Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
265

قبلہ ہمارا ، نہ چین نہ امریکا

ویسٹرن الائنس کو خیر باد کہہ کر مطلقاً چائنہ کیمپ میں شامل ہو جانے کی صورت میں پاکستان میں خرابئیِ بسیار کیبعد پنپتی ہوئی جمہوریت کو شدید خطرات کا سامنا ہو گا . اس بار اگر جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی تو عشروں تک اسکی بحالی ناممکنات میں سے ہو گی . انفرادی طور پر آدمی اپنی اختیار کی گئی صحبت سے پہچانا جاتا ہے تو بلاد العالم میں سے کسی مملکت کے خدوخال معلوم کرنا ہوں تو اس سے متعلقہ ممالک کو دیکھ کر بخوبی انداز لگایا جا سکتا ہے۔

اگر ہم مکمل طور پر مشرف با چین ہو گئے تو چائنہ برما ، نارتھ کوریا اور روس کے جمہوریت سے متعلق اقدامات کا جائزہ لیکر پاکستان کے آئندہ عشروں کے امکانات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے . برما ہی کو لے لیں ، جہاں عشروں کی آمریت کیبعد اب بھی نوخیز جمہوریت جانکنی کی سی حالت میں ہے . برماوی فوج اپنی مسلم اقلیت کی جو بدترین نسل کشی کر رہی ہے ، چائنہ اسکی نا صرف مکمل حمایت کر رہا ہے بلکہ اسکے لیے عالمی حمایت کا پر جوش طلبگار ہے اور غالب امکان ہیکہ اقوام متحدہ میں برماوی مسلمانوں سے یکجہتی اور انکی سیاسی حمایت و امداد کیلئے ممکنہ عالمی کوششوں کی بھی مخالفت کرے گا۔

عوامی شعور کو دبانے کیلئے چین کا اپنا بدترین کردار کسی سے پوشیدہ نہیں ، نوے کے عشرے میں تیانمین اسکوائر پر طلباء کے ایک مظاہرے کے دوران معصوم نہتے طلباء پر چینی فوج نے ٹینک چڑھاتے ہوئے بے شمار سویلئنز کو ہلاک کر کے عالمی رسوائی مول لی تھی جس پر وہ کبھی بھی پشیمان تک نہیں ہوئے . وہاں مسلم اقلیت کیساتھ جو ناروا سلوک کیا جاتا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ، نہ انکو نام رکھنے کی آزادی ہے اور نہ ہی انکو مذہبی رسومات کی ادائیگی کی اجازت ہے . روزہ رکھنے پر بھی جہاں روک ٹوک ہو ، دیگر معاملات کا اندازہ لگایا ہی جا سکتا ہے . مسلم اکثریتی صوبے اغیور میں درجنوں پاکستانیوں نے شادیاں کی ہوئی تھیں۔

 ابھی پچھلے دنوں انکی بیویاں اور بچے اچانک غائب کر دیئے گئے . اپنے بیوی بچے ڈھونڈتے پاکستانیوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا . نہ مقامی انتظامیہ کچھ بتاتی اور نہ ہی پاکستانی سفارتکار اپنے ہموطنوں کی مدد کرنے کی پوزیشن میں تھے . بلکہ انکے ویزوں کی تجدید میں بھی طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالی جانے لگیں . اس طرح کے اسلام یا پاکستان مخالف معاملات کی میڈیا کو انڈیا یا مغربی ممالک سے بھنک پڑ جائے تو طوفان کھڑا کرنے والی پاک قوم چائنہ کے معاملہ میں چپ کا روزہ رکھ لے ، باعث تعجب ہے . چائنہ کے انسانی حقوق اور مسلمانوں پر مظالم پر ہم اس وقت تک نہ بولے جب تک ہمارا تعلق نہیں تھا . مگر پاکستانیوں کے بیوی بچے غائب کر دیئے جائیں ، اس سے ہمارا تعلق بنتا ہے اور سفارتی چینلز کا استعمال کرنا چاہیے اور فیملی ری یونین کی کوشش کرنی چاہیے جو کہ ہمارے بھائیوں کا انسانی حق ہے .

خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر اگر رنگ پکڑتا ہے تو پاکستانی شہریوں کیلئے تو موجبِ پریشانی ہی ہونا چاہئے کہ چائنہ کے زیر اثر اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے پاکستان کا عشروں کا جمہوری سفر رائیگاں نہ ہو اور اسلامی اقدار کے خلاف سمجھوتہ نہ کرنا پڑ جائے . مگر شھد سے میٹھی دوستی کے خمار نے ہمیں اپنے اسلامی ، تاریخی اور جمہوری اقدار اور وسیع تر دیرپا مفادات سے لا تعلق کیا ہوا ہے . سیپیک کے ضمن میں پاکستانی عوام نالاں ہیں کہ چینیوں کا رویہ ایسٹ انڈیا کمپنی جیسا ہوتا جا رہا ہے۔

وہ چینی جن کی اپنے ملک میں احتجاج تو دور کی بات پولیس کے سامنے اف کرنے کی بھی مجال نہیں ہوتی ، ان میں اتنی ہمت کہاں سے آ گئی کہ پولیس کی گاڑی پر چڑھ کر اچھل کود کریں اور ہماری پولیس سے دست و گریبان ہوں اور ہماری پولیس انکی ضربوں سے بچنے کیلیے گاڑی کے اندر دبکی پڑی ہو اور پھینے لوگ چاروں طرف سے مکوں لاتوں سے گاڑی پر ضربیں برسا رہے ہوں۔ ہماری پولیس کو مہمانوں کے خلاف ایکشن کا کوئی مینڈیٹ تھا ہی نہیں تو جوابی اقدام کا تو سوال ہی نہیں تھا . تاہم انتہائی خوشی کی بات ہے کہ اس موقع پر عوام نے پاکستانی ادارے کا ساتھ دیا اور چینیوں کی زیادتی کو صاف نا پسند کیا . یہ بیدار ہوتے سیاسی و قومی شعور کی علامت ہے تو دوسری طرف سیپیک میں عدم شفافیت اور چینی لیبر کے بے ہنگم ہجوم اور ہوٹلوں میں پکنے والی کتا کڑھائی پر عوام کی ناراضگی کا اظہار ہے . پاکستانی عوام یہ بھی چاہتے ہیں کہ دو طرفہ معاملات میں شفافیت اور عوام تک معلومات کی رسائی ہو اور چائنہ کو سہولتیں دیتے دیتے کسی بھی طور مقامی تاجروں اور صنعتکاروں کے حقوق متاثر نہ ہوں۔

چینیوں کو پاکستان میں میسر ویزہ اور دیگر سہولتوں کے بدلے میں پاکستانی صنعتکاروں اور تاجروں کو یکساں سہولتوں کو یقینی بنانے کیلیے سفارتی کوششوں کی ضرورت ہے . فی الحال چائنہ کے ویزے کے حصول کیلیے ہمارے لوگوں کو امتیاز اور بیشمار مسائل کا سامنا ہے . جائیداد خریدنے کے چینیوں کو دیئے گئے اختیار سے جہاں زمینوں کے نرخ پاکستانیوں کی پہنچ سے دور ہو جائیں گے اور فلسطینیوں کی سی صورتحال پیدا ہونے کا احتمال ہو سکتا ہے . ارباب اختیار و مقتدرہ کو بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے . پاکستان اور اسکے باشندوں کا مفاد ہمارے تمام اداروں کیلیے مقدم ہونا چاہیے . اگر توجہ نہ دی گئی تو “فرینڈز ناٹ ماسٹرز” کے نئے ایڈیشن کو پبلش ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔

یاد رہے اسلام کے نام پر مملکت پاکستان کا ظہور جمہوریت ہی کے زریعے ہوا تھا اور استحکام پاکستان اور اسکی خوشحالی کی کنجی بھی جمہوریت ہی ہے . قریب ہے کہ بلاد العرب بھی جمہوری زینے چڑھیں ، ہمارے ہاں اسلامی جمہوری اقدار اگر غالب رہیں تو عین ممکن ہے ہمارے جمہوری اداروں کو نوخیز عرب جمہوری اداروں کو پنپنے کیلیے ضروری ایکسپرٹیزمہیا کرنے کا موقع ملے . ہم عوام اور دیگر اداروں کو چاہیے ہو گا کہ اپنے ہاں اسلامی جمہوری اقدار کے تسلسل کو پورا پورا موقع دیں . یاد رہے بدترین جمہوریت برتر آمریت سے بحرحال بہتر ہوتی ہے۔

جمہوریت دوست عالمی برادری خصوصاً برطانیہ اور یورپی یونین کو بھی سمجھنا ہو گا کہ ٹرمپ کی پالیسیاں پاکستان کو مغربی جمہوری ممالک سے دور کر کے آخرکار پاکستان کی جمہوریت کیلئے بھی خطرے کا باعث بنیں گی . یورپی عمائدین کو ٹرمپ پالیسیز کے ردعمل میں پاکستان کو دور جانے سے روکنا ہو گا اور یہ صرف اس صورت ممکن ہو گا اگر یہ ممالک اندھا دھند ٹرمپ کی تقلید نہ کرنے لگیں . ٹرمپ کی روایات شکن پالیسیاں عالمی انتشار اور کساد بازاری کا موجب بنیں ، یہ یورپیوں کیلیے بھی خطرناک ہو گا۔

چائنہ اور مغربی ممالک سے اعتدال پر مبنی متوازن تعلقات ہمارے وسیع تر ملکی مفاد میں ہیں اور صرف اسی صورت میں پاکستان میں جمہوریت کا تسلسل قائم رہ سکے گا . اپنا پورا وزن ایک بلاک میں ڈال دینا غیر دانشمندانہ اقدام ہو گا اور ملکی حالات کسی ایسے غیر دانشمندانہ اقدام کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں