سڈنی — آسٹریلیا کے سائنس دان ایک ایسی ورچوئل دور بین پر کام کر رہے ہیں جو زمین کے اندر 300 کلو میٹر کی گہرائی تک دیکھ سکے گی۔ اس کمپیوٹر دوربین کا مقصد زمین کی گہرائیوں میں چھپی ہوئی قیمتی معدنیات کا کھوج لگانا ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ورچوئل دوربین کی مدد سے زمین کی گہرائیوں کا اسی طرح مطالعہ کیا جا سکے گا جس طرح ہم زمین کی سطح پر پہاڑوں، دریاؤں، سمندروں اور دوسری جگہوں پر خود جا کر ان کا معائنہ کرتے ہیں اور ان کے بارے میں معلومات اکھٹی کرتے ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر آپ کے پاس کسی معدنی ذخیرے سے متعلق ٹھوس معلومات موجود ہوں تو گویا آپ اپنا 90 فی صد کام مکمل کر چکے ہیں اور اس کے بعد آپ کے لیے صرف معدنیات کو نکالنے کا کام باقی رہ جاتا ہے۔
زمین کے اندر سینکڑوں میل گہرائیوں میں جھانکنے والی دوربین ان لہروں پر کام کرے گی جو زلزلے کے باعث پیدا ہوتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے مصنوعی طور پر زلزلے کی لہریں پیدا کر کے زمین کے اندر داخل کی جائیں گی۔ اور جب یہ لہریں زمین کی نچلی پرتوں سے ٹکرا کر واپس آئیں گی تو کمپیوٹر ان کا تھری ڈی میں خاکہ تیار کرے گا۔
ورچوئل دوربین کی تجویز آسٹریلیا کی اکیڈمی آف سائنس کے ایک دس سالہ پروگرام کا حصہ ہے جس میں توجہ مستقبل کی موبائل ٹیکنالوجی، دوبارہ قابل استعمال توانائی کے ذرائع اور بجلی سے چلنے والی کاروں پر مرکوز کی گئی ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ آنے والے دور میں تانبا، کوبالٹ، سونا اور کئی دیگر کم یاب معدنيات کی طلب کئی گنا بڑھ جائے گی۔ جب کہ زمین کی گہرائیوں میں ان کے بڑے بڑے ذخائر کی موجودگی کا ٹھوس امکان ہے۔
کوبالٹ اور اسی طرح کی کئی اور معدنيات موبائل ٹیکنالوجی، بالخصوص بجلی ذخیرہ کرنے والی آئن بیڑیوں میں استعمال کی جاتی ہیں۔ جب ٹرانسپورٹ تیل سے بجلی پر منتقل ہو گی تو 2016 کے مقابلے میں 2030 میں ان معدنيات کی طلب کم از کم 50 گنا بڑھ جائے گی۔
آسٹریلیا کی اکیڈمی آف سائنس کے پروفیسر سو او رئیلی کہتے ہیں کہ ورچوئل دوربین کی مدد سے ہم زمین کی اندرونی پرتوں کا اسی طرح نقشہ بنا سکتے ہیں جس طرح ہم زمین کی سطح پر چل پھر کر چیزوں کو دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ زمین میں دفن خزانوں کا کھوج ملنے کے بعد انہیں نکالنا بہت آسان ہو جائے گا۔
آسٹریلیا کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر ابھی سے الیکٹرانک کے شعبوں میں استعمال کی جانے والی معدنيات کے نئے ذخائر تلاش نہ کیے گئے تو ان کی شديد قلت پیدا ہو جائے گی۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا کی کم ازکم 300 کمپنیاں بڑی سرگرمی سے کوبالٹ کے نئے ذخائر ڈھونڈنے میں مصروف ہیں۔ آسٹریلین سائنس اکیڈمی 1954 میں قائم ہوئی تھی۔