ساہیوال حادثے سے بظاہر لگ رہا ہے کہ اہلکاروں نے نامکمل انٹیلی جنس انفارمیشن سے حاصل شدہ معلومات سے متاثر ہو کر اور جذبات میں آ کر بغیر سوچے سمجھے چشم وزدن میں ایک غلط فیصلہ کیا تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب حکومت کے لاء انفورسمنٹ اداروں میں آپس میں ربط نہیں ہے، انکی تربیت ایسے واقعات کو ہینڈل کرنے کیلئے صحیح طریقے سے نہیں کی گئی ہے، اگر یہ اہلکار عین وقت پر جذبات کی بجائے اپنا دماغ استعمال کرتے اور پچھلے ٹول پلازہ کے کیمروں کی مدد سے یہ پتا کروا لیتے کہ گاڑی میں کتنے لوگ موجود ہیں تو انہیں عورتوں اور بچوں کا پتا چل جانا تھا، اور ایسا جانی نقصان نہیں ہونا تھا، جو اب ہوا ہے، یہ ایک بدقسمت واقعہ تھا، جس سے سبق سیکھ کر حکومت کو پنجاب پولیس ڈپارٹمنٹ میں بغیر مزید وقت ضائع کئے ریفارمز کرنے کا آغاز کر دینا چاہئیے۔
ہمیں ایک اور چیز سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایسے واقعات دنیا کے کسی بھی ملک میں کہیں بھی ہوسکتے ہیں، فرسٹ ورلڈ میں ہر چیز آگنائزڈ ہوتی ہے اور تمام ادارے ایک پیج پر ہوتے ہیں، ٹیکنالوجی کی مدد حاصل ہوتی ہے اسکے باوجود ایسے واقعات ہوجاتے ہیں۔ سویڈن ٹیکنالوجی میں ایک ترقی یافتہ ملک ہے لیکن یہاں بھی ایسے واقعات ہوسکتے ہیں، بلکہ ہوتے بھی ہیں، کچھ سال پہلے سٹاک ہوم کے ایک علاقے میں پولیس کچھ تحقیقات کرنے ایک مکان کے دروازے پر گئی، ڈور بیل دی، اندر موجود عربی شخص چُھری لیکر کچن میں گوشت کاٹ رہا تھا، اس سے یہ غلطی ہوئی کہ اس نے چُھری سمیت گھر کا دروازہ کھول دیا، پولیس والے نے چُھری دیکھتے ہی اسے گولی مار دی، جس سے اسکی موت واقعہ ہو گئی، بعد میں تحقیقات ہوئیں، جس میں پولیس والے نے یہ موقف اختیار کیا کہ اسکے ہاتھ میں چُھری دیکھ کر مجھے اپنی جان کو خطرہ محسوس ہوا اور میں نے سیلف ڈیفینس میں اسے گولی مار دی۔
سال ڈیرھ سال پہلے میرے ساتھ بھی ایک ایسا واقعہ ہوچکا ہے، جب میں فیملی کے ساتھ یورپ کے چھ سات ممالک کے ٹور پر تھا اور سوئٹزرلینڈ کے شہر زیورخ سے گاڑی پر فرانس جارہا تھا، راستے میں سٹراس برگ پہلا فرانسیسی شہر آیا تو میں نے گاڑی موٹروے سے شہر کے اندر موڑ لی تاکہ بچوں کیلئے کچھ کھانے کی چیزیں خرید سکوں، ابھی ٹاؤن ہال کے نزدیک ہی آیا تھا کہ پولیس نے گاڑی کو روک لیا اور ایک سائیڈ پر پارکنگ کروا دی، ایک پولیس والا سامنے کھڑا مجھے دیکھتا رہا جبکہ دوسرا گاڑی کے گرد چکر لگا رہا تھا، سوئٹزرلینڈ میں ڈرائیونگ کے دوران ایک چھوٹے سے حادثے کی وجہ سے گاڑی کا بمپر ایک سائیڈ سے تھوڑا سا ڈیمیج ہوا ہوا تھا، پولیس والے نے میرا ڈرائیونگ لائسنس اور گاڑی کے کاغذات چیک کئیے، حادثے کے بارے میں پوچھا، میں نے اسے پولیس کی طرف سے ملنے والا کاغذ دکھا دیا، ابھی ہماری بات چیت جاری ہی تھی کہ میں نے بیک مرر میں دیکھا دوسرا پولیس والا گاڑی کے پیچھے کھڑا ڈگی کھول رہا تھا، میں نے اسے تلاشی کے دوران مدد دینے کیلئے گاڑی کا ڈرائیونگ سیٹ والا دروازہ کھول دیا، ابھی میں باہر نکلا ہی تھا کہ سامنے کھڑے پولیس والے نے مجھے خبردار کرتے ہوئے پستول کے ٹریگر پر ہاتھ رکھ لیا، مجھے فوراً اندر بیٹھنے کا کہا گیا، میرے لئے یہ بات حیران کن تھی، کیونکہ سویڈن میں پولیس ایسا سخت رویہ اختیار نہیں کرتی لیکن فرانس میں آبادی زیادہ ہونے اور کچھ پاگل لوگوں کے دوسروں پر گاڑیاں چڑھانے کے واقعات کی وجہ سے پولیس بہت بدتمیز ہوگئی ہے، اگر میرے گاڑی میں بیٹھنے میں کچھ دیر ہو جاتی، تو پولیس والے نے یقینا گولی مار دینی تھی، ایسی صورت میں وہی ہونا تھا، جو ساہیوال واقعہ میں ہوا، کیونکہ ان بچوں کی طرح میرے بچے بھی یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔
تھوڑی دیر تحقیقات کرنے کے بعد پولیس والے نے مجھے جانے کی اجازت دے دی، اسی دوران میرا چھوٹا بیٹا چائلڈ سیٹ سے اپنا بیلٹ اتار کر گاڑی میں کھڑا ہوگیا، پولیس والے نے گھور کر پوچھا کہ اسکو بیلٹ کیوں نہیں لگائی، میں اس بات پر بھی گاڑی تھانے میں بند کر سکتا ہوں، ہم بیٹے کو نیچے بٹھانے اور بیلٹ لگوانے کیلئے منت ترلا کر رہے تھے، لیکن بچہ کھڑا ہو کر پولیس والے کی طرف ہی دیکھ رہا تھا، خیر اللہ اللہ کر کے اسے نیچے بٹھا کر بیلٹ لگائی، پولیس والے سے معذرت کی اور وہاں سے نکل آئے۔ اس عزت افزائی پر ہم نے آگے پیرس جانے، وہاں کچھ دن رہنے کا پروگرام ملتوی کر دیا اور موٹروے سے گاڑی یورپ کے چھوٹے سے ملک لکسمبرگ کی طرف موڑ لی۔
قارئین یہاں راقم نے یورپ کی دو مثالیں پیش کی ہیں، جہاں پولیس نے جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال کے باوجود غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے، اور سخت سلوک کیا ہے، اگر یہاں پولیس نرمی اور برداشت سے کام لیتے ہوئے تحقیقات کرتی تو پولیس کی مزید عزت بھی بڑھ جانی تھی اور ذہنی پریشانی یا جانی نقصان بھی نہیں ہونا تھا۔
یورپ کے مقابلے میں پاکستانی پولیس انتہائی بے سروسامانی اور مالی پریشانیوں کا شکار ہے، انکے پاس انفراسٹکچر کی کمی ہے، جدید آلات اور بلٹ پروف جیکٹس نہ ہونے کے برابر ہیں، انہیں تربیت، ٹریننگ، اور تعلیم کی اشد ضرورت ہے، مختلف محکموں کی آپس میں انڈرسٹینڈنگ نہ ہونے کے برابر ہے، پولیس میں رشوت اور سیاسی وابستگی سے بھرتیاں کی جاتی ہیں، پروفیشنل ازم کی شدید کمی ہے، بدعنوانی اور رشوت ستانی عروج پر ہے، ایسے حالات میں آپ اس پولیس سے کیا توقع کرسکتے ہیں، اگر یہی سب کچھ چلتا رہا تو ماڈل ٹاؤن اور ساہیوال جیسے واقعات ہوتے رہیں گے، انہیں روکنے کی صرف ایک ہی صورت ہے اور وہ ہے پولیس ڈپارٹمنٹ میں جدید ترین اصلاحات اور پولیس بجٹ میں کم ازکم دوگنا اضافہ، تاکہ جدید ترین آلات خریدے جاسکیں اور پولیس ملازمین کو نفسیاتی اور ذہنی تربیت دی جاسکے اور انکی تنخواہوں میں اضافہ کیا جاسکے۔