا اورنہ شہزاد کی مہندی پر، عیدین پر بھی کبھی ملاقات نہیں ہوتی۔ اور اگر کبھی کبھار بے وقت گھر آنا ہواور اچانک سرراہ ملاقات ہو جائے تو اس کے انگ انگ سے زندگی سے تنفراور بے زاری ٹپکتی نظر آتی ہے۔ مردم بیزاری تو ہے ہی ۔
سپاہی علی احمد کی بدمعاشی اس وقت شروع ہوئی، جب وہ دسمبرکی یخ بستہ سردی میں، جہاں دھند کی بدولت حد نگاہ صفر تھی بغیر ناشتہ کئے، نیلی جیکٹ پہنے، جوکل ہی لنڈے بازار سے ساڑھے چھ سوروپے میں اس نے خریدی تھی۔ کیونکہ سرکار اس کی بدمعاشی کی وجہ سے پچھلے پانچ سال سے اس کو سرکاری جیکٹ نہ دے سکی، پیدل بس سٹاپ جو اس کے گھر سے صرف چار سو ساٹھ قدم کے فاصلہ پر ہے کی جانب یہ سوچتا ہوا روانہ ہو جاتا ہے کہ اگرچھوٹے بیٹے کے لئے دوائی نہ خریدنی ہوتی تو اس سردی سے بچنے کے لئے ساٹھ روپے کے اونی دستانے اور اسی روپے کی ٹوپی بھی خرید لینی چاہئے تھی۔ پھر وہ سرکو جھٹکتا ہے کہ چلو جنوری میں تنخواہ ملے گی تو لے لیں گے۔ تیس دنوں کی ہی بات ہے اور اپنے سفر کو جاری رکھتا ہے۔
بس سٹاپ پر کھڑا یہ اس سوچ میں پریشان اور دل ہی دل میں دعا کر رہا ہے کہ اللہ کرے وقت پر ڈیوٹی پر پہنچ جائے، نہیں تو محرر کی گالیاں، SHO کی بدزبانی، ڈی ایس پی کی رپورٹ اور ایس پی کی طرف سے شوکازنوٹس لازمی مل جائے گا۔ اور پھرایک نئی ذلالت شروع ہوج ائے گی۔ OR میں پیشی، جواب لکھنے کے پیسے الگ، پیشی رکوانے کے الگ اور PAکو معافی کے لئے الگ دینے پڑیں گے۔ اور پھر بھی اگر صاحب بیگم سے لڑ کر، یا بڑے صاحب سے ڈانٹ کھا کر آیا ہوا تو پتہ نہیں کیا سزا دے دے۔ اسی سوچ میں گم اس نے ایک ویگن والے کو رکنے کے لئے ہاتھ دیا، مگر کنڈکٹرنے دروازے کے ساتھ کھڑکی پر زور سے ہاتھ مارکرکہا ”جان دیو استاد جی صرف مفت خورا ای اے سواری کوئی نئیں!” اور وہ شرمندہ ہوکر اگلی گاڑی کا انتظار کرنے لگا۔ بار بار گھڑی کو دیکھنے کے بعد اضطراب، پریشانی اور ان دیکھے خوف کے ساتھ، اس نے کتنی ہی گاڑیوں، موٹرسائیکلوں، رکشوں اور کاروں کو رکنے کا اشارہ کیا۔ مگر کسی نے ہاتھ کے اشارے سے، کسی نے زبان سے، اور کسی نے چہرے سے نفرت کا اظہارکیا اور پاس سے گزر گئے۔ پھرایک موٹرسائیکل سوارنے کمال مہربانی اور احسان کرتے ہوئے اس کو بٹھا لیا اور بتی چوک(نیازی چوک)اتاردیا۔ وہاں پر پھر دوبارہ وہی مشق کے بعد بالآخر وہ بند روڈ پر اترا اور پیدل تھانہ شیرا کوٹ کی طرف ہو لیا اور دماغی طور پر اپنے اعصاب کو دیر سے آنےوالے عذاب کے لئے تیار کرنے لگا!
محررسے مفصل مغلظات سننے کے بعد اس کو حکم صادرہوا کہ وہ ناکہ بابو صابو پر رپورٹ کرے۔ اور دماغ میں شیراکوٹ تھانہ سے بابوصابو تک پہنچنے کی مختلف ترکیبیں سوچنے کے بعد بالآخر پیدل ایک اور بے عزتی کی تیاری کرکے چل نکلا۔ ڈیوٹی کے مقام پر پہنچ کر افسران بالا کے حکم کی تعمیل میں گاڑیوں کو چیک کرتے ہوئے، کسی نے کہا کہ ”تمھاری اوقات کیا ہے”، ”تمھاری جرات کیسے ہوئی مجھے روکنے کی”، ”جانتے نہیں مجھے”وغیرہ۔ کسی نے آواز کسی، کسی نے گالی دی اور یوں اس بدمعاش سپاہی نے آٹھ گھنٹے عوام اور خواص کی حفاظت اور اپنی بدمعاشی میں صرف کئے۔ اس خوبصورت ایمان افروز ڈیوٹی اور انتہائی تعلیم یافتہ، سلجھی ہوئی عوام کے ساتھ وقت گزارنے کے بعد، جب وہ واپس تھانہ پہنچا تووہ اس سوچ میں مبتلا تھا کہ کسی ریڑھی پر بیٹھ کر دوپہر بلکہ سہ پہر کا کھانا کھا لے، کہ محرر نے حکم سنایا کہ وہ ذوالجناح کے جلوس پر فوراً پہنچنے ۔ اور وہ ایک دفعہ پھر موٹرسائیکل اور چنگ چی والے کی خداترسی اور قدموں کی مشقت سے، کچھ مانگے کی سواری اور کچھ جسم کی مشقت اور جبر سے جلوس کے راستہ پر گلی کے ایک کونے پر پہنچ گیا جہاں اس کی ڈیوٹی یہ تھی کہ وہ اس گلی سے کسی کو جلوس میں داخل نہ ہونے دے۔ مگرایک بار پھر ڈیوٹی اور انا کا مقابلہ شروع ہوا۔ اور لوگوں کی بدتمیزی، بدتہذیبی اور بدکلامی اور بڑھتے ہوئے اصرار کے سامنے کہ وہ اس راستہ سے گزریں گے، وہ اپنی انا کو بہت پیچھے چھوڑکر ڈیوٹی اور رز ق کی خاطر یہ بدمعاش سب کچھ برداشت کرتا رہا۔ مسلسل بے وقت کھانا کھانے سے شوگر اور Hypoglycemia کا شکار ہونے والا شخص، جب بھوک سے نڈھال ہوکر گرنے لگا تو بھکاری کی طرح لنگرکے چاول، شاپنگ بیگ میں ڈال کر گلی کے کونے میں، گندی نالی کے پاس جہاں سوپیر نے غلاظت کا ڈھیر سائیڈ پر اکٹھا کیا ہوا تھا، بیٹھ کر ابھی اس نے پہلا لقمہ ہی لیا تھا کہ دوسری طرف سے یکدم ایس پی صاحب آموجود ہوئے ۔ اور پھر کسی طرح اس نے شاپنگ بیگ سائیڈ پر کیا، تر آنکھوں کے پانی سے خشک چاولوں کا لقمہ حلق سے پارکیا ۔ اور بارہا معافی بھی مانگی، مگرحساس مقام پر ناقص ڈیوٹی کا شوکازنوٹس مل چکا تھا۔ اور پھر اس قوم کے بدمعاش محافظ نے کس طرح باقی ڈیوٹی، اپنے دماغ، جسم اور انتہائی بااخلاق عوام سے لڑتے ہوئے گزاری یہ الفاظ کے جامہ سے باہر ہے۔
مگر میں یہ سوچ رہا تھا کہ اس بدمعا ش کے پاس تین سال سے سرکاری وردی اور جوتے، پانچ سال سے سرکاری جیکٹ، رہنے کے لئے سرکاری گھر، ڈیوٹی پر آنے جانے کے لئے سواری، ڈیوٹی کے لئے مختص اوقات کار، فرائض کی بجاآوری کے لئے اختیار، کچھ بھی تو نہیں۔ اس دہشت گردی کے دورمیں بلٹ پروف جیکٹ نہیں، قیام پاکستان سے پہلے کی بندوق، مگر سالہا سا ل سے چلانے کے لئے اور مشق کے لئے گولیاں نہیں۔ ان حالات میں جہاں ہر وقت وائرلیس پر پیغام رسانی ہو رہی ہوتی ہے کہ فلاں گاڑی اور موٹرسائیکل میں بم ہے۔ اور پھر بھی یہ انتہائی دلیری یا بے وقوفی سے اس کو روکتا ہے اور چیک کرتا ہے۔ گالیاں اور طعنے سنتا ہے اور اگر یہ اطلاع سچی ہوئی تو اس کے جسم کے حصے پرزے نہیں ملیں گے۔ اور اس اعلیٰ ظرف عوام کے لئے جان دینے والا بدمعاش اور اس کی جوان بیوی، چھوٹے بیمار بچے، پنشن کے لئے کس کس دفتر میں دھکے کھائیں گے۔ جن کے پاس سر پر چھت اور دو وقت کا کھانا نہیں۔ اور اس کی جوان بیوی سے کون کیا ڈیمانڈ کرے گا، فیملی کلیم بنانے کے لئے یہ صرف وہی بتا سکتی ہے۔
ذوالجناح کے جلوس کے باخیریت اختتام پر، ابھی وہ اس سوچ میں تھا کہ گھر روانہ ہوتا ہے کہ پھر تھانہ سے کال آ گئی تواس نے دو گالیاں اپنے کو، دو سرکار کو اور دو فون کرنے والے کو دیں۔ اور سبز بٹن دباکر انتہائی تحمل سے ہیلو کہہ کر دوسری طرف سے آنے والا حکم سننے میں مصروف ہوگیا۔ اب کے صاحب کی طرف سے حکم آرہا تھا کہ نفری کی کمی ہے اس لئے چوہدری صاحب کے بیٹے کی شادی ہے وہاں ڈیوٹی پر چلے جائیں۔ اور وہ بوجھل قدموں کے ساتھ دوبارہ، منگتوں اور بھکاریوں کی طرح ایک بار پھر مختلف سواریوں کے ترلے ڈالنے پر مجبورہو گیا۔
چوہدری صاحب حکمران جماعت کا کرتا دھرتا ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ ان کے ڈیرے پر ہر وقت دس بارہ اشتہاری موجود رہتے ہیں۔ جو اپنا خرچہ خود پورا کرتے ہیں۔ اور اگرعلاقہ میں شراب اور چرس آپ کو نہ ملے تو آپ یہاں سے حاصل کرسکتے ہیں۔ متنازع جگہ سستے داموں لینا، قبضہ کرنا، ڈوبے ہوئے پیسے نکلوا کر اپنا حصہ لینا، یہ صرف چوہدری صاحب کے ایک پیغام پر بیٹھے بیٹھے ہو جاتا ہے۔ آج ان کے بیٹے کی مہندی کا پروگرام ہے اور بڑے صاحب نے حکم دیا ہے کہ پولیس کی ڈیوٹی بہت اچھی اور چوکس ہونا ضروری ہے۔ سر شام رنگ برنگی لائٹیں، دیگیں، بریانی کی خوشبو، زردہ میں کھویا اور چکن کی بجائے تازہ دم بکر ے زبح ہو رہے ہیں۔ بڑی بڑی گاڑیوں میں مہمانوں کی آمد، دیسی اور ولائیتی شراب، چرس کی خوشبو، اس بازار کی خوبصورت عورتوں کا ناچ، کلاشنکوف اور مختلف ہتھیاروں کی آواز کے شور، اور پولیس کے پہرے تلے جاری ہے۔ مختلف النواع کھانوں کی رکابیوں کے بیچ کالی وردی والے باہر پہرہ دینے کا انتظام، بھوکے پیٹ اور حسرت آمیز آنکھوں کے ساتھ کررہے ہیں۔ نہ ناچنے والیاں تھکیں اور نہ گولیاں ختم ہوئیں، اورنہ شراب کی بوتلیں خالی ہوئیں۔ بس ہوش ختم ہوئے اور چراغِ سحری کے ساتھ محفل کا اختتام ہوا۔ اورایک بارپھراس دھند، سردی اور جما دینے والی رات میں چار بجے سواری کی پریشانی اور صبح آٹھ بجے کی ڈیوٹی کا سوچتا ہوا علی احمد اپنے گھر کی طر ف روانہ ہوگیا۔
اور بالآخرایک دن پوری کوشش کے بعد میں علی احمد سے ملاقات کرنے میں کامیا ب ہو ہی گیا۔ میں پریشان تھا کہ جس شخص کو اپنی شادی پر تین یوم کی رخصت ملی ہو۔ جو بہن اور بھائی کی شادی میں صبح بنک ڈیوٹی کے بعد شامل ہوا ہو۔ جس کی ماں ہسپتال میں بیماری سے اس کو یاد کرتے کرتے مر گئی ہو۔ اور وہ اسی شہر میں ہوتے ہوئے بھی صرف جنازے میں شامل ہوا ہو۔ اگلے دن پھر گیلی اور سوجھی آنکھوں کے ساتھ ڈیوٹی پر آن موجود ہوا ہو۔ جس نے آندھی طوفان بارش میں، بن برساتی بھی ہمیشہ اپنی ڈیوٹی سرانجام دی، یہ آج گھر کیا کر رہا ہے۔ میں نے اسے جب گلی سے گزرتے دیکھا تو میں نے اس کو روک لیا اور پوچھا علی احمد زندگی کیسے گزررہی ہے۔ اس نے کہا صاحب جی، جینا اور مرنا تو صرف بڑے لوگوں کا ہوتا ہے۔ ہم تو صرف زندگی کے دن گزارتے ہیں۔ زندہ ہوں تو روٹی، کپڑا اور مکان کی پریشانی، بچوں کی شادیاں، بہن بھائیوں کی زمہ داریاں پاگل کئے رکھتی ہیں۔ مر جائیں تو بھی کفن دفن، قل، دسواں اور چالیسویں کی پریشانی ہوتی ہے۔ جینا اور مرنا دونوں امتحان ہیں۔
ہم وہ واحد محکمہ ہیں جہاں چھٹی کا کوئی وجود ہی نہیں۔ جن دنوں عید، شب برات، محرم، میلہ چراغاں یا عرس داتا صاحب وغیرہ پر عوام کوچھٹیاں ہوتی ہیں۔ ان دنوں میں ہماری چھٹیاں بند ہونے کا سندیسہ اور مال روڈ یا کسی انتہائی اہم شخصیت کے ساتھ ڈیوٹی ہوتی ہے۔ کچھ نہ ہو تو مسجد اور امام بارگاہ کا دروازہ ہمارا رستہ دیکھ رہا ہوتا ہے۔ جس دن پورا ملک اپنی فیملی کے ساتھ چھٹی منا رہا ہوتا ہے ہم سرکار کے حکم کی تعمیل میں سڑکوں پر کھڑے کسی طعنے، پتھر، گالی، تبرہ یا شوکازنوٹس کا انتظار کررہے ہوتے ہیں۔
میں اس دن بہت خوش ہوتا ہوں، علی احمد نے کہنا شروع کیا، جب چاند رات کو بی بی پاکدامن یا کسی بازار میں میری رات کی ڈیوٹی لگی ہوتی ہے۔ کیونکہ رات بھر میری چھوٹی بیٹی فون کر تی رہتی ہے کہ بابا چوڑیاں خریدنی ہیں، اس دفعہ امی نے کپڑے بھی نہیں لے کر دئے۔ چلیں بابا کپڑے نہ سہی چوڑیاں اور مہندی ہی لے دیں۔ اور پھر وہ ہمسائیوں کے بچوں کی شاپنگ کی بابت بتاتی ہے تو میری آنکھوں میں آنسو اور زبان پر بہانہ آتا ہے کہ بیٹا ڈیوٹی سے فارغ ہوتا ہوں تو لے کر آﺅں گا۔ اور پھر میرا راستہ تکتے روتے روتے ماں سے مار کھا کر وہ سوجاتی ہے۔ اور میں صبح چار بجے فارغ ہونے کے بعد پیدل مرکزی جامعہ مسجد چلا جاتا ہوں۔ جہاں نماز عید کے لئے چھ بجے مجھے ڈیوٹی پر پہنچنا ہوتا ہے۔ اور منہ دھو کر مسجد کے دروازے پر کھڑا ہو کر زرق برق کپڑوں میں ملبوس بچوں کو، جن کو ان کے باپ انگلی سے لگائے مسجد کی طرف آ رہے ہوتے ہیں، حسرت سے دیکھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ ا ب کے بار بھی میرا بیٹا حسرت سے دوسروں کے ہم عمر بچوں کے نصیب پر رشک کرتا ہوا اکیلا مسجد میں گیا ہو گا۔ میری بیٹی اپنی دوستوں کے عید کے تحفے اور کپڑے دیکھ کر روتی ہوگی ۔ میں عید کے دن بھی شیو نہ کرنے اور اچھی وردی نہ پہننے کا طعنہ سنتا ہوں، کوئی مجھ سے نہیں پوچھتا کہ اس وردی میں میں کب سے کھڑا ہوں۔ اور مجھے دو وقت کی روٹی بھی میسر ہوئی ہے کہ نہیں۔ جس کے لئے میں نے یہ نوکری کی ہے۔ ہزاروں کا مجمع میرے پاس اس لاتعلقی اور بے اعتنائی سے گزر جاتاہے، جیسے میں برہمنوں میں شودر اور مسلمانوں میں نجس ہوں۔ مسجد میں میر ے ساتھ نیچے بیٹھے بھکاری کو بھی سب پوچھتے ہیں ۔ مگر مجھے مکروہ، بدمعاش تصورکرتے ہوئے کوئی ہاتھ ملانا، عید مبارک کہنا بھی گوارہ نہیں کرتا۔ کیونکہ میں تو ا ن کی حفاظت کے لئے ان کا زر خرید غلام ہوں۔ میں وہ بدقسمت انسان ہوں جو دووقت کی روٹی کے لئے اپنے بیوی، بچے، ماں، بہن، بھائی، عزیز، رشتہ دار، زندگی موت، خوشی اور غم، عید اور شب برات، محرم اور شب معراج، باپ کا جنازہ اور بھائی کا نکاح، بہن کی شادی، بیوی کی زچگی، بیٹی کی بیماری، بیٹے کی تعلیم سب فراموش کرکے اس احسان فراموش معاشرے کی گالیاں سنتا ہوں۔ مگر ان کی حفاظت کے لئے پھر بھی ہر آنے والی بارود بھر ی گاڑی اور ڈاکو کی گولی کے سامنے بغیر بلٹ پروف جیکٹ اور کارگر اسلحہ کے کھڑا ہوتا ہوں۔ کیونکہ میں اس معاشرے کا بدمعاش سپاہی ہوں۔
اور وہ دن جب اچانک بابو صابو ناکہ پر اس نے ایک گاڑی کو روکا، اور اس میں موجود خود کش حملہ آور نے اپنے آپ کو اڑالیا۔ اس طر ح بدمعاش سپاہی کا سر دور مورچے کے اوپر سے، دھڑ سڑک کی دوسری جانب، اور پاﺅں کا ایک ٹکڑا کٹا ہوا، کہنی سے جدا ہوا بازو سٹرک کے بیچ پڑا تھا۔ اور دوسری طرف ٹی وی پر ایک صحافی اور سیاستدان کمال خوبصورتی سے فرما رہے تھے کہ پولیس کی بدمعاشی اب ختم ہو جانی چاہئے۔
بے چارہ بدمعاش سپاہی (تحریر نامعلوم)