اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں %80 ڈاکٹرز جن میں بڑے بڑے پروفیسرز اور سپیشلسٹ بھی شامل ہیں دوائیاں بنانے والی کمپنیوں کے ہاتھوں بکے ہوئے ہیں تو یہ غلط نہ ہوگا، ڈاکٹرز کیسے بکتے ہیں، میڈیسن کمپنیاں انہیں کیسے خریدتی ہیں، دونوں کے درمیان ڈیلنگ کون کرواتا ہے، عام مریض کو اس خریدو فروخت کا کیا نقصان ہوتا ہے اور عام مریض یہ بات کیسے جان سکتا ہے کہ ڈاکٹر بکا ہوا ہے، ان تمام باتوں کا جاننا بظاہر مشکل نظر آتا ہے لیکن یہ ناممکن نہیں ہے، اگر مریض تھوڑی سی انگریزی زبان جانتا ہو، اسے گوگل سرچ کرنے کا طریقہ آتا ہو اور اسکے پاس انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہو تو وہ بہت آسانی سے یہ معلوم کرسکتا ہے کہ ڈاکٹر جسے وہ مسیحا سمجھ رہا ہے وہ بکا ہوا ہے کہ نہیں۔
ہم ایک ایک کر کے یہ تمام باتیں ڈسکس کریں گے اور مجھے امید ہے کہ میری تحاریر پڑھ کر آپ اس قابل ہو جائیں گے کہ کوئی بھی ڈاکٹر جس سے آپ نسخہ لے رہے ہیں وہ بکا ہوا ہے کہ نہیں۔ اگر ہم پاکستان میں موجود میڈیسن کمپنیز کا طائرانہ جائزہ لیں تو ہمیں پتا چلے گا کہ اس وقت پاکستان میں کل 650 میڈیسن کمپنیاں کام کررہی ہیں، جن میں تقریباً تیس کے لگ بھگ کمپنیاں ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں، تمام میڈیسن کمپنیاں پاکستانی جی ڈی پی میں سالانہ ایک فیصد اضافہ کرتی ہیں، ان تمام کمپنیز نے اپنی دوائیاں ڈسٹری بیوٹ کرنے کے لئے ڈسڑی بیوٹرز رکھے ہوئے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان دوائیوں کی مارکیٹنگ کرنے کیلئے میڈیکل ریپس بھی موجود ہیں۔
بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں ریسرچ پر پیسہ لگا کر اپنی میڈیسن تیار کرتی ہیں، کچھ سال تک وہ میڈیسن دوسری کمپنیاں نہیں بنا سکتیں، چند سالوں بعد باقی کمپنیاں بھی وہ میڈیسن بنا کر بیچنا شروع کر دیتی ہیں، ریسرچ بیسڈ میڈیسن بنانے والی کمپنیوں کی میڈیسن لکھنا اچھے ڈاکٹرز کی مجبوری ہوتی ہے کیونکہ اس سے زیادہ اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں لیکن انکی قیمت مارکیٹ میں اس جیسی باقی ادویات سے زیادہ ہوتی ہے، اچھا ڈاکٹر دوائی لکھتے وقت ایمانداری سے مریض کی جیب اور اسکے مرض دونوں کو دیکھتے ہوئے نسخہ لکھ کر دیتا ہے۔ اگر آپکی جیب اجازت دیتی ہے اور آپ اپنی صحت کیلئے فکر مند ہیں تو آپکو ڈاکٹر سے درخواست کر کے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ادویات ہی لکھوانی چاہئیے۔
پاکستان میں مشہور ملٹی نیشنل کمپنیوں میں جی ایس کے، ایبٹ، نوارٹس، مرک، الائی لِللی، روش، فائزر، سنوفی ایوینٹس، گیٹس، آسٹرازینیکا، برسٹل مائر سکب، بائیر اور کچھ مزید کمپنیوں کے نام شامل ہیں، جبکہ نیشنل کمپنیوں میں سامی، ہلٹن، فیروز سنز، بوش، ایٹکو، انڈس اور بہت سی دوسری کمپنیوں کے نام شامل ہیں۔
پاکستان میں روزانہ ہزاروں میڈیکل ریپس فارما کمپنیوں کی ایڈورٹائزنگ کیلئے صبح شام ہسپتالوں اور پرائیویٹ ڈاکٹروں کے کلینکس کے چکر لگاتے ہیں، ملٹی نیشنل میں کام کرنے والے میڈیکل ریپس ریسرچ پیپرز اور سامپل دے کر ڈاکٹرز کو انکی میڈیسن لکھنے کیلئے راضی کرتے ہیں جبکہ کچھ لوکل کمپنیز کے نمائندے مختلف اقسام کی رشوت دے کر ڈاکٹرز سے اپنی ادویات لکھواتے ہیں، جتنے میڈیکل ریپس پاکستان میں کام کرتے ہیں اتنے شاید تمام فرسٹ ورلڈ ممالک میں بھی نہ ہوں، پاکستان میں چونکہ زیادہ تر کاروباری معاملات جھوٹ اور بےایمانی کے سہارے چلتے ہیں اس لیئے صحت کے شعبے میں بھی بےایمانی اپنے عروج پر ہے۔
