Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
387

شموؔں ۔۔۔ ( افسانہ)۔۔۔۔ (حصہ اول)

میں نے اسے ایک بڑے گھر کی شادی میں دیکھا تھا۔ دراصل اس کی بیگم اسے اپنے ساتھ گھسیٹ لائی تھی کیونکہ بیگم کو اپنا ڈیڑھ سالہ بچہ جو سنبھالنا تھا اور ظاہر ہے ایک بڑے گھر کے بچے کو نوکرانی سے بہتر کون سنبھال سکتا تھا۔ یہ تب کی بات ہے جب میں گریجویشن کا فائنل امتحان دے کر گھر آیا تو اماں نے اعلان کیا کہ انہیں ایک پرانی سہیلی کی بیٹی کی شادی میں شرکت کے لیے اسلام آباد جانا ہے اور ساتھ ہی حکم صادر فرمایا کہ میرے ساتھ تم جاؤ گے۔ بس وہیں پر میں نے اسے دیکھا تھا۔ وہ بمشکل دس بارہ برس کی تھی۔ بالکل پتلی پتنگ، ہوا ورولا سی جیسے کہ اس عمر کی نو خیز لڑکیاں ہوتی ہیں۔ رنگ جیسے دیسی گندم کا چمکتا ہوا دانہ، ننھے ننھے نقوش، تیکھی ناک، آنکھیں بڑی اور میٹھی۔

دھان پان سے بدن پر لپٹا چھوٹے چھوٹے بیل بوٹوں والا پرانا سا گلابی لان کا سوٹ، نحیف کندھوں پر کیکر کے پھولوں والی میلی سی دوپٹے نما پٹی، خوبصورت مگر کھردرے پیروں میں قدرے بڑے سائز کی بے ڈھنگی چپل۔ صاف دکھائی دیتا تھا کہ کسی اور کا اترن ہے۔

اس کی بیگم موٹی گردن میں چوڑے چوڑے سونے کے ہار پہنے پراڈو سے اتری تھی۔ نرم بُھر بُھرے گال میک اپ کی دبیز تہہ سے مزین تھے، بھاری بھرکم ڈولتے ہوۓ کولہوں سےسلمیٰ ستاروں سے بھری ساڑھی کا پیٹی کوٹ جھانک رہا تھا۔ جُوڑے میں پھول سجائے گل بکاؤلی بنی بازو پر ایک مشہور برانڈ کا موتیوں سے بھرا بیگ ہوا میں جھولاتے مستانی چال چلتی ہوئی بیگم بڑی شان سے شادی کی رسپشن کی جانب بڑھ رہی تھی۔

”ممکن ہے کوئی ایسی شیخانی ہو جس کے میاں کا چنیوٹ میں فرنیچر کا کوئی بڑا سا کارخانہ ہو ” میں نے غیر ارادی طور بیگم کا معائنہ کر ڈالا”۔

انداز و اطوار سے بیگم کوئی نو دولتیا ہی لگ رہی تھی۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو گھر بڑا بنائیں یا چھوٹا مگر باہر دروازہ بڑا سا لگواتے ہیں۔ کپڑا مہنگا خریدتے ہیں مگر درزی کوئی سستا سا ڈھونڈتے ہیں۔ قیمتی گاڑی میں بیٹھ کر سبزی والے سے آلو اور ٹماٹر کے نرخ پر بھاؤ تاؤ کرنے لگتے ہیں۔ ایک نوکر رکھ کر سارے کام اسی سے لیتے ہیں۔ دولت تو بہت ہوتی ہے مگر متانت اور وقار کی شدید کمی ہوتی ہے۔

ببلو بیگم کا پہلا بچہ تھا، بالکل ماں کی طرح ہی صحت مند، موٹا تازہ اور گلگلہ سا۔ اپنی عمر کے بچوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ وزنی، گول گپا سا۔

شموں ! یہی نام لے کر بیگم اس ننھی سی نوکرانی کو حکم دے رہی تھی۔ شموں ببلو کی آیا بھی تھی اور بیگم کی پرسنل سیکرٹری بھی۔

جب پراڈو شادی والے گھر کے سامنے رکی تو سب سے پہلے شموں کو ہی گاڑی سے اتارا گیا تھا۔ بیگم اپنا بوجھ تو بمشکل خود اٹھاۓ ہوۓ تھی مگر بھاری بھر کم ببلو کو شموں پر لاد رکھا تھا۔ شموں اور ببلو کی عمروں میں جو فرق تھا وہ ان کے وزن میں نہیں تھا۔ دھان پان سی شموں کے پتلے بازؤں سے ببلو ایک پانی سے بھرے بڑے سے غبارے کی مانند پھسل رہا تھا اور وہ اسے بمشکل اپنے پتلے سے جسم سے سمیٹنے کی کوشش کر رہی تھی۔ جب شموں بچے کو بانہوں میں اٹھاۓ چلی تو ایک جانب وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کی صراحی نما کمر بھی تھوڑی سی جھک گئی جسے وہ توازن میں لانے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔

بیگم نے شموں کے ہاتھ میں ایک ٹوکری بھی تھما دی جس میں ببلو کے کھلونے اور فیڈر وغیرہ رکھے تھے۔

” ہیں یہ کیا ؟ بھلا اس بے چاری چھوٹی سی لڑکی کے کتنے ہاتھ ہیں؟” جانے کیوں مجھے غصہ آ گیا ۔

ایک جانب اس نے ببلو کو اپنی پتلی کمر پر ٹکا رکھا تھا جبکہ دوسرے ہاتھ میں ٹوکری اٹھا رکھی تھی۔ یوں اس کے دونوں جانب کچھ توازن سا قائم ہو گیا۔

“شکر ہے” میں نے کچھ سکھ کا سانس لیا۔

شموں خراماں خراماں چلتی ہوئی آگے بڑھی۔ پیچھے پیچھے بیگم مارچ کر رہی تھی۔ شادی کسی اور کی تھی مگر بیگم خود کسی دلہن کی طرح ہی سج دھج کے آئی تھی۔ بازؤں میں موٹے موٹے سونے کے کنگن، قیمتی گھڑی، وزنی ساڑھی، اونچی ایڑھی کے سینڈل، خونی لپ اسٹک پر کھیلتی بناوٹی سی مسکراہٹ، اور اوپر سے ماشاللہ تیسرا- چوتھا مہینہ۔۔۔۔۔۔۔۔

بیگم اندر داخل ہوتے ہی صوفے پر دھم سے ڈھیر ہو گئی۔ پھر ایک اور لڑکی بھی گاڑی سے نمودار ہوئی اور بیگم کو آنٹی آنٹی پکارتی ہوئی لپک کر بیگم کے ساتھ ہی براجمان ہوگئی۔ یہ لڑکی شموں سے عمر میں ایک آدھ سال ہی بڑی تھی اور غالبا” بیگم کی بھانجی تھی۔ لڑکی صحت مند اور رنگ گورا چٹا تھا، بال خوبصورتی سے ترشے ہوۓ تھے مگر نین نقش موٹے سے تھے، شموں کے مقابلے میں تو کچھ بھی نہیں تھے۔ اس نے برینڈڈ لباس پہن رکھا تھا، قیمتی گولڈن سینڈل، رنگ برنگا میک اپ اور نخرا انت تھا مگر جو معصومیت اور بھول پن شموں کے چہرے پر تھا اس کا عشرِ عشیر بھی اس دوسری لڑکی کے چہرے پر نہ تھا۔

“تم کم از کم ٹوکری تو اٹھا سکتی تھی” میں نے دل ہی دل میں اس دوسری لڑکی کو ڈانٹ پلا دی۔

مگر وہ تو کسی سیٹھ کی بیٹی تھی، وہ شموں سے یکسر بے پرواہ لگ رہی تھی۔ بلکہ وہ تو اس کے قریب بھی نہیں پھٹک رہی تھی۔ شاید وہ بھی شموں کو ایک نوکر سے زیادہ نہیں سمجھتی ہو گی۔ شادی والے گھر میں اسے اپنے جیسی کئی ہم عمر سہیلیاں مل گئی تھیں۔ وہ ان کے ساتھ ہنس کھیل رہی تھی۔

“آج اگر شموں بھی کسی امیر گھر کی بیٹی ہوتی تو وہ بھی یہاں شان و شوکت سے بیٹھی ہوتی۔ اپنی ہم عمر لڑکیوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کر رہی ہوتی، ہنستی، مسکراتی، کسی اچھے سے سکول میں پڑھتی۔ بہت ذہین ہوتی، اور مجھے یقین ہے کہ وہ سیٹھوں کی ان باقی لڑکیوں کی طرح مصنوعی اور بناوٹی نہ ہوتی بلکہ سچی، کھری اور انمول ہوتی انمول!۔۔۔۔۔ آج بھی اگر کوئی اسے دھیان سے دیکھے تو وہ کتنی انمول اور چمکدار ہے۔ ارد گرد سجی بنی لڑکیاں اس کے آگے پانی بھرتی نظر آ رہی ہیں۔ اس کی ستواں ناک پر جگمگاتا ہوا چھوٹا سا لونگ کتنا بھلا لگ رہا ہے۔ کوئی مقابلہ نہیں، میں شموں کو دس میں سے دس نمبر دے چکا تھا۔

ہال میں کچھ کرسیاں خالی پڑی تھیں۔ شموں ایک کرسی کی جانب بڑھی۔

اے شموں !۔۔ اس سے پہلے کہ شموں کرسی پر بیٹھتی بیگم کی تیز آواز آئی۔

“تم یہاں نیچے دری پر بیٹھو اور ببلو کو ابھی سے دودھ پلا دو ،ورنہ بعد میں چندرا تنگ کرے گا”بیگم شاىٔد کھانے سے دو دو ہاتھ کرنے کی تیاری میں تھی۔

شموں نے فوراًحکم کی تعمیل کی۔ ٹوکری رکھی اور ببلو کو احتیاط سے دری پر لٹایا اور دوزانو بیٹھ کر ٹوکری میں ہاتھ چلانے لگی۔ شادی والے گھر میں کافی رونق اور چہل پہل تھی۔ زرق برق لباس میں بچے ادھر ادھر بھاگتے کھیلتے پھر رہے تھے۔ لڑکیاں بالیاں کِھل کھلا رہی تھیں، گپ شپ لڑا رہی تھیں۔ ہر طرف سے قہقہے بلند ہو رہے تھے۔ لیکن شموں سب سے بے خبر اپنے کام میں مگن تھی۔ اس نے ایک منجھی ہوئی سمجھدار عورت کی طرح ٹوکری سے فیڈر کی بوتل نکالی۔ اپنے الٹے ہاتھ سے دودھ کی گرمائش کو محسوس کیا پھر تولیہ کو اپنے چھوٹے چھوٹے نرم گھٹنوں پر بچھایا اور بچے کو گود میں لے کر اس کے منہ میں بوتل دے دی مگر ببلو بہت ہی اتھرا بچہ معلوم ہوتا تھا۔ بار بار بوتل کو اٹھا کر پرے پھینک دیتا تھا۔ پھر اس کا دھیان ٹوکری کی طرف چلا گیا، اس نے شموں کے نرم حصار سے نکل کر ٹوکری کو ہاتھ مارا اور الٹا دیا۔ سارا سامان ٹوکری سے چھلک کر فرش پر پھیل گیا۔ پھر وہ واپس شموں کی طرف مڑا، اس کا من پسند کھلونا تو وہی تھی، اس کے منتشر سنہری بال کھینچنے لگا ۔ اس کے اداس چہرے پر ناخن چلانے لگا۔ بیگم نے ایک دو بار بچے کو بہلانے کے لیے پکارا جس پر بچہ متوجہ ہو کر گرتا پڑتا جیسے ہی اپنی ماں کی طرف بڑھا تو بیگم نے دہائی مچا دی

“او شموں کمینی ! ارے جلدی اٹھا ببلو کو، کہیں میرے کپڑوں کا ستیاناس نہ کر دے، کتنی سُست ہے تو !”

شموں بجلی کی سی تیزی سے مڑی اور اس موٹے تازے بچے کو گود میں اٹھانے کی کوشش کرنے لگی مگر اتھرا بچہ زور لگاتا اور تڑپ کر پھر نیچے پھسل جاتا۔ شموں عجیب کشمکش میں مبتلا تھی۔ وہ تو خود بے چاری کم سن سی تھی مگر بچے کو سنبھالنے کی اپنی پوری کوشش کر ہی تھی۔

”ھونہہ ! جمے کوئی تے پالے کوئی، یہ بیگم خود تو دوسری بیگمات کے ساتھ خوش گپیوں میں مشغول ہے اور اس چھوٹی سی بچی کو مصیبت میں ڈال رکھا ہے” مجھے دل میں بہت رنج ہو رہا تھا۔

یہ سب سوچتے ہوئے غیر ارادی طور پر میری نظریں شموں اور بیگم کی حرکات پرمرکوز ہو گىٔیں۔ میں نے محسوس کیا کہ شموں کی بیگم کے ساتھ بیٹھی عورت شموں کی کار گزاری کو بڑی حسرت سے دیکھ رہی تھی۔ پھر اس نے شموں کی طرف اشارہ کیا اور بولی “یہ لڑکی کہاں سے ملی تجھے۔ کیا دیتی ہو اسے؟”

ارے سب کچھ دیتی ہوں اسے، کپڑا لتہ، کھانا پینا، پیسے اور کیا ۔۔ بیگم نے آنکھیں مٹکاتے ہوۓ جواب دیا۔

