میں کچھ پل کا سکوت چاہتا ہوں
میں اس جہاں کے سینے میں
کچھ دن رہنا چاہتا ہوں
کہ خوابوں نے بہت تھکایا ہے مجھے
روٹھے سپنوں نے بہت بھگایا ہے مجھے
رکو کہ میں کچھ لمحات کو سستانا چاہتا ہوں
روح تھک کہ چور ہوگئی
اب کچھ تازگی چاہتا ہوں
سنو رفتار سے اب بازیابی چاہتا ہوں
گرمی سے گھبراتا نہیں ہوں میں
سفر میں سستاتا بھی نہیں ہوں میں
اب اجڑے چمن کو بناتے بناتے
تھک گیا ہوں میں
بس کچھ وقت کیلئے ان گلابوں کی
مہک چاہتا ہوں
میں کچھ پل کو سستانا چاہتا ہوں
بےذوق گردانو نہ مجھے
سنو سست نہ جانو مجھے
میں اس جہاں کے سکون کا کچھ قرض چاہتا ہوں
دوائے لازوال جیسا اک مرض چاہتا ہوں
اس سے پہلے کچھ دیر کو سستانا چاہتا ہوں میں
مجھے لالہ گل کے خواب عزیز ہیں بہت
میری دنیا میں پرُتمیز لوگ بھی ہیں بہت
پر میں سب خود ہی سدھانا چاہتا ہوں
میں اپنی دنیا خود ہی بنانا چاہتا ہوں
اس سے پہلے میں اپنی وسعتوں کا
حصول چاہتا ہوں
میں اپنی ذات
فقط اپنی ذات کی خاطر کچھ پل
اس جہاں کے سینے میں سستانا چاہتا ہوں
میرا سفر ابد سے اذل تک
میری جاں پہ فضل اسکا اب تک
میں لٹاؤں بھی نہ تب بھی
وہ دیکھتا ہے مجھے سمجھتا اور نوازتا ہے
اسی سبب میں رازِسفر تلاشنے نکلوں گا
میں منزل کھوجنے کو شاید بہت بھٹکوں گا
پھر بھی میری جستجو اسے کھوجتے رہنے کو تر سے گی
مگر اس سب سے پہلے
میں کچھ پل کیلئے سکوں کی آغوش میں جانا چاہتا ہوں
آغاز سفر کچھ دیر کو سستانا چاہتا ہوں
پر انجام سفر فقط مر جانا چاہتا ہوں