ڈاکٹرز، میڈیکل سٹورز اور فارما کمپنیوں والے پاکستان میں کیسے بےایمانی کرکے پیسہ کماتے ہیں اس سارے عمل کو مندرجہ ذیل مثال سے اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے، پاکستان میں ہر انسان ملاوٹ، مہنگائی اور بےایمانی کی وجہ سے کمزور اور خوراک کی کمی کا شکار ہے اس لئے ڈاکٹرز اکثر انہیں ادویات کے ساتھ فوڈ سپلیمنٹ پاؤڈر کا ڈبہ ضرور لکھ کر دیتے ہیں، اس ڈبے پر عموماً کئی پھلوں کی تصاویر پرنٹ ہوتی ہیں ، اور دنیا جہان کے سارے وٹامنز کے نام لکھے ہوئے ہوتے ہیں، اسی نوے فیصد یہ فوڈ سپلیمنٹ کے ڈبے جعلی ہوتے ہیں اور ایک پلاسیبو کے طور پر کام کرتے ہیں، پلاسیبو ایسی دوائی کو کہا جاتا ہے جو دوائی تو نہ ہو لیکن اسے کھانے سے مریض نفسیاتی طور پر مطمئین ہوجائے کہ اس نے دوائی کھا لی ہے۔ انہیں تیار کروانے اور سیل کروانے کا طریقہ بہت دلچسپ ہے۔
ہولُ سیل مارکیٹ سے خشک دودھ خرید کر اس میں مختلف اقسام کے فلیور ڈال کر اسکا ذائقہ مزیدار بنا لیا جاتا ہے، درجن بھر پھلوں کی تصاویر اور تیس چالیس وٹامنز کی اقسام کے نام رنگین اور خوشنما ملائم گتے پر پرنٹ کروا کر پیکٹ بنوا لیئے جاتے ہیں، کچھ رشوت دے کر پی سی ایس آئی آر لیباٹریز یا صوبائی حکومت کے کسی ادارے سے اسے اپروو بھی کروا لیا جاتا ہے، فرض کریں ایک لاکھ پیکٹ بنوائے گئے ہیں، فی پیکٹ خرچہ زیادہ سے زیادہ تمام اخراجات ڈال کر پچاس روپے سے زیادہ نہیں آئے گا، اسکی قیمت کم ازکم پانچ سو روپے رکھی جائے گی، تمام پیکٹس ہسپتالوں کے باہر مختلف میڈیکل سٹورز میں سیل بیس پر رکھوا دیئے جائیں گے، اگر بکے تو آپکو پیسے مل جائیں گے نہیں تو پیکٹ واپس مل جائیں گے، اگر میڈیکل سٹور والے کو فی پیکٹ پچاس روپیہ کمیشن دے دیا جائے، اور ہسپتال کے اندر موجود ڈاکٹرز سے سو روپیہ فی پیکٹ کمیشن پر ڈیل کرلی جائے تو بھی بنانے والے کو تین سو روپیہ فی پیکٹ بچت ہوجائے گی، ہر روز شام کو ہسپتالوں کے گرد میڈیکل سٹورز پر بکنے والے پیکٹس کا حساب کر کے ڈاکٹر اور میڈیکل سٹور والے کا حساب بیباک کر دیا جائے گا تاکہ سب دل جمعی سے اپنا اپنا کام کرتے رہیں اور کسی کو کوئی شکایت بھی نہ ہو، مریض پیکٹ کا ڈیزائن اور اوپر لکھی عبارت سے خوش ہوجائے گا، ڈاکٹر بیٹھے بٹھائے تنخواہ کے علاوہ صرف ایک دوائی لکھنے پر شام کو پندرہ بیس ہزار اکٹھا کرلے گا، میڈیکل سٹور والا بھی دو چار ہزار بنا لے گا، اور ایسا کاروبار کرنے والا تھوڑی سی انوسٹ منٹ سے روزانہ ساٹھ ستر ہزار کما لے گا، اس طریقے سے سب خوش ہو جائیں گے، اگر مریض میں ذرا بھی عقل ہو تو ڈاکٹر کے نسخے سے صرف دوائی خریدے اور فوڈ سپلیمنٹ کا ڈبہ خریدنے کی بجائے پھل، دودھ، انڈے اور مچھلی خرید کر کھا لے تو اندرونی طاقت آنے پر آدھی بیماری پر ویسے ہی قابو پا لے گا۔
(ڈاکٹروں کی بےایمانیوں پر لکھے جانے والے حقائق کا پہلا حصہ۔۔۔۔)
طارق_محمود#