”اچھا کہاں سے ملی ہے” عورت نے پھر پوچھا۔

”ان کے دوست ہیں نا گیلانی صاحب جن کا ملتان میں کھڈیوں کا کاروبار ہے، آۓ ہاۓ وہی جو سیاست میں بھی ہاتھ پلہ مار لیتے ہیں۔ اور زمین بھی بہتیری ہے گاؤں میں، ان کے ایک مزارعے کی لڑکی ہے”۔ بیگم نے بتایا۔

”صرف بچہ ہی سنبھالتی ہے یا کچھ کام وام بھی جانتی ہے” عورت نے پھر ٹوہ لگائی۔

”ارے کام تو بڑا کر لیتی ہے اور تھکتی بھی نہیں” بیگم ایک آنکھ بند کرکے شرارت سے مسکرائی ۔۔۔ بیگم شموں کو یوں ستائشی نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسے کوئی کمہار اپنے سب سے ہونہار خچر کو دیکھتا ہے۔

”گاؤں سے آئی ہے نا اسی لیے ابھی منہ میں زبان نہیں، ارے یہاں شہر کے نوکر تو اف توبہ اس قدر بدتمیز ہیں کہ پوچھو مت، ارے مالک کی تو ایک نہیں سنتے، مرضی سے کام کرتے ہیں اور چھٹیاں بھی خوب کرتے ہیں حرام خور کہیں کے” عورت ناک بھوں چڑھا کر بولی۔

دونوں سیٹھانیاں نوکروں کی مختلف نوع و اقسام اور ان کی ریشہ دوانیوں پر تبادلہ خیال میں محو ہو گئیں۔

”ہمم۔۔۔۔۔ تو شموں کو ملتان کے کسی گاؤں سے کام کی خاطر منگوایا گیا ہے، کمال ہے ، ننھی سی پردیسن، دن رات کام ہی کام، لیکن سکون ؟۔۔۔ سکون کب ملتا ہو گا اس ننھی گڑیا کو؟ کیا یہ کبھی ہنستی بھی ہو گی؟ میری نظریں مسلسل شموں کے بھولے بھالے مگر سپاٹ چہرے کا احاطہ کر رہی تھیں۔۔۔ اور اس کے ماں باپ کس طرح کے ہیں؟ مجھے سیٹھانیوں کے ساتھ شموں کے ماں باپ پر بھی غصہ آ رہا تھا جنہوں نے اپنا ننھا سا جگر کا ٹکڑا اتنی دور پردیس میں کام کرنے کے لیے بھیج دیا تھا۔ ظالموں نے بے چاری شموں کا بچپن بیچ دیا۔ یہی تو عمر ہوتی ہے کھیلنے کودنے کی، پڑھنے لکھنے کی ، میٹھے سہانے سپنے دیکھنے کی۔۔۔۔ کیا کم سن شموں کی بھی کوئی امنگ ہوگی؟ کوئی ترنگ ہو گی؟ اگر ہو گی بھی تو خاک میں مل گئی ہو گی۔۔۔۔۔۔۔ کیا وہ اپنی ماں سے پوچھتی ہوگی، ماں ! او میری ماں، کیا تجھے پتا نہیں کہ یہ دنیا کس قدر ظالم ہے۔ اگر تُو مجھے محبت، تحفظ اور عزت کی زندگی نہیں دے سکتی تھی تو کیوں اس دنیا میں لائی تھی۔۔۔۔۔ ماں ! بتاؤ نا ! کیا میرے جیسی چھوٹی لڑکیوں کا زندگی پر کوئی حق نہیں ہوتا۔ یہ بس یونہی ہوتی ہیں نامراد سی، ان کے ہاتھوں کو مہندی اور چوڑیوں کی حاجت نہیں ہوتی یا ان کے ہاتھ صرف لوگوں کے جوٹھے برتن مانجھنے کے لیے بنے ہیں، ماں میرا اپنا گھر کونسا ہے؟ ۔۔۔۔ کیا ماں سے بھی زیادہ کوئی سگا ہوتا ہے؟ پھر کیوں تم نے اپنی چھوٹی سی بیٹی کو یوں اکیلے زمانے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ کیوں ، آخر کیوں ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یقیناً اس کی ماں سگی نہیں ہے۔ اگر سگی ہوتی تو یوں اپنی ننھی سی پیاری بیٹی کو اپنی آنکھوں سے دور نہ بھیجتی”۔ میں سوچتا چلا جا رہا تھا۔


(جاری ہے)
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں