قوم کی مسیحا ماں ڈاکٹر رتھ فاؤاس دارِ فانی سے کوچ کر چکی ہیں۔ بلاشبہ اتنی فرشتہ صفت ماں کی وفات بہت بڑا سانحہ ہے۔ہر انسان کے لیے موت ایک ابدی حقیقت ہے۔ مگر کچھ لوگوں کا اخلاق و کردار اتنا مسحورکن ہوتا ہے کہ ان کا اس دنیا کو چھوڑ کے جانا بہت تکلیف دہ اور صدمے کا باعث بنتا ہے۔ بلاشبہ ڈاکٹر رتھ فاؤ کا سانحہ ارتحال ہم پاکستانیوں کے لیے انتہائی افسوس ناک ہے۔
مرحومہ نے بلا تفریق رنگ و نسل کے تمام انسانوں کی خدمت کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ اک ایسا مرض جس میں مبتلا مریض کا سایہ بھی ساتھ چھوڑ جائے۔ مریض کے اپنے عزیز و اقارب کوڑھ جیسے موذی مرض میں مبتلا شخص کو سسک سسک کر مرنے لیے چھوڑ کر راہ فرار اختیار کر لیں۔ کوڑھ کے مریض سے آنے والی بدبو اپنوں کے لیے ناقابل برداشت ہو جاتی ہے۔ اور پاکستان جیسے جہل زدہ معاشرے میں کوڑھ کے مرض کو لا علاج اور خدائی عذاب سمجھا جاتا تھا۔ ایسے معاشرے کے لیے وہ فرشتہ بن کر جلوہ گر ہوئیں۔اپنی تمام عمر اپنی زندگی کا اک اک لمحہ کوڑھ کے خاتمے کے لیے وقف کردیا۔ اور پھر دنیا نے مسیحائی کو مجسم صورت میں ڈاکٹر رتھ فاؤ کی صورت میں دیکھا۔
ماں کے صادق جذبات اور لگن کی جیت ہوئی اور کوڑھ کے مرض کا ایشیا کے تمام ممالک میں سب سے پہلے پاکستان سے خاتمہ ہوا۔ ان کی خدمات کا لفظوں میں بیان ممکن نہیں ،ان کی شخصیت ان کی رحمدلی اور جدوجہد کی تعریف کے لیئے الفاظ سے صورت گری ممکن نہیں ۔ آج پاکستان میں کوڑھ کا مرض معدوم ہو چکا ہے۔ مگر بدقسمتی سے اس سے بھی زیادہ مہلک مرض بہت تیزی سے پھیل چکا ہے۔ اس مرض کو دماغ کا کوڑھ کہتے ہیں ۔میرے ملک کی اکثریت اس مرض کی شکار ہو چکی ہے۔ دماغی کوڑھ جسمانی کوڑھ سے زیادہ خطرناک اور جان لیوا مرض ہے۔کوڑھ کا مرض تو محض مریض کو اذیت میں مبتلا کرتا ہے۔مگر دماغی کوڑھ میں مبتلا شخص پورے معاشرے کی اذیت کا باعث بنتا ہے۔ دماغی کوڑھ میں مبتلا شخص اپنے خیالات کے تعفن سے پورے معاشرے کو ذہنی اور جسمانی اذیت کا شکار کر دیتا ہے۔ اس بیماری کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ اس میں مبتلا شخص کو قطعی طور پر اس کی ہلاکت خیزی کا ادراک نہیں ہوتا۔بلکہ وہ اس تعفن کو خوشبو سمجھ کر معاشرے میں بانٹ رہا ہوتا ہے۔
دماغی کوڑھ کے عارضے میں مبتلا یہی لوگ کوڑھ کے مرض کے خاتمے کے لیے اپنی زندگی کو وقف کرنے والی مہربان مہان ہستی کو بھی اپنے نشانے پر رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی وفات کے بعد ان کی خدمات کو سراہنے کی بجائے جنت دوزخ کے فیصلے کرنے میں مشغول ہیں۔ کوڑھ مغزی میں مبتلاء ان مریضوں کا وطیرہ بن چکا ہ۔ معاشرے اور انسانیت کی خدمت کرنے والی ہر مہان ہستی ان کی کوڑھ مغزی کا شکار ہوتی ہے۔ خدائی فیصلے کرنا انسان کا اختیار نہیں مگر یہ مریض اس اختیار کے حصول کے لیے دن رات کوشاں ہیں۔ ان کے متعفن ذہن سے انسانیت کی خدمت کرنے والا اور مخلوق خدا سے محبت کرنے والا کوئی مسیحا محفوظ نہیں۔ عبدالستار ایدھی ڈاکٹر عبدالسلام اور اب ڈاکٹر رتھ فاؤ۔ ہر وہ شخص جو دکھی انسان کے چہروں پر خوشی بکھیرے وہی ان کا دشمن ہے۔ ان کوڑھ مغزوں کی اذیت سے نہ تو زندہ مسیحا محفوظ ہیں نہ مرنے والے۔ افسوس اس کوڑھ کے علاج کے لیے جس سطح پر مسیحائی کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے کوئی چارہ گر نظر نہیں آتا۔۔۔ کوڑھ مغزی کے علاج کے لیے چارہ گر کی تلاش کریں۔ مسیحا ہمیں خود تلاش کرنا ہوگا۔ اپنی فہم کو استعمال کریں تو مسیحائی ممکن ہے۔ (مکالمہ ڈاٹ کام)
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: justify; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}