280

ہماری نوجوان نسل اور سیاسی جماعتیں۔

بچہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوتا کہ والدین اُس کی شکل و صورت اور اُسکی آنے والی زندگی کیلیۓ پلاننگ شروع کر دیتے ہیں۔ اکثر والدین اپنی گود میں بچے کو اُٹھائے جب سکول جاتے بچے دیکھتے ہیں۔ تو وہ سوچتے ہیں۔ اگلے سال اُنکا بیٹا بھی سکول جائے گا۔ اِسی طرح جوان ہونے تک والدین دوسروں کی اولاد کو دیکھ کر اپنی اولاد کے مستقبل بارے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ پلاننگ کرتے رہتے ہیں۔ جب بچہ جوان ہوتا ہے تو یہ اُس پھل کی طرح ہوتا ہے جس کے مالی کی زندگی کا سارا دارومدار صرف پھل پر ہوتا ہے۔ وہ پھل ہوا سے زمین پر گر کر داغی یا خراب نہ ہو اس کیلیۓ وہ ہر پل دعائیں مانگتا رہتا ہے۔ یہی حال اولاد کے جوان ہونے پر والدین کا ہوتا ہے۔

لیکن جب بچہ جوان ہوتا ہے تو وہ والدین کے اُس کڑے پہرے سے نکلتا ہے۔ وہ پرندے کے بچے کی طرح اُڑنے کی کوشش کرتے ہوئے اکثر گِر پڑتا ہے۔ لیکن اگر ایک بھائی کو گرتا دیکھ کر دوسرے اُن غلطیوں سے سیکھ کر پروان بھریں تو وہ گرنے سے بچ سکتے ہیں۔

آج ہمارے اردگرد سیاست ایک ایسا موضوع ہے جس پر سب سے زیادہ بحث ہوتی ہے۔ چھ سال پہلے تک سیاست سے نواجونوں کی اکثریت دور ہی رہتی تھی۔ لیکن خان صاحب کے مینار پاکستان پر لینڈ ہونے کے بعد نواجون نسل نے سیاست میں بہت زیادہ دلچسپی لینی شروع کر دی ہے۔ اب ہر جگہ گلی محلے، سکول کالجز، سرکاری سرکاری و نجی دفاتر حتی کہ سفر کرتے ہوئے گاڑیوں میں بھی نوجوانوں کا سب سے اہم موضوع سیاست ہوتا ہے۔

تصویر میں موجود اس نوجوان کا نام عامر ہے۔ آج ٹی وی پر خبر چلی کہ یہ ن لیگ کا حامی اور سیکنڈ ائیر کا طالب علم تھا۔ انصاف سٹوڈنٹ فیڈریشن اور ن لیگ کے حامیوں کے درمیان ہونے والی لڑائی میں آہنی راڈوں اور ڈنڈوں کا استعمال ہوا۔ جس کے نتیجے میں عامر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے فوت ہو گیا جبکہ متعدد کارکنان زخمی ہیں۔

میں کسی ایک پارٹی کو اس کا الزام نہیں دوں گا۔ ایسے واقعات ہمارے لیئے کوئی نئے نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں یہ شروع سے چلتا آ رہا ہے۔ اِسی طرح مشرف دور میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات پر میرے گاوں میں ایک ایسی لڑائی کا آغاز ہوا تھا جو اب تک چالیس سے زیادہ بندے کھا گئی ہے لیکن پھر بھی ختم ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ مجموعی طور پر اب ہماری عوام خاص کر نوجوان نسل سیاست کو لے کر بہت زیادہ جذباتی ہو جاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر ہم تمام پارٹیوں کے کارکنوں اور حامیوں کو گالی گلوچ اور شدت سے ایک دوسرے کی مخالفت کرتے دیکھتے ہیں۔ اکثر اس لڑائی نے بچپن کے یارانے ختم کروائے ہیں۔ طالبعلموں نے اپنے استادوں کو طنز و تشنیع کے تیروں سے زیر کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ بڑوں اور چھوٹوں میں تمیز بالکل ختم ہو گئی ہے۔

اِس افراتفری اور ہیجانی کیفیت میں اپنے بھائیوں کو بس یہی کہوں گا کہ کسی بھی سیاسی لیڈر کیلیۓ لڑتے، جھگڑتے اور اپنے سالوں سے قائم خوبصورت تعلقات کو داو پر لگانے سے پہلے سوچ لیجیۓ گا کہ آپ کے لیڈر کو آپ کی کتنی پرواہ ہے۔ کیا آپکو کچھ ہونے پر وہ آپکی مدد کرے گا؟ اگر کرے گا تو کس حد تک کرے گا؟ اور اُسکے بعد اُن والدین کا کیا ہو گا جنہوں نے اپنی زندگی کے بہترین سال تمہاری پرورش کرنے اور تمہارے مستقبل کے خواب دیکھنے میں گزار دیئے ہیں۔؟

یہ سیاستدان زیادہ سے زیادہ جا کر آپکے گھر فاتحہ پڑھ لیں گے۔ آپ کے گھر والوں کو ہر ممکن تعاون کا یقین دلائیں گے۔ زیادہ سے زیادہ کسی امداد کا کااعلان بھی کر دیں گے لیکن بعد میں وہ چیک یقیننا بوگس ہی نکلے گا۔ اور اگر وہ انصاف کا یقین دلائیں جبکہ آپکے مخالفین طاقتور ہیں تو پھر آپ اُسکی اُس یقین دہانی کو بھی ووٹ لینے کیلیۓ کیا گیا وعدہ ہی سمجھیں۔ اِس لیے خدارا سیاست و مذہب پر بحث ضرور کریں لیکن جیسے ہی آپکو محسوس ہو کہ آپ ٹھیک ہیں لیکن اختلاف شدت اختیار کر جائے گا۔ تو خاموش ہو جائیں۔ ہار مان لیں۔ اِس میں آپکی شان میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہاں لیکن آپ اِس عمل سے اپنے بہترین دوستوں، رشتے داروں اور بزرگوں سے قائم عزت و احترام کا رشتہ برقرار رکھ سکیں گے۔ جو کسی بھی لیڈر سے قائم آپکے رشتے سے بہت زیادہ مضبوط ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں